گرو دت کا شمار وطن عزیز کے ان عظیم اداکار، ہدایتکار اور فلمساز کے طور پر ہوتا ہے جو ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی پیدائش ۹؍ جولائی۱۹۲۵ء کو بنگلور میں ہوئی تھی تاہم تعلیم کلکتہ میں حاصل کی
EPAPER
Updated: October 11, 2020, 11:58 AM IST | Agency
گرو دت کا شمار وطن عزیز کے ان عظیم اداکار، ہدایتکار اور فلمساز کے طور پر ہوتا ہے جو ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی پیدائش ۹؍ جولائی۱۹۲۵ء کو بنگلور میں ہوئی تھی تاہم تعلیم کلکتہ میں حاصل کی
گرو دت کا شمار وطن عزیز کے ان عظیم اداکار، ہدایتکار اور فلمساز کے طور پر ہوتا ہے جو ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی پیدائش ۹؍ جولائی۱۹۲۵ء کو بنگلور میں ہوئی تھی تاہم تعلیم کلکتہ میں حاصل کی۔ ۲۰؍ برس کی عمر میں وہ ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا میں داخل ہو چکے تھے، جہاں انہیں گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایتکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اکثر لوگ فلم ’باز‘ کوگرو دت کی پہلی فلم سمجھتے ہیں لیکن وہ ’باز‘ سے پہلے تین فلموں سے وابستہ رہے۔ یہ فلمیں ’لاکھا رانی‘ (۱۹۴۵ء)،’ ہم ایک ہیں‘ (۱۹۴۶ء) اور’گرلز اسکول‘(۱۹۴۹ء) تھیں۔بطور اداکار انہوں نے۱۷؍ فلموں میں کام کیا جن میں سے۸؍ فلمیں انہوں نے خود ڈائریکٹ کیں اور یہی فلمیں اُن کی بہترین فلمیں بھی ثابت ہوئیں۔ ان کی مشہور فلموں میں ’صاحب، بیوی اور غلام‘ اور ’چودہویں کا چاند‘ شامل ہیں جو انہوں نے خود ڈائریکٹ نہیں کیں۔اگر گرو دت کی ۴؍ فلموں کو بے مثال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، ان میں دو مزاحیہ اور دو سنجیدہ فلمیںہیں۔ ان کے کام کرنے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ وہ پہلے ایک کامیڈی بناتے اور اُس کے فوراً بعد ایک سنجیدہ فلم بنانا شروع کر دیتے۔
ایک طرف جہاں محبوب خان، بمل رائے اورراج کپور کی فلموں نےدیوداس کے امیج کی صورت میں اس دور کے ہندوستانی نوجوان کی ایک الگ اور نئی تصویر پیش کی تو وہیں دوسری جانب گُرو دت نے اُس مایوس سنجیدہ ہیرو کوایک ذاتی اور سیاسی پہچان دی۔ایک ایسے وقت میں جب ہندوستانی سنیما ایک نئے دور کی تلاش میں تھا ،گرو دت نے اپنی فلموں میں بہت سے مشکل مسائل اٹھا کر نوجوانوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ اِن سوالوں کے جواب شاید خود گرو دت کو آخر تک نہ مل سکے لیکن اِن سوالوں سے گرو دت نے ہندوستانی سنیما کی ایک ایسی الگ تاریخ لکھی جس کا اثر آج بھی ہندوستانی سنیما پر نظر آتا ہے۔
فلم انڈسٹری کیلئے ۱۹۵۱ء ایک زریں سال تھا۔ اُس سال دلیپ کمار اور نرگس کی ’دیدار‘ اور’ ہلچل‘، مدھوبالا اور دلیپ کمار کی ’ترانہ‘، ہدایتکار ضیا سرحدی کی ’ہم لوگ‘ اور راج کپور کی عالمی شہرت یافتہ فلم’ آوارہ‘ ریلیز ہوئی تھی۔ اتنے سخت مقابلے کے باوجود گرو دت کی فلم ’بازی‘ نے اچھا خاصا بزنس کیا اور پچیس برس کی عمر میں گرو دت کو ایک مستند ہدایتکار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔گرو دت نے فلم جال، آر پار، پیاسا، کاغذ کے پھول اور مسٹر اینڈ مسز۵۵؍ جیسی فلمیں پیش کیں جسے آج اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی جب شائقین دیکھتے ہیں تو وہ بالکل نئی فلمیں معلوم پڑتی ہیں۔ ’ آر پار‘ اور ’مسٹر اینڈ مسز۵۵؍ کا شمار ہندوستان کی یادگار مزاحیہ فلموں میں کیا جاتا ہے جبکہ’پیاسا‘ اور’ کاغذ کے پھول‘ نہ صرف ہندوستانی بلکہ عالمی سنیما کی دو نہایت ہی اہم فلمیں مانی جاتی ہیں۔۱۹۵۶ء میں گرودت کی فلم ’سی آئی ڈی‘ منظرِ عام پر آئی۔ ’بازی ‘اور ’آر پار‘ کی طرح یہ بھی جرم و سزا کی ایک کہانی تھی لیکن اس میں گرُو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا اور ہدایتکار کی ذاتی زندگی میں یہ واقع ایک انتہائی اہم موڑ ثابت ہوا۔
۱۹۵۳ء میں گرودت نے اس زمانے کی معروف گلوکارہ گیتا دت سے شادی کر لی تھی۔ اُن کے دو بیٹےپیدا ہوئے اور زندگی بڑی خوشگوار گزر رہی تھی لیکن وحیدہ رحمان گرُو دت کی فلمی زندگی میں داخل ہوئی تو ان کی گھریلو زندگی میں ایک طوفان آگیا اور وہ گیتادت سے الگ مکان لے کر رہنے لگے۔ وحیدہ نے جب دیکھا کہ گرودت کی تمام پریشانیوں کا الزام ان پر آرہا ہے تو وہ بھی کنارہ کش ہوگئی اور یوں گرودت بالکل تنہا رہ گئے۔ بیوی اور محبوبہ کے دو پاٹوں کے درمیان پس کر رہنے والے گرودت نے اپنی زندگی کو شراب میں ڈبودیا۔ انہوں نے’ کاغذ کے پھول‘ بڑے دل سے بنائی تھی اور اس کا مہورت دہلی میں نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن کے ہاتھوں انجام پایا لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ثابت ہوئی۔ اس ناکامی نے گرودت کو توڑ کر رکھ دیا۔۹؍اکتوبر۱۹۶۴ءکی شام، گرو دت کی بیشتر فلموں کے رائٹر اور ذاتی دوست ابرار علوی ان کے پاس تھے اور کھانے پینے کی محفل کے بعد رات کے ایک بجے تک اُن کی گپ شپ ہوتی رہی۔ باتوں باتوں میں اس پر بھی بحث ہوئی کہ بعض لوگ خود کشی کیلئے بڑی تعداد میں نیند کی گولیاں کھا لیتے ہیں لیکن پھر بھی موت دغا دے جاتی ہے اور انھیں اسپتال لے جاکر بچا لیا جاتا ہے۔ چنانچہ دونوں نے ہنسی مذاق میں اس بات پر اتفاق کیا کہ گولیاں پھانکنے کے بجائے انھیں باریک پیس کر پانی میں حل کر لینا چا ہئے تاکہ فوری اثر ہو۔ رات کے ایک بجے کے قریب گرو دت نے کہا کہ مجھے نیند آرہی ہے اورابرار علوی اپنے گھر چلے گئے۔۱۰؍ اکتوبر کادِن، گرودت کے چاہنے والوں کیلئے بڑا مایوس کن دن تھا۔گرودت نیند کی گولیاں کھاکر ابدی نیند سو گئے تھے۔
گرو دت کو زندگی میں جو شہرت نہیں مل سکی تھی، وہ موت کے بعد ان کا مقدر بنی۔۱۹۷۰ء کی دہائی میں ان کی فلمیں پھر سے مقبول ہونے لگیں۔۱۹۸۰ء میں ایک فرانسیسی محقق نے اُن پر اپنی ریسرچ شائع کی تو گرو دت کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گیا۔ بعد میں ان کی فلموں کے میلے فرانس اور یورپ کے دیگر شہروں میںمنعقد ہوئے۔مشہورفلم اسکالر لاورا ملوی نے گرو دت کی فلم’پیاسا‘ کو دُنیا کی دس بہترین فلموں میں شمار کیا۔