• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

گیتا دت نے ایک منفرد آواز پائی تھی

Updated: July 21, 2024, 1:55 PM IST | Agency | Mumbai

گیتا دت نے ایک منفرد آواز پائی تھی، اسلئے انہوں نے جو بھی گانا گایا اسے ایک نئی طرز دے دی۔

Ghazal Sangarita Dutt. Photo: INN
غزل سنگرگیتا دت۔ تصویر : آئی این این

گیتا دت ایک منفرد آواز کے ساتھ پیدا ہوئی تھیں ۔ ان کی گائیکی میں جوسوز تھا وہ انہیں پر ختم ہو گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چار دہائیاں گزر جانے کے باوجود گیتا دت کی آواز مدھم نہیں ہوئی ہے۔ ان کے بول آج بھی دل میں اُتر جاتے ہیں اور سننے والا محو ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلو کارہ کا درد اپنے اندر بھی محسوس کرتا ہے۔ 
 گیتا دت۲۳؍نومبر۱۹۳۰ء کو فرید پور (اب بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصلی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا۔ ان کے والد ویرندر ناتھ گھوش ایک صاحب حیثیت زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ چوتھی دہائی میں ان کا خاندان کلکتہ چلا گیا۔ ۱۹۴۲ء میں ان کے والدین دوبارہ ممبئی چلے آئے۔ اس وقت گیتا کی عمر محض۱۲؍ برس تھی۔ چونکہ گانا بجانا بنگلہ تہذیب و ثقافت کا ایک حصہ ہے، اسلئے انہیں بھی بچپن ہی سے اس کی تعلیم دی گئی تھی۔ ان کے استاد ہنومان پرساد نے انہیں فلموں میں گانے کا مشورہ دیا اور انہیں اپنی فلم’ بھگت پرہلاد میں ۱۹۴۶ء میں ایک گانے کے صرف دو بول گانے کیلئے دیئے جس سے گیتا رائے کا فلموں میں گانے کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد وہ کچھ چھوٹی چھوٹی فلموں میں بھجن گاتی رہیں۔ پھر انہوں نے ملن‘ بھوک‘ ملکہ‘ نیل‘ ساجن‘ شہنائی‘ قسم‘ دل کی رانی‘ مجبور ‘پد منی شہید ‘شبنم مقبول فلموں کیلئے گانے گائے۔ اس کے بعد۱۹۴۷ء میں موسیقار ایس ڈی برمن نے انہیں اپنی فلم ’ دو بھائی ‘ میں گانے کی آفر کی لیکن انہیں شناخت۱۹۵۵ء کی ’ دیوداس ‘ اور۱۹۵۷ء میں فلم ’ پیاسا ‘ سے ملی۔ انہوں نے فلم ’پیاسا‘ کے جو گانے اپنی پر سوز آواز میں دیئے انہیں آج بھی کوئی فراموش نہیں کر پاتاہے۔ ان کے گائے ہوئے گانے ’ آج سجن موہے انگ لگا لو‘ یا ’’ ہم آپ کی آنکھوں ‘ میں بہت ہی مقبول ہوئے۔ دیو داس کا گانا ’ آن ملو آن ملو ‘ ہر شخص کی زبان پر تھا یا پھر اس سے قبل کا گانا ’ میرا سندر سپنا بیت گیا ‘ فلم ’دو بھائی‘ اور’ تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لو‘ مقبول عام تھے۔ دراصل گیتا دت نے ایک منفرد آواز پائی تھی۔ اس لئے انہوں نے جو بھی گانا گایا اسے ایک نئی طرز دے دی۔ ’صاحب بی بی اور غلام ‘ میں ان کا گایا ہوا گانا ’ نہ جاؤ سئیاں چھڑا کے بیاں، قسم تمہاری میں رو پڑوں گی، سامع کی آنکھوں میں آنسو لا دیتا ہے یا پھر ’ شرط ‘ فلم کا گانا ’ نہ یہ چاند ہوگا نہ تارے رہیں گے ‘ اور صاحب بی بی غلام ‘ کا گانا ’ پیا ایسو جیا میں سمائے گئیورے ‘ یہ سب ناقابل فراموش گانے ہیں اور یہ گانے جب بھی بجائے جاتے ہیں تو گیتا دت کی کھنکتی ہوئی پر سوز آواز سامع کے ذہن و دل میں اتر جاتی ہے۔ گیتا دت نے اپنی فنی زندگی میں تقریباً ۱۲۰۰؍ گانے گائے۔ 
 حالانکہ گیتا دت کی ذاتی زندگی بہت اچھی نہیں گزری اسلئے محض۴۱؍ برس کی کم عمر میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی شادی مشہور ادا کار گرو دت سے۲۳؍ مئی۱۹۵۳ء کو ہوئی تھی۔ ۱۹۶۴ء میں ’گرو دت‘ کی بے حد شراب نوشی کے سبب موت واقع ہو گئی تھی بلکہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ انہوں نے ذہنی تناؤ کے سبب خود کشی کرلی تھی کیونکہ اس سے قبل بھی وہ دوبار اس طرح کی ناکام کوششیں کر چکے تھے اور ان پر نروس بریک ڈاؤن کا حملہ ہوتا تھا۔ ویسے بھی ان کے معاشی حالات کافی خراب ہو گئے تھے۔ ان کی موت کے بعد گیتا دت۸؍ برسوں تک زندہ رہیں لیکن انہیں بھی حالات کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور۲۰؍ جولائی ۱۹۷۲ء کو لیور سرائیسس کے سبب ان کی ممبئی میں موت واقع ہو گئی۔ گیتا دت نے کئی فلموں میں بھی کام کیا تھا لیکن انہیں ان کی ریشمی غمناک آواز کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے اور اس آواز کے سہارے انہوں نے سامعین کے لئے بے شمار ناقابل فراموش گیت تخلیق کئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK