۱۰؍ سال کے مختصر سے عرصے پر محیط اپنے فلمی کریئر میں انہوں جتنی کامیابی حاصل کی، جونام کمایا، وہ بہت کم لوگوں کے حصہ آتا ہے، ان کی کامیابی پر اندرا گاندھی نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا تھا۔
EPAPER
Updated: October 15, 2023, 11:52 AM IST | Anees Amrohvi | Mumbai
۱۰؍ سال کے مختصر سے عرصے پر محیط اپنے فلمی کریئر میں انہوں جتنی کامیابی حاصل کی، جونام کمایا، وہ بہت کم لوگوں کے حصہ آتا ہے، ان کی کامیابی پر اندرا گاندھی نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا تھا۔
۱۹۷۶ء کی بات ہے۔ فلمی دُنیا کے مشہور فلمساز وہدایتکار شیام بنیگل نے ٹی وی پر انائونس منٹ کرتی اور خبریں پڑھتی ہوئی ایک سانولی سی لڑکی کو دیکھا۔ انہوں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر یہ فیصلہ کر لیا کہ یہی اور صرف یہی لڑکی ان کی اگلی فلم ’نشانت‘ کا مرکزی کردار ادا کرے گی۔ اس طرح ٹی وی کے چھوٹے سے اسکرین پر خبریں پڑھنے والی سمیتا پاٹل فلم ’نشانت‘ کے ذریعہ بڑے پردے پرآگئیں۔ اس کے بعد جو سلسلہ چلا تو پھر ایک کے بعد ایک فلموں سے وہ فلم انڈسٹری پر چھا گئیں۔
۱۷؍ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو پونے کے نائیڈو اسپتال میں سمیتا پاٹل کا جنم ہوا تھا۔ اسی اسپتال کے اسٹاف کوارٹرز میں انہوں نے اپنی بڑی بہن انیتا اور چھوٹی بہن گیتا کے ساتھ کھیلنا شروع کیا تھا اور بچپن کے سہانے دن گزارے تھے۔ ان کے والد شیواجی رائو پاٹل جو دھولیہ ضلع کے رہنے والے تھے مگر تلاش معاش کے سلسلے میں پونے چلے گئے تھے۔ جنگ آزادی میں وہ سانے گروجی کے ساتھ کود پڑے اور ۱۹۴۳ء کی تحریک سے وابستہ ہو گئے۔ اس سلسلے میں انہیں انگریز سرکار کی طرف سے عمر قید ہو گئی تھی۔ سمیتا پاٹل کی والدہ وِدیا پاٹل پونے کارپوریشن کے زیر اہتمام جاری نائیڈو اسپتال میں میڈیکل اسسٹنٹ کے طور پر ملازم تھیں۔
سمیتا پاٹل سانولے رنگ کی خالص ہندوستانی عورت تھیں۔ ان کی نجی زندگی میں بھی بہت سادگی تھی۔ وہ شوٹنگ کے علاوہ ہمیشہ بغیر میک اپ کے رہتی تھیں بلکہ شیام بنیگل کی فلم میں تو ان کے میک اپ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ ان میں ایک خاص بات جو انہیں دوسری ہمعصر اداکارائوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی انکساری تھی۔ انہوں نےکبھی اس بات کا احساس نہیں دلایا کہ وہ ایک بڑی اسٹار ہیں بلکہ ہمیشہ پوری یونٹ کا ایک حصّہ ہی خود کو سمجھا۔ انہوں نے ہمیشہ ایک آزاد ہندوستانی عورت کی نمائندگی کی۔ ’’منتھن، ارتھ، اور حادثہ‘‘ جیسی فلمیں اس بات کی گواہ ہیں کہ اس طرح کے کردار انہیں خاص طور پر پسند تھے۔ سمیتا کی کمرشیل فلموں نے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ صرف آرٹ فلموں کیلئے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ہر طرح کے کردار کو بخوبی نبھا سکتی ہیں۔
فلموں میں پوری طرح سے مصروف ہونے کے باوجود وہ سماجی زندگی سے الگ نہیں ہوئیں ۔ بالکل آزادانہ خیالات اور حساس دل ودماغ کے ساتھ اپنے اطراف ہونے والے واقعات سےخود کو جڑا ہوا محسوس کرتی رہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو کبھی فلم کے پردے پر چپکا ہوا محسوس نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی کا، اپنے روز مرّہ کا ایک بڑا حصّہ اپنی ذات اور سماج کیلئے بچائے رکھا۔ ان کی تعلیم انگریزی میڈیم سے ہوئی تھی لیکن ان کی مادری زبان مراٹھی تھی، اس کے باوجود ہندی روانی سے بولتی تھیں۔ اسی طرح ملیالم اور تیلگو زبانوں کی فلموں میں بھی انہوں نے کردار ادا کئے اور اِن زبانوں کو بھی اُسی ماہرانہ انداز میں ادا کیا جس طرح مراٹھی یا ہندی زبانوں کو ادا کیا۔ سمیتا پاٹل اور شبانہ اعظمی میں ایک طرح کی مقابلہ آرائی تھی، اس کے باوجود دونوں نے کئی فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔ ’نشانت، ارتھ اورمنڈی‘میں دونوں نے ساتھ کام کیا۔ ان فلموں میں شبانہ اعظمی مرکزی کردار میں تھیں ،اس کے باوجود سمیتا نے اپنے کردار سے فلم شائقین کوکافی متاثر کیاتھا۔
راج ببر سے اپنے عشق اور پھر شادی کی بات کو انہوں نے کبھی چھپایا نہیں۔ یہ بات انہیں ایک طرح سے وراثت میں ملی تھی۔ ان کے والدین بھی اسی طرح کی بولڈ زندگی گزارنے میں یقین رکھتے تھے۔ ایک بار اسی سلسلے میں جب وِدیا پاٹل سے کہا گیا تو انہوں نے بغیر کسی جھجک کے کہا تھا ’’سمیتا جس سے شادی کرنا چاہے، کر سکتی ہے۔ ہم کو اس معاملے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘ محض۱۰؍ سال میں اتنی شہرت،اتنی مقبولیت اور اتنی بڑی کامیابی صرف کسی کسی کے نصیب میں آتی ہے۔ سمیتا پاٹل نے اس عرصے میں وہ سب کچھ حاصل کر لیا تھا جس کی خواہش ایک انسان کرتا ہے۔ انہوں نے بہترین اداکاری کا نیشنل ایوارڈ حاصل کیا۔ پدم شری کا خطاب حاصل کیا۔ اروشی کا اعزازملا۔ پیرس میں صرف ان کی فلموں کی خصوصی نمائش کا اہتمام کیا گیا، جس کو ’ری ٹو رسپیکٹیو‘ یعنی دوبارہ سے سمجھنے کی ایک کوشش کہا جاتا ہے۔ یہ اعزاز سمیتا پاٹل سے قبل ہندوستان کے صرف ستیہ جیت رے کوہی ملا تھا۔ اور ان سب سے بڑا اعزاز جو اُن کے آخری سفر کے موقع پر ہزاروں لاکھوں عوام کی آنکھوں میں آنسوئوں کی جھلملاہٹ اور دلوں میں جذبۂ احترام کی صورت میں ملا تھا، وہ ہر کسی کو کہاں نصیب ہوتا ہے۔ وہ ۱۳؍دسمبر ۱۹۸۶ء کی ایک بھیانک رات تھی جس نے ایک عظیم فنکارہ کوہم سے جدا کر دیا.... مگر وہ اپنے فن کے حوالے سے آج بھی زندہ ہیں۔ ان کا فن لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن کر ہمیشہ گونجتا رہے گا۔
۳۱؍ برس کی عمر میں دنیا کا اتنے قریب سے مشاہدہ اور مطالعہ کرنا بھی ایک بڑی فنکاری ہے اور اس فنکاری کے ساتھ سب کچھ حاصل کر لینا، اس سے بھی بڑی بات ہے۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خاص طور پر سمیتا پاٹل کے اعزاز میں ایک ڈنر کا اہتمام کیا تھا اور اس بات پر خوشی بھرے تعجب کا اظہار بھی کیا تھا کہ اتنی کم عمری میں انہوں نے یہ ساری کامیابیاں حاصل کرلی تھیں۔دیکھا جائے تو کریئر کے طور پر دس برس کچھ بھی نہیں ہوتے مگر جس کو سچی لگن ہو، ایماندارانہ جذبہ ہو، اپنے فن کے ساتھ، وہ اس مختصر وقفے میں بھی سب کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ سمیتا پاٹل نے اس بات کی زندہ مثال چھوڑی ہے۔ فلموں کی تاریخ ان کے بغیر مکمل نہیں ہوسکے گی۔