آج ۱۸؍ اگست ، سمپورن سنگھ کالرا ’’گلزار‘‘ کی ۹۰؍ ویں سالگرہ پر خراج ِ تحسین۔
EPAPER
Updated: August 18, 2024, 4:09 PM IST | Surinder Deol | Mumbai
آج ۱۸؍ اگست ، سمپورن سنگھ کالرا ’’گلزار‘‘ کی ۹۰؍ ویں سالگرہ پر خراج ِ تحسین۔
عموماً لوگ۱۹۶۰ء کی دہائی کے گلزار کے دلکش فلمی نغمات سے واقف ہیں۔ چونکہ وہ اپنی فلمی زندگی کو ادبی زندگی سے علاحدہ رکھتے ہیں، تاہم جب تک کہ آپ گلزار کے زبردست مداح نہ ہوں، اُن کی غزلوں اور نظموں پر زیادہ توجہ نہیں دیں گے۔
تمام عظیم شعراء بڑے جدت پسند ہوتے ہیں۔ اگر آپ کی وسعت ِ فکر نئے زاویوں سے ہمکنار نہیں ہو سکتی تو آپ خیالات کو شعری پیکر عطا نہیں کر سکتے۔ گلزار کی نظموں کے عنوانات (وقت، خدا، آنسو، دریا، پینٹنگ، بادل، رات، اسکیچ، گفتگو، پوسٹ باکس و دیگر) بڑے عامیانہ معلوم ہوتے ہیں۔ اِس سے آپ کیا نتیجہ اخذکرتے ہیں ؟گلزار کی جدت، مقامات، مصنوعات اور جمعیت کو ایک نئے وژن اور نئی شرح کے ساتھ مجموعۂ کلمات کے ذریعے ہمیں مختلف پہلوئوں سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ ہمیں ایسی جگہوں کی مسافرت پر لے جاتے ہیں جہاں جانے کا خیال ہی ہمارے ذہن میں نہ آیا ہو، اور ہم اِس پس و پیش کے ساتھ واپس آ جاتے ہیں کہ ہم نے اِس زاویے سے کیوں نہیں سوچا؟ یہ گلزار کی شعری توانائی کا مرکز ہے جو قلم فرسائی پر دُرّ درخشاں کی حیثیت رکھتا ہے۔
اُن کی نظم’دستک‘ میں جو دل گداز سنجیدگی ہے، وہ پڑھنے والوں پر انمٹ نقوش چھوڑ تی ہے۔ یہ مختصر نظم ایک ایسے خواب کے اِرد گرد بُنی گئی ہے، جو رات کے آخری پہر میں سرحد کے اُس پار سے آنے والے نامعلوم زائرین کی دستک سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اُن کا خیر مقدم کرتے ہوئے شاعر، پنجابی مہمان نوازی کی روایت کو استحکام بخشتا ہے، جو سرحدوں سے پرے رفاقت کی پائیداری کا ثبوت ہے۔ مہمانوں کے ہاتھوں میں ایک تحفہ ہے، جو ڈھکا ہوا ہے: گُڑ، جو سالہائے گزشتہ کی زرخیز فصلوں سے حاصل ہوا ہے۔ یہاں گڑ ایک استعارہ ہے جو تقسیم کے ہنگامے اور تنازعات کی وجہ سے ٹوٹے رشتوں سے پہلے کی دوستی اور بھائی چارہ کو پیش کررہا ہے۔ ہنوز، جب شاعر اتصالِ نو کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتا ہے، یکایک حقیقت سرد مہری کے ساتھ داخل ہو جاتی ہے۔ خواب شیشے کی طرح بکھر جاتے ہیں جیسے سرحد پر گولی باری کی خبر سکونِ شب کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:آتا ہے مجھ کو یاد
دستک
صبح صبح اِک خواب کی دستک پردروازہ کھولا، دیکھا
سرحد کے اُس پار سے کچھ مہمان آئے ہیں
آنکھوں سے مانوس تھے سارے
چہرے سارے سُنے سنائے
پائوں دھوئے، ہاتھ دھلائے
آنگن میں آسن لگوائے
اور تنّور پہ مکّی کے
کچھ موٹے موٹے روٹ پکائے
پوٹلی میں مہمان مرے
پچھلے سالوں کی فصلوں کا گڑ لائے تھے
آنکھ کھُلی تو دیکھا گھر میں کوئی نہیں تھا
ہاتھ لگا کر دیکھا توتنّور ابھی تک بجھا نہیں تھا
اور ہونٹوں پر میٹھے گڑ کا ذائقہ اب تک چپک رہا تھا
خواب تھا شاید!خواب ہی ہوگا!!
