• Tue, 07 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

حسرؔت جے پوری نےتقریباً تین دہائیوں تک فلموں کو معیاری اور مقبول نغمے دیئے

Updated: January 05, 2025, 3:31 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

بطور بس کنڈکٹر۱۱؍روپے ماہانہ کی ملازمت کے بعد کپڑے کی ایک فیکٹری میں نوکری کے دوران پرتھوی راج کپور سے ملاقات نے حسرت ؔجے پوری کیلئے فلم انڈسٹری کے دروازے کھول دیئے۔

Hasrat Jaipuri. Picture: INN
حسرت جے پوری۔ تصویر: آئی این این

ہندوستان کے گلابی شہر جے پور میں ۱۹۱۸ء کی ۱۵؍ جنوری کو حسرت ؔجے پوری کا جنم ہوا۔ والدین نے اُن کا نام اقبال حسین رکھا تھا، ابتدائی تعلیم عام بچوں کی طرح مقامی اسکول میں ہوئی، متوسط خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے حسرت ؔجے پوری اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے اور صرف آٹھویں کلاس تک سلسلۂ تعلیم جاری رکھ سکے۔ بعد میں انہوں نے اپنے نانا سے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اُن کے نانا فداحسین فداؔ جے پور کے مقبول اردو شاعروں میں سے ایک تھے اور حسرت کو شاعری کا علم اُن ہی سے حاصل ہوا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اُن کا رجحان لڑکپن سے ہی شاعری کی طرف زیادہ رہا۔ 
 ابھی حسرت ؔکی نوجوانی ہی کا زمانہ تھا کہ انہیں شاعر کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت حاصل ہونے لگی اور وہ مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ ان ہی دنوں حسرتؔ کی شہرت اور ان کے کسی دوست کے توسط سے آل انڈیا ریڈیو میں بھی اُن کو گانے لکھنے کا کام ملنے لگا۔ حسرتؔ جے پوری کو شروع سے ہی فلموں میں اداکاری اور ہیرو بننے کا شوق تھا اور شاعری اُن کے بچپن سے ہی خون میں شامل ہو گئی تھی۔ چند دوستوں کی مالی مدد سے اور دِل میں بہت سی حسرتیں لے کر وہ جے پور سے بمبئی جانے والی ٹرین میں سوار ہو گئے۔ بمبئی آنے کے بعد حسرتؔ جے پوری کافی دنوں تک جدوجہد کرتے رہے۔ حسرتؔ جے پوری نے بمبئی کے اپنے ابتدائی دنوں میں ۱۱؍روپے ماہانہ پر بس کنڈکٹر کی ملازمت کی اور کچھ دنوں بعد کپڑے کی ایک فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی۔ 
 اُسی کپڑا فیکٹری کا کوئی کلچرل پروگرام تھا، جس میں مقبول اداکار پرتھوی راج کپور بھی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شامل تھے۔ پرتھوی راج کپور خود اردو اور فارسی کے جانکار تھے اور ساتھ ہی اردو شاعری کے دلدادہ بھی تھے۔ اس پروگرام میں حسرتؔ جے پوری نے اپنے چند اشعار سنائے، جن کو پرتھوی راج کپور نے بہت پسند کیا اورحسرت کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ حسرتؔ اکثر پرتھوی راج کپور کے گھر جاتے اور شعر وشاعری پر دونوں میں خوب گفتگو ہوتی۔ پرتھوی راج کپور نے اپنے ’’پرتھوی تھیئٹر‘‘ میں گانے لکھنے کے لیے حسرتؔ سے کہا اور انہوں نے قبول کر لیا۔ اُسی دوران پرتھوی راج کپور نے اپنے بیٹے فلمساز وہدایتکار راج کپور سے حسرتؔ کو ملوایا۔ حسرتؔ جے پوری نے انہیں اپنی چند غزلیں سنائیں جو راج کپور کو پسند آئیں۔ راج کپور نے شنکر جے کشن کی دھنوں پر گیت لکھنے کیلئےحسرتؔ جے پوری سے کہا۔ اُن دنوں راج کپور اپنے ذاتی فلم پروڈکشن ’’آر کے فلمز‘‘ کی پہلی فلم ’’برسات ‘‘ (۱۹۴۹ء) کی تیاری میں مصروف تھے۔ انہوں نے شنکر جے کشن کی دھن پر اس فلم کے لئے سب سے پہلا گانا… ’’جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے‘‘… لکھا، جو بعد میں کافی مقبول ہوا۔ حسرتؔ جے پوری کا دوسرا نغمہ… ’’میں زندگی میں ہر دم روتا ہی رہا ہوں …‘‘ گلوکار محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ ہوا، جو بہت مقبول ہوا۔ یہ فلم انڈسٹری کا بڑا نازک دور تھا۔  آزادی کی تحریک شدت اختیار کر چکی تھی اور ہندوستانی سنیما کا مزاج بھی بدل رہا تھا۔ تکنیکی طور پر بھی اور کہانی و منظرنامے میں بھی نئی نئی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ فلموں کی ضرورتیں بھی بدل رہی تھیں اور فلم بینوں کی نظریں بھی اب فلموں میں بہت کچھ بدلا ہوا دیکھنا چاہتی تھیں۔ 
 اس طرح ۱۹۴۰ء میں حسرت ؔجے پوری ہندی فلموں کے شومین راج کپور کے فلمی بینر ’’آر کے فلمز‘‘ سے وابستہ ہو گئے اور انہوں نے فلم ’’برسات‘‘ کے نغمے تحریر کئے۔ راج کپور کو فلمی موسیقی کی بہت سمجھ تھی اور وہ اپنی فلم میں گانوں کو، اُن کی دھنوں کو، اُن کی نغمہ نگاری اور فلمبندی کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ فلم ’’آگ‘‘ کی کامیابی کے بعد اپنی اگلی فلم کیلئے وہ موسیقار نوشاد کو سائن کرنا چاہتے تھے، مگر نوشاد صاحب اُن دنوں بے حد مصروف تھے۔ لہٰذا راج کپو نے اپنی نئی موسیقی ریز رومانی فلم کی موسیقی ایک نئی موسیقار جوڑی شنکر جے کشن کے حوالے کر دی، اور ساتھ میں حسرتؔ جے پوری کو بھی اُن سے جوڑ دیا۔ اس طرح راج کپور، شنکر جے کشن اور حسرت جے پوری کا ایک کامیاب مثلث بن گیا۔ راج کپور کے ساتھ حسرتؔ کی وابستگی آخری وقت تک قائم رہی اور انہوں نے ’’آر کے بینر‘‘ کے تحت بننے والی ’’شری ۴۲۰، آوارہ، سنگم، بوٹ پالش، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، میرا نام جوکر‘‘، اور ’’رام تیری گنگا میلی‘‘ جیسی کئی کامیاب فلموں کے لئے گیت لکھے۔ 
  حسرت ؔجے پوری کی جوڑی موسیقار شنکر جے کشن کے ساتھ بنی اور انہوں نے شنکر جے کشن کی دھنوں پر بے شمار بہترین نغمے لکھے۔ مقبولیت کے لحاظ سے حسرت ؔجے پوری کے فلمی نغموں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر میں تقریباً دو سو فلموں کے لئے نغمہ نگاری کی۔ آج کل فلمی نغمہ نگار بہت جلد شہرت حاصل کرنے کیلئے یا تو تُک بندی کر رہے ہیں یا پھر آئیٹم سانگ قسم کے گانے لکھ رہے ہیں۔ چند گیت کاروں کو الگ رکھیں تو زیادہ تر گیت کار غیرمعیاری گیت ہی لکھ رہے ہیں جبکہ حسرتؔ جے پوری نے تقریباً تین دہائیوں کے لمبے عرصے تک ہماری فلموں کو معیاری اور مقبول گیت دیئے اور فلمی نغمہ نگاری کی ایک شاندار مثال قائم کی۔ 
 ۱۹۶۰ء میں ریلیز ہوئی فلم ’’دل اپنا اور پریت پرائی‘‘ کے گانے بھی حسرت ؔجے پوری نے ہی لکھے تھے۔ اس فلم کے ہدایتکار اور فلمساز کمال امروہی تھے۔ ایک گانے کا مکھڑا حسرت ؔجے پوری نے اس طرح لکھا تھا… ’’مٹکۂ دل اتنا نہ اُچھالو…‘‘ دراصل سین کے مطابق کئی نوجوان لڑکیاں ندی کے کنارے ہاتھوں میں مٹی کے مٹکے لئے ہوئے، ایک دوسرے کو چھیڑتے ہوئے اس گانے کو گاتی ہیں۔ جب کمال امروہی نے یہ مکھڑا سنا تو کافی دیر تک اس پر غور کرتے رہے اور پھر حسرت ؔجے پوری سے کہنے لگے کہ اگر مٹکے کی جگہ یوں ہو جائے کہ… ’’شیشۂ دل اتنا نہ اچھالو…‘‘ تو زیادہ بامعنی ہو جائے گا۔ حسرت ؔجے پوری نے فوراً کمال امروہی کی بات مان لی اور پھر بعد میں یہ نغمہ کافی مقبول ہوا۔ حسرت ؔجے پوری بہترین نغمہ نگار کے ساتھ ساتھ خوش مزاج اور ملنسار انسان بھی تھے۔ دوسروں کے اچھے اور مفید مشورے بڑی خندہ پیشانی سے مان لیا کرتے تھے۔ ان کی یہ عادت فلمی دنیا میں ان کو مقبول بنائے ہوئے تھی۔ 
 اسی طرح کا ایک واقعہ ہے جب حسرتؔ جے پوری فلم ’’آرزو‘‘ کے گیت لکھ رہے تھے۔ فلمساز وہدایتکار رامانند ساگر نے سری نگر کے ایک ایسے ہوٹل میں اُن کو ٹھہرایا تھا جس کی کھڑکی ڈل جھیل کی طرف کھلتی تھی اور وہاں سے پوری ڈل جھیل کا خوشنما منظر صاف نظر آتا تھا۔ سچویشن حسرت کے ذہن میں تھی اور لوکیشن آنکھوں کے سامنے۔ وہ بار بار گیت کے مصرعے لکھتے اور بدل دیتے۔ اسی میں دوپہر ہو گئی اور سورج سر پر آگیا۔ حسرت کھڑکی سے باہر ڈل جھیل کو دیکھ رہے تھے۔ تبھی انہیں ایسا محسوس ہوا، جیسے ڈل جھیل کے روپ میں قدرت نے ایک بہت بڑا آئینہ اُن کے سامنے رکھ دیا ہے، کیونکہ سورج کی روشنی سے جھیل کی خاموش سطح درپن کی طرح چمک رہی تھی۔ ایک خیال اُن کے ذہن میں کوندا، اور زبان پر یہ مصرعہ آیا… ’’تجھے اِس جھیل کا خاموش درپن یاد کرتا ہے…‘‘ پھر کیا تھا؟ تھوڑی ہی دیر میں پورا نغمہ کاغذ پر اُتر آیا اور بعد میں فلم ’’آرزو‘‘ کا یہ گیت بے پناہ مقبول ہوا۔ 
 ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں راج کپور، شنکر جے کشن اور حسرت ؔجے پوری کی ٹیم نے فلمی موسیقی کی دنیا میں جو مدھر ہلچل پیدا کی تھی اس کی مثالیں آج بھی موجود ہیں۔ راج کپور کی کوئی فلم ایسی نہیں بنتی تھی جس میں موسیقار شنکر جے کشن اور گیت کار حسرت ؔجے پوری موجود نہ ہوتے تھے۔ اس زمانے میں یہ لوگ فلم کی تکمیل تک ہر پہلو پر غور کیا کرتے تھے۔ آج کی طرح ایسا نہیں تھا کہ اپنا کام کیا اور چلے گئے۔ کبھی کبھی راج کپور آدھی رات کو حسرت ؔجے پوری کے گھر چلے جاتے اور اُن کو جگا کر کہتے… ’’حسرت! میں نے ابھی ایک گیت کی سیچویشن سوچی ہے، اس پر تمہیں گیت لکھنا ہے، ذرا بتانا تو یہ سیچویشن کیسی ہے؟‘‘ اور پھر دونوں گھنٹوں اُس سیچویشن پر باتیں کرتے کرتے صبح کر دیتے۔ 
 ایک بار سمی گریوال نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں راجکپور سے سوال کیا تھا کہ آپ کی فلموں کی کامیابی اور بے پناہ مقبولیت میں سب سے زیادہ کن لوگوں کا تعاون شامل رہا ہے۔ راج کپور نے برجستہ کہا کہ وہ اس کامیابی اور مقبولیت کا سب سے زیادہ کریڈٹ اپنے گیت کاروں، حسرتؔ جے پوری اور شیلندر، موسیقار شنکر جے کشن، اور اپنے دوست گلوکار مکیش کو دینا چاہیں گے۔ ان ہی لوگوں کی محنت سے میری فلموں کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ راج کپور نے اپنی فلموں ’’میرا نام جوکر‘‘ اور ’’کل، آج اور کل‘‘ کی ناکامی کے بعد ایک بہت بڑا فیصلہ لیتے ہوئے اپنی میوزک جوڑی کو بدل دیا اور شنکر جے کشن کی جگہ لکشمی کانت پیارے لال ’’آر کے فلمز‘‘ سے وابستہ ہو گئے اور راج کپور نے آنند بخشی کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ حالانکہ فلم ’’پریم روگ‘‘ کے لئے اُنہوں نے پھر سے حسرتؔ کو واپس لانا چاہا، مگر اُن ہی دنوں راج کپور کو امیرآغا قزلباش مل گئے۔ اس کے بعد حسرتؔ نے راج کپور کے لئے فلم ’’رام تیری گنگا میلی‘‘، ’’ سُن صاحبہ سُن…‘‘ اور ’’حنا‘‘ کیلئے صرف تین گانے لکھے، جس میں سے ایک ہی ’’میں ہوں خوش رنگ حنا…‘‘ استعمال ہو سکا۔ 
 حسرت ؔجے پوری کے فلمی نغموں میں الفاظ آسان اور رواں دواں ہوتے تھے۔ ان کی فلمی نغمہ نگاری کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ انہوں نے فلمی نغمہ نگاری کو مکالماتی انداز بخشا ہے۔ جیسے فلم ’’سیما‘‘ میں حسرتؔ کا یہ نغمہ… ’’چھوٹی سی گڑیا کی لمبی کہانی‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK