رشی کیش مکھرجی بالی ووڈ کے ایسے ’اسٹار میکر‘ کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں جن کا دھرمیندر، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن، امول پالیکر اور جیہ بہادری جیسے فلمی ستاروں کی کامیابی میں اہم کردار رہا ہے۔
EPAPER
Updated: September 01, 2024, 3:36 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
رشی کیش مکھرجی بالی ووڈ کے ایسے ’اسٹار میکر‘ کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں جن کا دھرمیندر، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن، امول پالیکر اور جیہ بہادری جیسے فلمی ستاروں کی کامیابی میں اہم کردار رہا ہے۔
رشی کیش مکھرجی بالی ووڈ کے ایسے ’اسٹار میکر‘ کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں جن کا دھرمیندر، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن، امول پالیکر اور جیہ بہادری جیسے فلمی ستاروں کی کامیابی میں اہم کردار رہا ہے۔ ان کی پیدائش ۳۰؍ ستمبر۱۹۲۲ء کو کلکتہ میں ہوئی تھی اور کلکتہ یونیورسٹی ہی سے انہوں نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ چوتھی دہائی میں انہوں نے فلمی کریئر کا آغاز بطور کیمرہ مین کیا تھا۔
نیو تھیٹر میں ان کی ملاقات معروف فلم ایڈیٹر سبودھ متر سے ہوئی۔ ان کے ساتھ رہ کر رشی کیش مکھرجی نے فلم ایڈیٹنگ کی باریکیاں سیکھیں۔ اس کے بعد وہ فلمساز ومل رائے کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ انہوں نے ومل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ اور ’دیو داس‘کی ایڈیٹنگ بھی کی۔ بطور ہدایتکار رشی کیش نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز ۱۹۵۷ء میں ریلیز ہوئی فلم ’مسافر‘ سے کیا تھا۔ دلیپ کمار، سچترا سین اور کشور کمار جیسے بڑے اداروں کے باوجود یہ فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی تھی۔ ۱۹۵۹ء میں انہیں راج کپور کی فلم ’اناڑی‘کی ہدایتکاری کا موقع ملا۔ ان کی یہ فلم باکس آف پر سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کے بعد وہ بطور ہدایت کار اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
۱۹۶۰ءمیں رشی کیش کی ایک اور فلم ’انوراگ‘ ریلیز ہوئی۔ بلراج ساہنی اور لیلا نائیڈو کی اداکاری والی اس فلم کی کہانی ایک ایسی شادی شدہ عورت کی ہے جس کا شوہر اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے اسے چھوڑکر اپنے گاؤں چلا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ فلم ناکام ثابت ہوئی تھی لیکن نیشنل ایوارڈ کے ساتھ ہی اسے برلن فلم فیسٹول میں بھی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ۱۹۶۶ء میں آنے والی فلم ’آشیرواد‘ رشی کیش مکھرجی کے کریئر کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کے ذریعہ رشی کیش نے نہ صرف ذات پات اور زمینداری کے رواج پر سخت وار کیا تھا بلکہ ایک باپ کے درد کو سلور اسکرین پر بھی پیش کیا تھا۔ اس فلم میں اشوک کمار پر فلمایا گیا گیت ’ریل گاڑی، ریل گاڑی‘اُن دنوں کافی مقبول ہوا تھا۔ ۱۹۶۹ء میں ریلیز ہوئی فلم ’ستیہ کام‘ کا شمار بھی ان کی ہدایتکاری والی اہم فلموں میں ہوتا ہے۔ دھرمیندر اور شرمیلا ٹیگور کی اس فلم کی کہانی ایک ایسے نوجوان کی زندگی پر مبنی ہے جس نے آزادی کے بعد کے ملک کا جو تصور کیا تھا ویسا نہیں ہوتا۔ یہ فلم بھی ناکام رہی لیکن فلم بینوں کا خیال ہے کہ یہ فلم رشی کیش کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔
جیہ بہادری کے فلمی کریئر میں فلمساز و ہدایت کار رشی کیش مکھرجی کی فلموں کا اہم رول رہا ہے۔ جیہ کو پہلا بڑا موقع ۱۹۷۱ء میں رشی کیش کی فلم ’گڈی‘ ہی سے ملا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے جو فلمیں دیکھنے کی شوقین ہے اور اداکار دھرمیندر سے محبت کرتی ہے۔ اپنے اس کردار کو جیہ بہادری نے اپنے چلبلے انداز میں ادا کیا تھا۔ ان کا یہ کردار ناظرین کو آج بھی یاد ہے۔ اس فلم کے بعد رشی کیلئے جیہ ایک پسندیدہ اداکارہ بن گئی تھیں۔ جیہ بہادری کو وہ اپنی بیٹی کی طرح مانتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے جیہ کے ساتھ باورچی، ابھیمان، چپکے چپکے اور ملی جیسے فلمیں بنائیں۔ ۱۹۷۰ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’آنند‘ کا شمار رشی کیش کی سپرہٹ فلموں میں ہوتا ہے۔ اس فلم میں راجیش کھنہ نے آنند کا مرکزی کردار ادا کیا۔ فلم کے ایک منظر میں راجیش کھنہ کے ذریعہ ادا کیا گیا مکالمہ ’بابو موشائے، ہم سب رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں ہیں جس کی ڈور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے، کون جانے کب کس کی ڈور کھنچ جائے یہ کوئی نہیں بتا سکتا‘کافی مقبول ہوا تھا۔ ۱۹۷۳ء میں ان کی کامیاب فلم ’ابھیمان‘ ریلیز ہوئی تھی۔ اس میں امیتابھ نے ایک ایسے گلوکار شوہر کا کردار ادا کیا تھا جو اپنی گلوکارہ بیوی کی کامیابی سے حسدکرتا ہے۔
۱۹۷۵ء میں ریلیز فلم’ چپکے چپکے‘ رشی کیش کے کریئر کی ایک اہم فلم رہی۔ اس دور میں امیتابھ اور دھرمیندر کو لے کر صرف لڑائی اور ایکشن سے بھرپور فلمیں بنائی جاتی تھیں لیکن انہوں نے اس روش سے ہٹ کر ان دونوں کے ساتھ مزاحیہ فلم بناکر سب کو حیران کردیا تھا۔ ۱۹۷۹ء میں ان کی مزاحیہ فلم ’گول مال‘ ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اچھی مزاحیہ فلموں کا جب بھی ذکر ہوتا ہے، گول مال کا تذکرہ ضرور ہوتاہے۔ ۱۹۸۸ء میں ریلیز ہوئی فلم ’ناممکن‘ کے ناکام ہونے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ فلمی دنیا میں پیشہ ورانہ طرز کچھ زیادہ ہی حاوی ہوگیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے تقریباً ۱۰؍ سال تک فلموں سے دوری اختیار کرلی۔ اس کے بعد ۱۹۹۸ء میں انہوں نے انل کپور کے ساتھ ’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘ بنائی۔ یہ فلم بھی باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔ رشی کیش مکھرجی کو اپنے فلمی سفر میں ۷؍ بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ۱۹۶۰ء میں ریلیز ہوئی فلم ’انورادھا‘ کیلئے انہیں بہترین فلمساز کے نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلموں میں نمایاں تعاون کے پیش نظر انہیں فلمی صنعت کے سب سے بڑے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور پدم وبھوشن سے بھی سرفراز کیا گیا۔ انہوں نے تین دہائیوں پر مشتمل اپنے فلمی سفر میں صرف۱۳؍ فلموں کی فلمسازی اور۴۳؍ فلموں کی ہدایتکاری کی ہے۔ اسی طرح کچھ فلموں کی ایڈیٹنگ، کہانی نویسی اور اسکرین پلے بھی لکھے۔ تین دہائیوں تک اپنی فلموں سے فلم شائقین کو تفریح فراہم کرنے والے عظیم فلمساز و ہدایت کار رشی کیش مکھرجی نے۲۷؍ اگست۲۰۰۶ءکو اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