سرحد پر کل رات، سنا ہے، چلی تھی گولی
سرحد پر کل رات، سُنا ہے
کچھ خوابوں کا خون ہوا تھا!
مہمان نوازی اور حالات کے جبر و تشدد کے اِس امتزاج میں نظم امید و ناامیدی، خوابوں کی نزاکت اور تلخ حقیقت کے درمیان توازن برقرار رکھتی ہے۔ حساسیت پورے بیانیے میں حقیقت پسندی کے ساتھ موجود ہے۔ گڑ کا ذائقہ ہونٹو ں پر چپکا رہتا ہے، جو زندگی کی افراتفری کے بیچ خوشی کے چند لمحات کی ایک تلخ و شیریں یاد تازہ کرتا ہے۔ پوری نظم میں یہ سطر ایک ماتمی نوحہ کی مانند معلوم ہوتی ہے: ’خواب تھا شاید، خواب ہی ہوگا‘یہ ایک دل آویز صدا ہے، جو بے یقینی اور بے اعتباری کے ساتھ گونجتی ہے اور خوابوں کی لمحاتی نورانی کیفیت کو کڑوی سچائی سے ہم آہنگ کرنے کی شاعر کی کوششوں کو پیش کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۶)
تقسیم کے وقت گلزار نوعمر تھے۔ اُن کے پاس اپنی جائے پیدائش، دینا (اب پاکستان میں ) میں اپنے بچپن کی خوشگوار یادیں ہیں، لیکن ۱۹۴۷ء کے قیامت خیز تجربات اور دلخراش مناظر نے گلزار کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ گلزار چو نکہ بنیادی طور پر اردو کے شاعر ہیں، اس لئے انھیں ہندوستان کے علاوہ پاکستانی قارئین سے بھی بڑی پزیرائی ملتی ہے۔ وہ پاکستان کے شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کو پیار سے ’بابا‘ کہتے تھے، کیونکہ وہ ان کے رہنما و کرم فرما تھے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ گلزار کو مختلف زبانوں سے عشق ہے۔ انہوں نے اردو شاعر کے طور پراپنا قلمی سفر شروع کیا (جو اب بھی جاری ہیں ) لیکن اُن کی دسترس ہندی، بنگالی اور بھوجپوری جیسی ہندوستانی اور پاکستانی بولیوں حتیٰ کہ سنسکرت پر بھی ہے۔ وہ اردو میں نظم کہتے ہیں لیکن اس کی تزئین و آرائش مختلف زبانوں سے کرتے ہیں۔ اُن کی نظم ’اردو زباں ‘ اردو نزاکت و نفاست کا ثبوت پیش کرتی ہے۔ مکمل صفحہ اِس کی عظمت اور شان و شوکت کی توصیف کرنے والے کلمات سے مزین ہے۔ پان کے پتے پر مہنگے قوام کی خوشبو کی طرح اردو بولنے کو ایک نشہ آور تجربہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ایک ایسا احساس جو ہمیں فریفتہ کر دیتا ہے اور ہر شخص کو مسحور کر دیتا ہے۔ اردو کے پیچیدہ تانے بانے میں شاعر اشرافیت کی فصاحت کو پہچانتا ہے، ایک عظیم وقار جو لفظوں سے بالاتر ہے خواہ اُن کا معنی ادراک سے پرے ہو۔ اس زبان کی جڑیں تاریخ و ثقافت میں پیوست ہیں، جو صدیوں پرانی وراثت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، پھر بھی یہ متحرک و زندہ زبان ہے۔
اردوکی شعری روایت کے نقطہ نظر سے یہ نظم اردو زبان کے انسانی روح پر پڑنے والے گہرے اثرات کو بیان کرتی ہے۔ یہ محض رابطے کا ایک موثر وسیلہ نہیں ہے، بلکہ تمدنی شناسائی، میل ملاپ اور یگانگت کا ذریعہ ہے۔ ایک ایسا دھاگہ جو مختلف رنگ و نسل کے افراد کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ نظم کی ساخت، اس کی سلاست بیانی، خود اردو کی دل پزیری کی آئینہ دار ہے۔ درحقیقت، اردو شاعری میں اِس قسم کا نایاب خراجِ تحسین ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کتنے اردو شاعروں نے اُسی زبان کی عظمت بیان کی ہے یا اس کے بارے میں سوچا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں ؟
اردو زباں
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا،
مزا گھُلتا ہے لفظوں کا زباں پر
کہ جیسے پان میں مہنگا قوام گھُلتا ہے
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا…
نشہ آتا ہے اردو بولنے میں
گلوری کی طرح ہیں منہ لگی سب اصطلاحیں
لطف دیتی ہے، حلق چھوتی ہے اردو تو،
حلق سے جیسے مے کا گھونٹ اُترتا ہے
بڑی ارسٹوکریسی ہے زباں میں
فقیری میں نوابی کا مزا دیتی ہے
اگرچہ معنی کم ہوتے ہیں اردو میں
الفاظ کی افراط ہوتی ہے/ مگر پھر بھی، بلند آواز پڑھئے تو / بہت ہی معتبر لگتی ہیں باتیں
کہیں کچھ دور سے کانوں میں پڑتی ہے اگر اردو
تو لگتا ہے کہ دن جاڑوں کے ہیں کھڑکی کھُلی ہے،
دھوپ اندر آ رہی ہے
عجب ہے یہ زباں، اردو
کبھی کہیں سفر کرتے
اگر کوئی مسافر شعر پڑھ دے میرؔ، غالبؔ کا
وہ چاہے اجنبی ہو، یہی لگتا ہے وہ میرے وطن کا ہے
بڑی شائستہ لہجے میں کسی سے اردو سُن کر
کیا نہیں لگتا کہ ایک تہذیب کی آواز ہے اردو!
