دلیپ کمار ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۲ءکو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پھلوں کے تاجر غلام سرور خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔
EPAPER
Updated: December 11, 2024, 12:50 PM IST | Agency | Mumbai
دلیپ کمار ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۲ءکو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پھلوں کے تاجر غلام سرور خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔
ہندوستانی فلمی صنعت کے قدآور اداکار دلیپ کمار، جو شہنشاہ جذبات کے لقب سے مشہور ہیں، کی شہرت اور مقبولت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ ’بگ بی‘ کہے جانے والے اداکارامیتابھ بچن کا کہنا ہے ’’ہندوستانی فلموں کی تاریخ ۲؍ حصوں میں لکھی جائے گی، ایک دلیپ کمار سے پہلے اور دوسرا حصہ دلیپ کمار کے بعد کی تاریخ پر مبنی ہوگا کیونکہ فلمی صنعت پر ان کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ ‘‘
دلیپ کمار ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۲ءکو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پھلوں کے تاجر غلام سرور خان کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ اصل نام یوسف خان ہے۔ چونکہ ان کے والد کے پھلوں کے باغات ناسک (مہاراشٹر) کے قریب تھے، اس لئے ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ناسک کے قریب دیولالی کے برنس اسکول سے ہوا تھا۔ ۱۹۳۲ء میں ان کے خاندان نے ہمیشہ کیلئے ممبئی کو اپنا ٹھکانہ بنالیا، جہاں انجمن اسلام اسکول(بوری بندر) سے میٹرک اور خالصہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد انہیں پونےکی ملٹری کینٹین میں منیجر کی نوکری مل گئی۔
۱۹۴۳ء میں دلیپ کمار کی ملاقات بامبےٹاکیز کے مالکان دیویکا رانی اور ان کے شوہرہمانشو رائے سے ہوئی جنہوں نے انہیں اپنی فلم کےمرکزی کردار کیلئے کاسٹ کرلیا۔ یہ فلم ۱۹۴۴ء میں ’جوار بھاٹا‘ کے نام سے شروع ہوئی جو ان کا بالی وڈ میں ڈیبیو ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں ہندی زبان کے مصنف بھگوتی چرن ورما نے یوسف خان کو دلیپ کمارکا نام دیا تھا۔ ۱۹۴۷ء کے ہنگامہ خیز سال میں جہاں ان کی فلم ’ملن‘ نے ناکامی کا منہ دیکھا وہیں شوکت حسین رضوی کی ہدایتکاری میں ان کی چوتھی فلم ’جگنو‘ نے دھماکہ خیز کامیابی حاصل کی۔ اس فلم کی ہیروئن شوکت رضوی کی شریک حیات اور بعد میں ملکۂ ترنم کا خطاب پانےوالی گلوکارہ و اداکارہ نورجہاں تھیں۔ فلم کی کامیابی سمیٹتے سمیٹتے شوکت رضوی اور نورجہاں پاکستان ہجرت کر گئے۔ تاہم، وہ جاتے جاتےہندی سینما کو وہ تحفہ دے گئےجس نے ’جگنو‘ جیسی ہی روشنی پائی۔ ۱۹۵۲ء میں ہدایتکار محبوب خان کی فلم ’آن‘ میں دلیپ کمار ایک زبردست ٹیکنی کلر کردار کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے، اس کے باوجود بعض نقادوں کا ماننا تھا کہ وہ دوسری قسم کے کرداروں کو ادا نہیں کرپائیں گے۔ ۱۹۵۴ء تا ۱۹۵۸ء ’جوگن‘، ’آرزو‘، ’بابل‘، ’ترانہ‘، ’داغ‘، ’دیدار‘، ’دیوداس‘، مدھومتی‘ اور ’یہودی‘ جیسی ناقابل فراموش فلموں میں انہوں نے المیہ اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ انہیں ’ٹریجڈی کنگ‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ موخر الذکر ۳؍ فلموں کے ہدایتکار بمل رائے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ بمل رائےکی تخلیقات کو اگر بلراج ساہنی کے علاوہ کسی نے بھرپور انداز میں پیش کیا ہے تو وہ دلیپ کمار ہی ہیں۔ اپنے ۵۴؍ سالہ فلمی کریئر میں انہوں نے سینما پر ایک بادشاہ کی طرح راج کیا اور سیکڑوں ایوارڈ حاصل کئے۔ دلیپ کمار سب سے زیادہ تعداد میں ایوارڈ جیتنے والے ہندوستانی اداکار کا گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز بھی اپنے نام کر چکے ہیں۔ انہیں ہندی سنیما کے سب سے بڑے اعزاز ’دادا صاحب پھالکے‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ساتھ ہی وہ پدم بھوشن ایوارڈبھی حاصل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہری اعزاز ’نشانِ پاکستان‘ سمیت لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ اور دیگر بیشمار فلمی ایوارڈز سے بھی سرفراز ہو چکے ہیں۔ حالانکہ ۷؍جولائی ۲۰۲۱ء کو وہ اس فانی دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے لیکن اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں وہ آج بھی زندہ ہیں۔