• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

گیتا رائے کی بنگالی انداز کی گلوکاری فلم انڈسٹری میں کلاسیکل موسیقی کے ساتھ مل کر خوب مقبول ہوئی تھی

Updated: November 24, 2024, 4:11 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

ملک کی آزادی سے قبل کے بنگال کے ضلع فریدپور کے ایک گائوں عدلاپور میں ۲۳؍نومبر۱۹۳۰ء کو گیتا رائے کا جنم ہوا۔ یہ علاقہ آج کل بنگلہ دیش میں ہے۔

Geeta Roy. Photo: INN
گیتا رائے۔ تصویر : آئی این این

ملک کی آزادی سے قبل کے بنگال کے ضلع فریدپور کے ایک گائوں عدلاپور میں ۲۳؍نومبر۱۹۳۰ء کو گیتا رائے کا جنم ہوا۔ یہ علاقہ آج کل بنگلہ دیش میں ہے۔ اُن کے والد دیویندر ناتھ چودھری گائوں کے زمیندار تھے۔ گیتاکی والدہ امیہ رائے چودھری کو موسیقی اور شاعری سے بہت لگائو تھا۔ گیتا اپنے۶؍ بھائی اور تین بہنوں میں اکیلی تھیں جن کو اپنی ماں کی طرح موسیقی سے شغف تھا۔ گیتا کی تعلیم اینگلو بنگالی اسکول میں ہو رہی تھی۔ اسی کے ساتھ وہ پنڈت ہریندر ناتھ چودھری سے موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کر رہی تھیں۔ آزادی سے قبل ہی ۱۹۴۲ء میں گیتا رائے کا خاندان بنگال سے بمبئی منتقل ہو گیا تھا۔ یہاں آکر بھی انہوں نے اپنا موسیقی کا ریاض جاری رکھا۔ اُسی بلڈنگ میں موسیقار ہنومان پرساد بھی رہائش پذیر تھے۔ ایک دن انہوں نے گیتا رائے کی سریلی آواز سنی تو وہ کافی متاثر ہوئے۔ انہوں نے گیتا کے والدین سے ملاقات کرکے ان کی کافی تعریف کی۔ 
 ۱۹۴۶ء میں ہنومان پرساد فلم ’بھکت پرہلاد‘ کا میوزک تیار کر رہے تھے۔ تب انہوں نے ایک گانے کے کورَس میں گیتا رائے کو شامل کیا اور اس طرح پہلی بار کسی فلمی گانے میں چند لائنیں گانے کا موقع انہیں ملا۔ اس کے بعد مشہور موسیقار ایس ڈی برمن نے ۱۹۴۷ء میں ریلیز ہوئی فلم ’دو بھائی‘ میں گیتا رائے سے گانے ریکارڈ کرانے کا ارادہ کیا۔ یہ فلم فلمستان اسٹوڈیو کیلئے بنائی جا رہی تھی لیکن اس کے مالک چنی لال ایک نئی آواز سے گانا ریکارڈ کرانے کیلئے راضی نہیں تھے، مگر ایس ڈی برمن کے اعتماد کو دیکھتے ہوئے انہوں نے رضامندی دے دی۔ اس طرح فلم ’دو بھائی‘ ان کی پہلی فلم ثابت ہوئی۔ بعد میں گیتا رائے برمن کی پہلی پسند بن گئیں۔ اس فلم کا ایک گانا ’’میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘ نے دھوم مچا دی تھیجس کی وجہ سے دوسرے موسیقاربھی ان کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دوسال میں لگاتار ان کے کامیاب نغموں نے ان کو گلوکارہ راجکماری اور شمشاد بیگم کی صف میں لاکھڑا کیا۔ ۱۹۴۷ء میں ہی انہوں نےموسیقار شیام سندر کی موسیقی میں شمشاد بیگم کے ساتھ ایک ’دوگانا‘ ریکارڈ کیا ’’آنکھوں آنکھوں میں دل سے دل کی بات کہہ گئے‘‘ اور اگلے ہی سال گیتا رائے کی آواز موسیقار غلام حیدر کی موسیقی میں دو فلموں ’شہید‘ (۱۹۴۸ء) اور ’مجبور‘ (۱۹۴۸ء) میں سنائی دی۔ ’شہید‘ فلم میں اداکارہ کامنی کوشل پر گیتا رائے کا نغمہ ’’میں دو دن کی مہمان پیا‘‘ سن کر لوگوں کا دل بھر آیا۔ 
 اسی طرح ۱۹۴۹ء میں بنی فلم ’ناتھ‘ میں موسیقار حسن لال بھگت رام کی موسیقی میں گیتا رائے کا ایک گانا ’’دُور سے ایک پردیسی آیا‘‘ بھی کافی مقبول ہوا۔ اس کے بعد اگلے کچھ برسوں میں گیتا رائے نے فلم ’لڑکی‘ (۱۹۵۰ء)، پیار کی باتیں (۱۹۵۱ء)، پرینیتا (۱۹۵۳ء)، شریمتی جی (۱۹۵۲ء)، امانت (۱۹۵۵ء)، مکھی چوس (۱۹۵۶ء) اورپیار‘ جیسی فلموں میں کئی بہترین نغمے گائے۔ ۱۹۵۰ء میں موسیقار کھیم چند پرکاش نے فلم ’جان پہچان‘کیلئے گیتا رائے سے چھ گانے ریکارڈ کرائے۔ ان میں سے طلعت محمود کے ساتھ گایا ’دوگانا‘ ’’ارمان بھرے دل کی لگن تیرے لئے ہے‘‘ کافی مقبول ہوا۔ 
 فلم ’بازی‘ کے بعد ۱۹۵۴ء میں فلم ’آرپار‘کیلئے موسیقار اوپی نیر نے گیتا رائے کی آواز کی کشش سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ نیر صاحب اس سے پہلے ہی فلم ’آسمان‘ میں گیتا رائے کی گلوکاری کی خوبیوں کو پہچان چکے تھے اور ’’جادو بھرے نین‘‘ اور ’’دل ہے دیوانہ‘‘ جیسے نغمے ریکارڈ کرا چکے تھے۔ فلم ’آرپار‘ (۱۹۵۴ء) کیلئے اوپی نیر نے گیتادت سےشوخی بھرے اور جذباتی گیت گوائے۔ ’’یہ لو میں ہاری پیا.... ہوں ابھی میں جواں رے دل...... جا جا جا بے وفا‘‘ جیسے نغموں میں گیتادت نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف غمزدہ نغمے سنانے کیلئے نہیں ہیں۔ اس کے بعد اوپی نیر اور گیتادت نے ایک بار پھر فلم ’مسٹر اینڈ مسز ۵۵‘ (۱۹۵۵ء) میں اپنا جادو جگایا۔ ’’ٹھنڈی ہوا کالی گھٹا....پریتم آن ملو....نیلے آسمانی...‘‘ اور محمد رفیع کے ساتھ چار دو گانے گیتادت نے گائے تھے۔ ’’جانے کہاں میرا جگر گیا جی..... اُدھر تم حسیں ہو.... دل پر ہوا ایسا جادو.....‘‘ اور ’’چل دیئے بندہ نواز‘‘ جیسے گانوں نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔ 
 ۱۹۵۶ء میں ایک بار پھر فلم ’چھومنتر‘ میں گیتا دت کی آواز اور اوپی نیر کی موسیقی نے دھوم مچائی۔ محمدرفیع کے ساتھ گیتادت کا گایا دوگانا ’’غریب جان کے ہم کو نہ یوں مٹا دینا‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ فلم کے دوسرے دو نغمے ’’جب بادل لہرایا‘‘ اور ’’رات نشیلی....‘‘ بھی شائقین نے بے حد پسند کئے۔ اِن سب کے علاوہ گیتادت کا جو گیت ۱۹۵۶ء میں سب سے زیادہ مقبول ہوا، وہ تھا ’’اے دل مجھے بتا دے تو کس پہ آگیا ہے‘‘ یہ فلم ’بھائی بھائی‘ کا نغمہ تھا۔ گیتادت کی آواز کا جادو ۱۹۵۸ء میں بھی قائم رہا۔ فلم ’ہائوڑا برج‘ کا گانا ’’میرا نام چن چن چو‘‘ اور فلم ’سادھنا‘ (۱۹۵۸ء) کا نغمہ ’’تورا منوا کیوں گھبرائے‘‘ بھی کافی مقبول رہا۔ 
 پانچویں دہائی کے آخر تک گیتا رائے کی بنگالی انداز کی گلوکاری کلاسیکل موسیقی کے ساتھ مل کر خوب مقبول ہوئی تھی۔ ۱۹۵۱ء میں گرودت کی فلم ’بازی‘ نے گیتا رائے کی نجی زندگی اور اس کے ساتھ ہی فنکارانہ زندگی کا رُخ بھی بدل دیا۔ ’’تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنا لے‘‘ ساحرؔ لدھیانوی کے لکھے اس گیت نے دھوم مچا دی تھی۔ ’’سنو بجر کیا گائے‘‘ نے سننے والوں پر جادو کا کام کیا۔ ’’یہ کون آیا، آج کی رات پیا، دیکھ کے اکیلی موہے برکھا ستائے رے‘‘ اور ’’لاکھ زمانے والے‘‘ بھی کافی مقبول ہوئے۔ 
  کہا جاتا ہے کہ فلم ’بازی‘ کی تیاریوں کے درمیان ہی گرو دت دل و جان سے گیتا رائے پر فریفتہ ہو گئے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی گیتا رائے کے والدین نے فلمی دنیا میں جد وجہد کر رہے نوجوان گرودت کے ساتھ گیتا رائے کی منگنی کر دی اور اس طرح دونوں کچھ اور نزدیک آگئے۔ گیتا رائے خود بھی گرودت کی قابلیت اور شخصیت سے متاثر تھیں۔ فلم ’بازی‘ کی کامیابی کے بعد گرودت کی شہرت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ انہوں نے کھار کے علاقے میں ایک فلیٹ خرید لیا۔ منگنی کے تین سال بعد ۲۶؍مئی ۱۹۵۳ء کو گیتا رائے کی شادی گرودت سے ہو گئی اور وہ گیتا رائے کے بجائے گیتا دت کہلانے لگیں۔ ان کی شادی میں فلمی دُنیا کی کئی مشہور ہستیاں دیوآنند، وجیتنی مالا، نوتن اور موتی لال جیسے لوگ شامل ہوئے تھے۔ 
 ۹؍جولائی ۱۹۵۴ء کو ان کے بیٹے ورون کا جنم ہوا۔ اس کے بعدکچھ عرصے تک ان کے ازدواجی حالات کافی بہتر رہے۔ ۱۹۵۶ء میں گرودت نے فلم ’پیاسا‘ بنائی جس کی ہیروئن وحیدہ رحمان تھیں۔ اسی دوران وحیدہ رحمان اور گرودت کے معاشقے کی خبریں اخبارات کی زینت بننے لگیں جس کی وجہ سے ان کے گھریلو حالات خراب ہوتے گئے۔ ’پیاسا‘ کی بے حد کامیابی سے گرودت اور وحیدہ رحمان کو کافی شہرت ملی۔ اس فلم کے گانے گیتادت نے ہی گائے تھے جو کافی مقبول بھی ہوئے تھے۔ وحیدہ رحمان پر فلمائے گئے ساحرؔ کے نغمے ’’جانے کیا تونے کہی جانے کیا میں نے سنی‘‘ اور ’’آج سجن موہے انگ لگا لو جنم سپھل ہو جائے‘‘ نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ 