آئیے، ہم دو مختصر نظمیں ’روح دیکھی ہے کبھی‘ اور ’لینڈ اسکیپ‘ کی بات کرتے ہیں۔ گرچہ فطرتاً صوفیانہ نہیں، لیکن گلزار کے ہاں کبھی کبھار ہمیں رومی، حافظ وبلھے شاہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ’روح‘ انسانی روح کی گہرائیوں میں سرایت کر تی جاتی ہے اور روح کے وجود اور اُس کی فطرتِ گریزاں کے متعلق استفسارات کرتی ہے۔ یہ قارئین کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ اپنی ہستی کو دریافت کریں اور اِس بات کی تحقیق کریں کہ آیا انہوں نے زندگی کے غیر محسوس پہلوئوں کو واقعی محسوس کیا ہے۔ شاعر ایک نازک راہ پر گامزن ہے اور قارئین کو درونِ وجود کا جائزہ لینے کی تاکید کررہا ہے۔ یہ سفر غیر یقینی اور جوکھم بھرا ہے۔ ’روح دیکھی ہے، کبھی روح کو محسوس کیا ہے؟‘یہ مصرع مرکزی موضوع کو بیان کرتا ہے اور قارئین کو خودشناسی کی ترغیب دیتا ہے۔ گلزار نے حقیقی تصور کے ساتھ احساسات کی ایک ایسی تصویر کھینچی ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور اُسے غور و فکر کی عمیق گہرائیوں میں لے جاتی ہے۔ شاعر بے حس لوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کی سعی کرتا ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں دھرم گرویا مذہبی مبلغین اپنے کردار کو محض ایمان و عقیدے تک محدود رکھتے ہیں، گلزار واحد فنکار ہیں جو اپنے طاقتور لفظوں کو ہماری بیداری کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
’لینڈسکیپ‘ میں ایک ویران ساحل کے وسیع و عریض میدان میں ایک دلخراش منظر سامنے آتا ہے۔ ایک بوڑھا پام کا پیڑ وقت کی مار جھیل رہا ہے، جبکہ ایک جوان پودا مضبوطی سے کھڑا ہے اور سرسبز و شاداب ہو رہا ہے۔ یہ تضاد زندگی کے تلخ حقائق کا آئینہ دار ہے: ایک برسوں کا بار برداشت کر رہا ہے اوردوسرا خوش آئند مستقبل کیلئے پُرامید ہے۔ اپنے اِرد گرد کے خوفناک سکوت کے درمیان تنہائی سے بوجھل بوڑھا درخت ہمنشیں کیلئے تڑپ رہا ہے۔ اِس کا جھلسا ہوا بدن بہت سی اَن کہی باتیں کہہ رہا ہے۔ شخصی طور پر پام کا بوڑھا درخت انسانی جذبات کا پیکر بن جاتا ہے۔ لب کشائی کیلئے اس کی بے صدا التجا قاری کی قرب کی تڑپ کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔ نظم اختتام پر پہنچتی ہے تو بوڑھا درخت اپنے مقابل درخت سے درخواست کرتا ہے: ’یار! سرد سناٹا ہے! تنہائی ہے! کچھ بات کرو!‘۔ یہاں ہم ایک عالمگیر سچائی کا سامنا کرتے ہیں۔ عدم تحفظ کا ایک پَل جہاں الفاظ کارگر نہیں ہوتے وہاں یہ ہمارے تجربات کی عکاسی کرتی ہے، جہاں مکالمہ تھم جانے سے ہمیں خلا کو پُر کرنے اور غیر معمولی خاموشی کو دور کرنے کیلئے الفاظ ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔
اردو ترجمہ: استوتی اگروال