• Wed, 01 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

فاروق شیخ نے فلم انڈسٹری کا رُخ کرنے سے پہلے وکالت کا پیشہ اختیار کیا تھا

Updated: December 29, 2024, 12:02 PM IST | Mumbai

بطور اداکار۷۰ءکی دہائی میں فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے کیلئے فاروق شیخ ممبئی آئے۔ وہ یہاں تقریباً ۶؍ سال تک جدوجہد کرتے رہے۔ انہیں یقین دہانی تو سبھی کراتے تھے لیکن کام کوئی نہیں دیتا تھا۔

Farooq Sheikh. Photo: INN.
فاروق شیخ۔ تصویر: آئی این این۔

فاروق شیخ کو ایک ایسے اداکارکےطور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے ڈراموں اور آرٹ سنیما کے ساتھ ہی پیشہ ورانہ سنیما میں بھی ناظرین کے درمیان اپنی خاص اور مضبوط شناخت بنائی۔ ان کی پیدائش۲۵؍ مارچ۱۹۴۸ء کو گجرات کے ضلع بڑودہ میں ہوئی تھی۔ ان کے والد مصطفیٰ شیخ ممبئی کے معروف وکیل تھے۔ فاررق شیخ ۵؍ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ انہوں نے سینٹ میری اسکول، ممبئی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سینٹ جویرس کالج میں داخلہ لیا اور پھر قانون کی سندسدھارتھ کالج سے حاصل کی۔ وہ کچھ دن اپنے والد کے ساتھ وکالت کرتے رہے مگر وہ وکالت کے میدان میں کامیاب نہ ہوسکے۔ 
اس کے بعد انہوں نے تھیٹر کا رخ کیااور پونے فلم انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لےلیا۔ کالج کے دنوں میں وہ اداکاری اور اسٹیج ڈراموں میں حصہ لیتے رہے تھے۔ یہیں پر اُن کی ملاقات روپا سے ہوئی جو بعد میں ان کی شریک حیات بنیں۔ ان کی دو بیٹیاں ثناء شیخ اور شائستہ شیخ ہیں۔ وہ بہت شستہ اردو میں گفتگو کیا کرتے تھےاور ان کا طرز تحریربھی بہت خوب صورت تھا۔ کئی فلمی مکالمہ نگار اپنی اسکرپٹ میں زبان و بیان کی اصلاح فاروق شیخ سے کرایا کرتے تھے۔ کلاسیکی اردو شاعری میں ان کا ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ 
بطور اداکار۷۰ءکی دہائی میں فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے کیلئے فاروق شیخ ممبئی آئے۔ وہ یہاں تقریباً ۶؍ سال تک جدوجہد کرتے رہے۔ انہیں یقین دہانی تو سبھی کراتے تھے لیکن کام کوئی نہیں دیتا تھا۔ بعد ازاں ۱۹۷۳ء میں ملک کی آزادی پر بننے والی فلم ’گرم ہوا‘ میں انہیں کام کرنے کا موقع ملا اور یہیں سے ان کے فلمی کریئر کا آغاز ہوا۔ يوں تو فلم بلراج ساہنی پر مبنی تھی لیکن اس فلم سے فاروق شیخ بھی کچھ حد تک اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔ 
اس کے بعد عظیم ڈائریکٹر ستیہ جیت رے کی فلم شطرنج کے کھلاڑی میں انہیں کام کرنے کا موقع ملا لیکن اس سے انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ ان کی قسمت کا ستارہ ہدایتکار یش چوپڑا کی ۱۹۷۹ء میں ریلیز فلم’ نوری‘ سے چمکا۔ بہترین نغمے، موسیقی اور اداکاری سے سجی اس فلم کی کامیابی نے نہ صرف ان کو بلکہ اداکارہ پونم ڈھلوں کو بھی اسٹار بنادیا۔ اس میں لتا منگیشکر کی آواز میں ‘ آجا رے آجا رے میرے دلبر آجا’ نغمہ آج بھی سامعین کو محظوظ کر تا ہے۔ ۱۹۸۱ءمیں فاروق شیخ کے فلمی کریئر کی اہم فلم ’امرا ؤ جان‘ ثابت ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے نواب سلطان کا کردار نبھایا تھا جو امرا ؤ جان سے محبت کرتا ہے۔ اپنے اس کردار کو انہوں نے اتنی سنجیدگی سے نبھایا جسے ناظرین آج بھی بھلا نہیں سکے ہیں۔ اس فلم کے سدا بہارنغمے آج بھی ناظرین اور سامعین کی زبان پر ہیں۔ اُسی سال ان کے فلمی کریئر کی ایک اور سپرہٹ فلم ’چشم بددور‘ ریلیز ہوئی۔ سائی پرانجپے کی ہدایت میں بنی اس فلم میں فاروق کی اداکاری کا نیا رنگ دیکھنے کو ملا۔ اس فلم سے پہلے ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ صرف سنجیدہ کردار ہی ادا کرسکتے ہیں لیکن اس فلم سے انهوں نے اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کا دل جیت لیا۔ ۱۹۸۲ءمیں ان کے فلمی کریئر کی ایک اور اہم فلم ’بازار‘ پردہ سمیں کی رونق بنی۔ ساگر سرحدی کی ہدایت میں بنی اس فلم میں ان کے مد مقابل آرٹ فلموں کا افسانوی کردار سمیتا پاٹل اور نصيرالدين شاہ جیسی مایہ ناز شخصیات تھیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے کردار کے ذریعے ناظرین کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرانے میں کامیاب رہے۔ ۱۹۸۳ءمیں انہیں ایک بار پھر سائی پرانجپے کی فلم ’كتھا ‘میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم کی کہانی میں جدید کچھوے اور خرگوش کے درمیان ریس کی لڑائی کو دکھایا گیا تھا، اس میں وہ خرگوش کے کردار میں تھے جبکہ نصيرالدين شاہ نے كچھوے کا کردار ادا کیا تھا۔ 
ڈراما اسٹیج اور پردہ سیمیں پر ایک طویل اننگز کھیلنے کے بعد ۲۸؍ دسمبر ۲۰۱۳ء کوہارٹ اٹیک کی وجہ سے دبئی میں انتقال ہوگیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK