• Thu, 30 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

برسی پر خراج عقیدت: سہراب مودی کی فلمیں دیکھنے نابینا افراد بھی آتے تھے

Updated: January 28, 2025, 12:06 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

سہراب مودی ایک ایسے اداکار اور ہدایت کار تھے جنہیں تاریخی فلمیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ انہیں تاریخی فلموں کا رستم بھی کہا جاتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائےکہ وہ تاریخی فلموں کے باوا آدم تھے، تو یہ غلط نہ ہوگا۔

Sohrab Modi in a scene from the movie `Raj Hath`. Photo: INN
سہراب مودی فلم ’راج ہٹ‘ کے ایک منظر میں۔ تصویر: آئی این این

سہراب مودی ایک ایسے اداکار اور ہدایت کار تھے جنہیں تاریخی فلمیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ انہیں تاریخی فلموں کا رستم بھی کہا جاتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائےکہ وہ تاریخی فلموں کے باوا آدم تھے، تو یہ غلط نہ ہوگا۔ ۲؍ نومبر۱۸۹۷ءکوممبئی میں پیدا ہونے والے اس پارسی ہدایت کار اور اداکار نے تاریخی فلمیں بنانےکا اپنا ایک الگ اسلوب ایجاد کیا۔ انہوں نے سماجی اور قومی مسائل پر بھی بڑی شاندار فلمیں بنائیں۔ سہراب مودی کو شائقین کی طرف سے ہمیشہ زبردست پذیرائی ملی۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدوہ گوالیار میں لوگوں کو چلتی پھرتی فلمیں دکھانے لگے۔ ان کے بھائی لیکی مودی نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ۱۶؍سال کی عمر میں انہوں نے گوالیار میں پروجیکٹرپرفلمیں دکھانا شروع کردیں۔ ۲۶؍برس کی عمرمیں انہوں نے آریا تھیٹر کمپنی قائم کی۔ انہوں نے پارسی تھیٹراداکار کی حیثیت سے اداکاری کا سفر شروع کیااور پھر کچھ خاموش فلموں میں بہت مقبولیت حاصل کی اور اپنی تھیٹر کمپنی کے ساتھ پورے ہندوستان کاسفرکیا۔ ۱۹۳۱ءمیں جب بولتی فلموں کا آغاز ہوا، تو اس وقت تھیٹر روبہ زوال تھا۔ اس زوال پذیرآرٹ کو بچانے کیلئے سہراب مودی نے ۱۹۳۵ءمیں اسٹیج فلم کمپنی قائم کی۔ ان کی پہلی دو فلمیں ’’خون کا بدلہ خون‘‘(۱۹۳۵ء)شیکسپیئرکے ڈرامے ہیملٹ سے ماخوذ تھی۔ یہیں سے سائرہ بانو کی والدہ نسیم بانو کا فنی سفر شروع ہوا۔ دوسری فلم بھی شیکسپیئر کے ڈرامے کنگ جون سےماخوذ تھی۔ یہ دونوں فلمیں فلاپ ہوگئیں۔ ۱۹۳۶ءمیں انہوں نے منروا مووی ٹون کاآغاز کیا۔ اب انہوں نے سماجی موضوعات پر فلمیں بنانا شروع کیں۔ ان کی فلم میٹھا زہر بہت پسند کی گئی۔ یہ فلم مے نوشی کے خلاف بنائی گئی تھی، اسی طرح ۱۹۳۸ءمیں انہوں نے’طلاق‘ بنائی، یہ بھی باکس آفس پر کامیاب رہی۔ اب سہراب مودی کے ذہن پرتاریخی فلمیں بنانے کا جنون سوار ہوگیا۔ انہوں نے۱۹۳۹ءمیں ’پکار‘ بنائی، یہ شہنشاہ جہانگیر کی انصاف پسندی کی داستان تھی۔ یہ فلم زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس فلم میں چندر موہن اور نسیم بانونےمرکزی کردار ادا کیے تھے۔ ۱۹۴۱ء میں انہوں نے اپنی سب سے بڑی فلم’سکندر‘ بنائی۔ پرتھوی راج نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے انوکھے موضوع نے اسےبہت شہرت دی۔ فلم’جیلر‘ نے بھی سہراب مودی کے وقار اور عزت میں اضافہ کیا۔ ۱۹۴۰ءمیں بننے والی فلم’بھروسہ‘ بھی چونکا دینے والی تھی۔ ۱۹۵۰ءمیں ان کی ایک اور اچھوتی فلم’شیش محل‘ کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ کا تذکرہ ضروری ہے۔ فلم’شیش محل‘ جس سینما میں دکھائی جا رہی تھی، وہاں ایک شو کے دوران سہراب مودی خود موجود تھے۔ اچانک انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ وہ بہت پریشان ہوئے کہ ان کی فلم کی یہ پذیرائی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے سینما کے ایک ملازم سے کہا کہ اس شخص کو باہر لے جائو اور اسے ٹکٹ کے پیسے واپس کردو۔ چند لمحوں کے بعد وہ ملازم حیرت کی تصویر بنا واپس آیا اور اس نے سہراب مودی کو بتایا کہ وہ ایک اندھا شخص ہے اور وہ صرف سہراب مودی کے ادا کیےہوئےمکالمے سننے آیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سہراب مودی نہایت تیکھی آوازکے مالک تھے اور ان کے مکالموں کی ادائیگی کا بھی کوئی جواب نہ تھا۔ 
 ۱۹۸۰ءمیں انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈحاصل کرنے والے وہ دسویں فنکار تھے۔ ناقابل فراموش فلمیں بنانے والا یہ انمول فنکار۲۸؍جنوری ۱۹۸۴ء کو سرطان کے مرض کی وجہ سے اس جہان ِفانی سے کوچ کر گیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK