ایسے بہت سے فنکار ایسے آئے، جنہوں نے بہت کم عمر پائی، لیکن اپنی فنی عظمت کے نشان چھوڑ گئے۔ ان فنکاروں میں گیتا بالی بھی شامل ہیں، جنہوں نے صرف ۳۵؍برس کی عمر پائی، لیکن ان کی فطری اور بےساختہ اداکاری کو اب تک یاد کیا جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: January 21, 2025, 11:45 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ایسے بہت سے فنکار ایسے آئے، جنہوں نے بہت کم عمر پائی، لیکن اپنی فنی عظمت کے نشان چھوڑ گئے۔ ان فنکاروں میں گیتا بالی بھی شامل ہیں، جنہوں نے صرف ۳۵؍برس کی عمر پائی، لیکن ان کی فطری اور بےساختہ اداکاری کو اب تک یاد کیا جاتا ہے۔
ایسے بہت سے فنکار ایسے آئے، جنہوں نے بہت کم عمر پائی، لیکن اپنی فنی عظمت کے نشان چھوڑ گئے۔ ان فنکاروں میں گیتا بالی بھی شامل ہیں، جنہوں نے صرف ۳۵؍برس کی عمر پائی، لیکن ان کی فطری اور بےساختہ اداکاری کو اب تک یاد کیا جاتا ہے۔ وہ ۱۹۵۰ء سے لے کر ۱۹۶۴ءتک فلموں میں سرگرم رہیں۔ انہیں آل ٹائم گریٹ اداکارہ بھی کہا جاتا ہے۔ ۱۹۳۰ء میں پنجاب کے امرتسرمیں پیدا ہونے والی گیتابالی کا اصل نام ہری کیرتن کورتھا۔
جب گیتا بالی فلمی صنعت میں داخل ہوئیں تو وہ سب نگاہوں کا مرکز بن گئیں۔ انہوں نے اپنے وقت کےتمام بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ کیدار شرما کی فلم ’بانورےنین‘ وہ فلم تھی، جس نے گیتا بالی کی شہرت کو آسمان پر پہنچا دیا۔ اس فلم میں انہوں نے بے مثال اداکاری کی۔ ۱۹۵۱ءمیں گورودت کی ریلیز ہونے والی فلم ’بازی‘میں بھی انہوں نے چونکا دینے والی اداکاری کی۔ وہ گانا فلمبند کرانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ گیتا دت کے گائے ہوئے فلم ’بازی ‘ کے شاندار گیت انہوں نے اتنی خوبصورتی سے عکس بند کرائے کہ فلم بین ششدر رہ گئے۔
اس کے بعدگیتا بالی نےبھگوان دادا کے ساتھ فلم ’البیلا‘میں کام کیا۔ یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔ ۱۹۵۲ءمیں ان کی فلم ’جال‘ نے بھی بے پناہ کامیابی حاصل کی۔ ’بازی ‘ کی طرح اس فلم میں بھی دیو آنند ان کے ہیرو تھے۔ ۱۹۵۳ءمیں ان کی فلم ’باز‘ سپرہٹ ہوگئی۔ اس بار گردت ان کے ہیرو تھے۔
۱۹۵۵ءگیتا بالی کے لیے اہم ترین سال ثابت ہوا۔ انہوں نے بلراج ساہنی اورراجندرکمار کے ساتھ فلم ’وچن‘ میں کام کیا۔ اس فلم میں بھی ان کی اداکاری کو بہت پسندکیاگیا۔ انہیں بہترین اداکارہ کے ایوارڈ کیلئےنامزد کیا گیا۔ اس سال انہوں نے فلم ’کوئی‘ میں بھی کام کیا۔ انہیں بہترین معاون اداکارہ کے ایوارڈ کیلئےنامزد کیاگیا۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران گیتا بالی کا شمی کپور کے ساتھ رومانس شروع ہوا۔ دونوں پنجابی تھےاور ان کے درمیان جلد ہی ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوگئی، پھر شمی کپور نے انہیں شادی کی پیش کش کردی اور ۱۹۵۵ء میں دونوں کی شادی ہوگئی۔ یہ شادی کرانے میں مشہور کامیڈین جانی واکر نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ۱۹۵۸ءمیں انہوں نے سہراب مودی کی فلم ’جیلر‘ میں کام کیا اورانہیں نیشنل ایوارڈ کا مستحق قرار دیاگیا۔ اس کے بعد ’اجی بس شکریہ‘، ’آنند مٹھ اور مسٹر انڈیا‘ میں بھی ان کی اداکاری کو بہت پسند کیاگیا۔ ان کی مشہور فلموں میں ’بانورے نین، بازی، گھائل، جال، البیلا، جمیلہ، باز، مسٹر انڈیا، وچن، کوی اورآنند مٹھ‘ شامل ہیں۔ گیتا دت نے سب سے پہلے ۱۲؍ سال کی عمر میں فلم کوبلر میں کام کیا اور ہیروئن کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم’بدنام‘ تھی۔ وہ اپنی موت تک فلموں میں اداکاری کرتی رہیں۔ ان کی آخری فلم ’جب سے تم کو دیکھاہے‘ تھی جو۱۹۶۳ءمیں ریلیز ہوئی۔
۱۹۶۵ء میں پنجابی فلم ’رانو‘ کی شوٹنگ کے دوران انہیں چیچک کا مرض لاحق ہوا۔ یہ فلم راجندرسنگھ بیدی کے ناول ’ایک چادرمیلی سی‘ سے متاثر ہو کر بنائی جا رہی تھی اور بیدی ہی اس فلم کی ہدایتکاری کر رہے تھے۔ ۲۱؍ جنوری ۱۹۶۵ءکوچیچک کے مرض نے گیتا بالی کی جان لے لی۔ ان کی موت سے راجندر سنگھ بیدی کو بہت نقصان پہنچا۔ انہوں نے یہ فلم بند کردی۔ جہاں گیتا بالی کی چتا جل رہی تھی وہیں بیدی نے اپنا ناول پھینک دیا۔