ٹی وی، فلم اوراو ٹی ٹی اداکارہ گلفام خان حسین کا کہنا ہے کہ میں چونکہ اداکاری کے ساتھ ہی لکھنے کے فن سے بھی واقف ہوں، اسلئے دوسروں کی بہ نسبت میرا راستہ قدرے آسان ہےاور اب میں شو بز کے تینوں پلیٹ فارموں پر کام کررہی ہوں۔
EPAPER
Updated: September 29, 2024, 1:41 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai
ٹی وی، فلم اوراو ٹی ٹی اداکارہ گلفام خان حسین کا کہنا ہے کہ میں چونکہ اداکاری کے ساتھ ہی لکھنے کے فن سے بھی واقف ہوں، اسلئے دوسروں کی بہ نسبت میرا راستہ قدرے آسان ہےاور اب میں شو بز کے تینوں پلیٹ فارموں پر کام کررہی ہوں۔
گزشتہ ۲۰؍ سال سے ٹی وی اورفلم انڈسٹری میں اپنی اداکاری اور تخلیقی صلاحیتوں کا جلوہ بکھیرنے والی گلفام خان حسین اب ویب سیریز میں بھی اپنے فن کا جادو دکھارہی ہیں۔ جلد ہی ان کی ایک ویب سیریز ریلیز ہونے والی ہے جن سے انہیں بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ انہوں نے ۲۰۰۲ء میں لپ اسٹک نامی شو سے اپنے کریئر کی شروعات کی تھی اور اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہی تھیں۔ اس کے بعد ان کے ٹی وی شوز کی ایک طویل فہرست ہےجن میں گھر کی لکشمی بیٹیاں، دو ہنسوں کا جوڑا، دیا باتی اور ہم، آر کے لکشمن کی دنیا، مسز کوشک کی پانچ بہوئیں اور الہ دین نام تو سنا ہوگا جیسے مشہور اور کامیاب ٹی وی شوز ہیں۔ انہوں نے ایک حسینہ تھی، غائب، تلاش، کیا سُپر کول ہیں ہم، دی لیجنڈ آف مائیکل مشرا جیسی کئی فلموں میں بھی کام کیاہے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ممبئی ہی میں رہتی ہیں لیکن ان کا تعلق پنجاب کی ایک پٹھان فیملی سے ہے۔ نمائندہ انقلاب نےگلفام خان حسین سے کئی امور پر گفتگو کی ہے، جس کے بعض اہم اقتباسات یہاں پیش کئے جارہے ہیں :
انڈسٹری میں ۲۰؍سے زائد سال کاسفر کیسا رہاہے ؟
ج: میں خود کو تجربہ کار تو نہیں کہوں گی کیونکہ انڈسٹری میں میرے صرف ۲۰؍ سال ہی ہوئے ہیں۔ بہرحال انڈسٹری میں سفر بہت اچھا رہا ہے۔ کام کے دوران بہت سے اچھے لوگ ملے ہیں۔ اگر اس دوران کچھ برے لوگ بھی ملے تو ان سے بھی کچھ سیکھنے ہی کو ملا ہے۔ ان سے ملنے والے تجربات بہت کارآمد رہے ہیں۔ ہر جگہ اچھے افراد ملنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہرسکے کے ۲؍پہلو ہوتے ہیں ، اسی طرح ہرجگہ اچھے اور برے دونوں ہی طرح کے افرا د موجود ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے کریئر میں کالا اور سفید بہت دیکھا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے کالابھی دکھایاہے جس کی وجہ سے مجھے سفید کی سمجھ آئی اور اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ بہرحال میں نے اپنی نصف زندگی انڈسٹری کے حوالے کردی ہے اور امید کرتی ہوں کہ میں اسی طرح کام میں مصروف رہوں۔
کریئر میں رونما ہونے والے ایک کالے اور ایک سفید واقعہ کے بارے میں کچھ بتا ئیں تاکہ آپ کے مداحوں کو بھی اس کی اہمیت کا اندازہ ہو
ج:ایسے تو کریئر میں بہت سے واقعات ہیں جن سے تلخ اور اچھی یادیں جڑی ہوئی ہیں لیکن کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ذہن پر نقش کر جاتی ہیں، ان سے اچھی یادیں بنتی ہیں، یا خوبصورت لمحات بنتے ہیں یا تلخیاں بن کر وہ ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔ ایسے تو بہت سے واقعات ہیں لیکن روہنی ہتنگڑی جی نے ایک بات کہی تھی جو مجھے آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے کہاتھا کہ آپ کے بارے میں اگر کوئی کچھ کہتا ہے، تو اس پربہت زیادہ توجہ نہ دو۔ اگر تم نے اس طرح کی باتوں پر توجہ دیا تو اپنا چین وسکون ختم کرلوگی۔ انہوں نے یہ بات سچ ہی کہی تھی کیونکہ اگر کوئی شخص آپ کی بہت زیادہ تعریف کرے تو اسے ذہن پر سوار نہیں کرنا چاہئے، دوسرا اگر کوئی آپ کی برائی کرے تو آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آپ کے اندر ایک عدد برائی ہے جسے سدھارنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال ان کی کہی ہوئی یہ بات میں نے اپنے دامن میں باندھ لی تھی۔
آپ نے شو بز انڈسٹری میں کس طرح قدم رکھا ؟
ج:میں ایک پٹھان گھرانے سے تعلق رکھتی ہو ں۔ میرے والد بہت سخت تھے۔ گھر کے زیادہ ترا فراد کاروبار کیا کرتے تھے اور تعلیم پربھی زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ ہمارے خاندان میں میرے ہی بھائی بہنوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ میرے خاندان میں میری بہن ہی سب سے پہلے کالج گئیں اور ڈاکٹر بنیں۔ تعلیم پر زیادہ توجہ اسلئے نہیں دی جاتی تھی کیونکہ سبھی کو پتہ تھا کہ آگے کاروبار ہی کرناہے۔ تاہم میرا جھکاؤ تخلیقی کاموں کی طرف تھا۔ میں چاہتی تھی کہ میں اداکار بنوں لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھاکیونکہ میرے خاندان میں فلمی پس منظر سے کوئی نہیں تھا اور میرے والد بھی اس کے خلاف تھے۔ بہرحال میں نے اپنی والدہ کو اعتماد میں لیا۔ پہلےاسٹیج شوز میں شرکت کرنی شروع کردی۔ ہم نے اپنے دوستوں اور ان کے دوستوں کیلئے ایک پلے تیار کیا تھا جس میں میرا اچھا رول تھا۔ اس وقت ہدایتکار شری رام راگھون کے معاون اس مجمع میں موجود تھے۔ میرا کام دیکھنے کے بعد انہوں نے مجھے آڈیشن کیلئے بلایا۔ اس طرح مجھے پہلی فلم’ ایک حسینہ تھی‘ میں موقع ملا۔ اس فلم میں کام کرنے کیلئے میں نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا تھا جنہوں نے مجھے مثبت مشورہ دیا۔ اس فلم کے بعد میں نے اشتہاری فلموں میں کام کرنا شروع کردیا۔ ایسا کرتے کرتے میں نے ٹی وی انڈسٹری کی طرف رجوع کیا۔ کہتے ہیں کہ ٹی وی ایک فتنہ ہے اور اس کی وجہ سے میرے والد صاحب کو معلوم ہوگیا کہ میں اداکاری کے شعبے میں ہوں۔
جب آپ کے والد کو آپ کی اداکاری کی اطلاع ملی تو ان کا ردعمل کیا تھا؟
ج:والد صاحب ایک دفعہ سیلون میں بیٹھے ہوئے تھے تو انہیں اس حجام نے بتایا کہ گلفام ٹی وی شومیں کام کررہی ہے۔ تب میرے والد کو پتہ چلا کہ میں اداکاری کے پیشے میں ہوں۔ میری والدہ نے مشورہ دیا کہ میں کچھ دنوں تک گھر سے دور رہوں کیونکہ میرے والد آنکھوں ہی سے خوفزدہ کردیتے تھے۔ بہرحال میں کچھ دنوں تک اپنی بہن کے گھر رہی اور ایک دن جب میں اپنے گھر پہنچی تو والد صاحب موجود تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ تب میں نے انہیں پوری حقیقت بیان کردی اور کہاکہ کالج کے پروگرام کی وجہ سے مجھے ٹی وی شوز کرنے کا موقع ملا۔ ایک روز انہوں نے پوری فیملی کے ساتھ میرا شو بیٹیاں دیکھا اور کہاکہ تم ایکٹنگ اچھی کرلیتی ہو۔ میرے والد دلیپ کمار، گرو دت اور مینا کماری کے بڑے مداح تھے۔ ان کی طرف سے یہ پزیرائی میرے لئے بہت اہمیت رکھتی ہےکیونکہ انہوں نے لیجنڈس کی اداکاری دیکھی تھی۔ آج تک ان کی یہ پزیرائی میرے لئے ٹانک کا کام کرتی ہے۔
کیا آپ نے فلموں سے بریک لیاہے ؟
ج:جی نہیں ، میں نے فلموں سے بریک نہیں لیا تھابلکہ میں نے کچھ آرٹ اور شارٹ فلمیں کی تھیں جوکہ فیسٹیول میں دکھائی جاتی ہیں۔ کمرشیل فلموں میں نظرنہیں آرہی تھی۔ ہاں میں نے ٹی وی سے ۱۴؍برس کا وقفہ لیا تھا کیونکہ ۲۰؍برسوں سے تواتر کے ساتھ شوز کررہی تھی، اسلئے تھک گئی تھی اور آرام چاہتی تھی۔ وہاں سے بریک لینے کے بعد میں نے ۲؍ ویب سیریز کی اور اب میری ایک اور ویب سیریز ’ویگ گرل ‘ ریلیز ہورہی ہے۔ یہ بڑے بجٹ کی ویب سیریز ہے اور امید ہے کہ ہٹ ثابت ہوگی۔
تفریح کا پردہ اب چھوٹا ہوگیا ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟
ج: سبھی پلیٹ فارم کی اپنی اپنی آڈینس ہیں۔ اگر میں اپنی بات کروں تو میں فلم کی آڈینس ہوں۔ وقت نہیں ہوتا ہے اس کے باوجود میں مہینے میں ۲؍ بار تھیٹر کا رخ کرتی ہوں۔ ٹی وی شوز دیکھنے والوں کی تعداد بھی اچھی ہے۔ ویب سیریز کے مقابلے میں فلمیں دیکھنا پسند کرتی ہوں۔ میں ایک ہی کہانی کو پورے سیزن نہیں دیکھنا چاہتی۔ میں وہی ویب سیریز دیکھتی ہوں جس میں ۲؍ایپی سوڈ میں کہانی ختم ہوجائے۔
اتنی مصروفیات کے دوران بھی کیا آپ لکھتی ہیں ؟
ج: ہاں ! میرالکھنے کا کام جاری ہے۔ میں نے کامیڈی سرکس کا پہلا سیزن لکھا تھا، اس کے بعد عرفان خان کی فلم ’ہِس‘ لکھی تھی۔ فی الحال انوراگ کشیپ کی فلم کی کہانی لکھ رہی ہوں اور ناگیش کوکونور کے ساتھ ویب سیریز بھی لکھ رہی ہوں۔ اپنے لئے بھی لکھتی ہوں، میں نے مختصر کہانیاں لکھی ہیں اور انہیں کتابی شکل دینے والی ہوں۔ ایک ناول لکھنے کا بھی ارادہ ہے۔ موسیقار واجد بحیثیت پروڈیوسر کچھ شروع کرنا چاہتے ہیں انہوں نے بھی کہانی لکھنے کیلئے کہا ہے۔ میں نے ووٹ، ہاٹ اسٹار اور اشارہ چینل کیلئے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ بہرحال اداکاری کے ساتھ اس فن کو بھی جاری رکھے ہوئےہوں۔
یہاں پاکستانی شوز کو پسند کیا جارہا ہے، اس پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟
ج:اس معاملے میں ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نے ہندی اور اردو زبانوں کو علاحدہ کردیاہےجبکہ دونوں ہی ہندوستانی زبانیں ہیں۔ میرے سیٹ پر بھی کئی افرادپاکستانی ڈرامے دیکھتے ہیں، اس کے بعد وہ کورین ڈرامے دیکھتے ہیں جبکہ ہندی ڈرامے نہیں دیکھتے۔ میرے خیال میں ہندی ڈراموں کی آڈینس الگ ہے۔ پڑوسی ملک کے ڈرامے دیکھنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آڈینس کو اردو زبان اپنی معلوم ہوتی ہوگی اور اس میں سادگی کو پیش کیا جاتاہے۔ بہرحال شہر کی آڈینس اردو ڈرامے دیکھنا پسند کرتی ہےجبکہ دیہی آڈینس کو ہندی ڈرامے پسند آتے ہیں۔
کیا آپ کی اردوسے وابستگی ہے؟
ج:میرے والد انقلاب اخبار روزانہ لایا کرتے تھے اور وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ اپنی زبان صاف رکھیں۔ ہمارے گھر میں پڑھنے کا بہت رجحان ہےاور ہم اردو کے ساتھ انگریزی، ہندی، مراٹھی اور گجراتی زبان کی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ میرے دوستوں میں اکثریت شمالی ہند سے تعلق رکھنے والوں کی ہے تووہ بھی اردو ہی میں بات چیت کرتے ہیں۔ بہرحال اردو ہمارے گھر میں بچپن ہی سے رائج ہے۔