 ۱۹۵۹ء میں گرودت کی فلم ’کاغذ کے پھول‘ میں بھی وحیدہ رحمان ہی ہیروئن تھیں۔ یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہو گئی اور لوگوں نے اس فلم کو بھلا دیا مگر اس میں گیتادت کے گائے ہوئے گانے ’’وقت نے کیا، کیا حسیں ستم‘‘ کو نہیں بھلا پائے۔ اسی سال گیتا دت کے گائے ہوئے دوسری فلموں کے بھی کئی گانے مقبول ہوئے۔ ’’ننھی کلی سونے چلی، بچپن کے دن بھی کیا دن تھے، تم جیو ہزاروں سال‘‘ یہ تینوں گانے فلم ’سجاتا‘ کے تھے جو کافی مقبول ہوئے مگر اس کے بعد ان کی مقبولیت کا گراف آہستہ آہستہ نیچے آنے لگا۔ گھریلو زندگی کا اثر ان کی گلوکاری پر واضح طور پر پڑ رہا تھا۔ 
 ۱۹۶۰ء میں فلم ’چودھویں کا چاند‘ گرودت کی فلم ہوتے ہوئے بھی گیتا دت صرف ایک کورَس گانے ’’بالم سے ملن ہوگا‘‘ میں ہی سنائی دیں۔ حالانکہ گرودت کی آخری فلم ’صاحب بیوی اور غلام‘ میں مینا کماری پر فلمائے گئے گانوں کو گیتا دت کی آواز نے ہی زندگی بخشی۔ ہیمنت کمار کی موسیقی میں گیتا دت کے گائے نغموں ’’کوئی دُور سے آواز دے چلے آئو‘‘، ’’پیا ایسے جیا میں سمائے گیو رے‘‘ اور ’’نہ جائو سئیاں چھڑا کے بئیاں ‘‘ جیسے گیتوں نے یہ ثابت کر دیا کہ گیتادت کی آواز کی کشش اب بھی لوگوں کو متوجہ کرنے اور گدگدانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حالانکہ اس فلم کے بعد گیتادت کی آواز بہت کم ہوتی چلی گئی۔ گرودت سے وہ پہلے ہی الگ ہو گئی تھیں اور ۹؍اکتوبر ۱۹۶۴ء کو گرودت کی خودکشی کے بعد وہ بالکل ہی ٹوٹ چکی تھیں۔ گرودت اپنی گھریلو زندگی اور فلمی زندگی میں تال میل نہیں بٹھا سکے اور انتہائی مایوسی کے عالم میں شراب اور نیند کی گولیاں بڑی مقدار میں استعمال کرلیں اور اپنے ہی فلیٹ میں مردہ پائے گئے۔ بچوں کی پرورش اور گھر کو باقاعدگی سے چلانے کیلئے گیتا دت کو گلوکاری سے وابستہ رہنا پڑا۔ 
 شوہر کے انتقال کے بعد گیتادت نے فلم ’اُس کی کہانی، انوبھو‘ اور چند دیگر فلموں کیلئے گانے گائے مگر ان کی مقبولیت روز بروز کم ہوتی چلی گئی۔ ان کے گائے ہوئے نغموں سے سجی کچھ دیگر فلمیں اس طرح ہیں۔ ’’آب حیات، بھول نہ جانا، پولیس، منیم جی، پاکٹ مار، مسافر خانہ، دِلّی کا ٹھگ، شریمتی ۴۲۰، جاگیر، گیسٹ ہائوس، لاجونتی، ملاپ اور سن آف انڈیا‘‘ وغیرہ۔ 
  ایک بنگالی فلم’بدھوورن‘ میں انہوں نے اداکاری بھی کی۔ یہ فلم کامیاب رہی تھی۔ ممبئی میں بھی ’تیرا ساتھ ہے پیارا‘ اور ’اب کہاں جائیں ہم‘ جیسی ہندی فلموں میں انہوں نے کام شروع کیا تھا مگر یہ فلمیں مکمل نہ ہو سکیں۔ خود اُن کے شوہر گرودت نے گیتادت کو لے کر فلم ’گوری‘ بنانی شروع کی تھی مگر بعد میں انہوں نے اس فلم کو ادھورا ہی چھوڑ دیا۔ اس طرح ایک اداکارہ کے طور پر گیتادت فلم شائقین کے سامنے آتے آتے رہ گئیں۔ 
 ۲۰؍جولائی ۱۹۷۲ء کو غموں اور دکھوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے گیتادت نے بھی اپنی سانسوں کی ڈور کو توڑ دیا اور دُنیاوی زندگی سے مکتی حاصل کر لی۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK