ہندوستانی سنیما کے تاریخ میں میل کا پتھر قرار دی جانے والی فلم’مغل اعظم‘ یوں ہی تاریخی فلم نہیں بن گئی تھی بلکہ اس کیلئے اس فلم سے وابستہ ایک ایک فرد نے کافی محنت کی تھی۔
EPAPER
Updated: June 02, 2024, 2:15 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ہندوستانی سنیما کے تاریخ میں میل کا پتھر قرار دی جانے والی فلم’مغل اعظم‘ یوں ہی تاریخی فلم نہیں بن گئی تھی بلکہ اس کیلئے اس فلم سے وابستہ ایک ایک فرد نے کافی محنت کی تھی۔
ہندوستانی سنیما کے تاریخ میں میل کا پتھر قرار دی جانے والی فلم’مغل اعظم‘ یوں ہی تاریخی فلم نہیں بن گئی تھی بلکہ اس کیلئے اس فلم سے وابستہ ایک ایک فرد نے کافی محنت کی تھی۔ فلم ساز نے جہاں دل کھول کر خرچ کیا تھا، وہیں فلم کے ہدایت کار ’کے آصف‘ نے اپنے اوپر دنوں کا چین اور راتوں کی نیند کررکھی تھی۔ وہ ایک ایک سین کیلئے کافی محنت کرتے تھے۔ اس تعلق سے ان کے بہت سارے واقعات کافی مشہور ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ یہ ہے کہ فلم کے ایک سین میں موتی گرنے کی آواز کو وہ ہو بہو شوٹ کرنا چاہتے تھے، اس کیلئے انہیں اصلی موتی درکار تھے۔ پروڈیوسر نے اصلی موتی کی فراہمی سے معذوری ظاہر کی تو انہوں نےناراض ہوکر فلم کی شوٹنگ ہی رکوا دی تھی اور پھر شوٹنگ اُسی وقت شروع ہوسکی جب انہیں ان کے مطلوبہ اصلی موتی فراہم کئے گئے۔
کے آصف کے صدسالہ یوم پیدائش کی مناسبت سے کچھ دنون قبل اُن کے آبائی وطن اٹاوہ میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں مقررین نے گزرے ہوئے زمانے کے اس مشہور ہدایت کار کے کام کے تئیں جنون کو یاد کیا۔ اس موقع پر راجیہ سبھا ٹی وی کے سابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور فلمساز راجیش بادل نے مغل اعظم کی شوٹنگ سے وابستہ ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب فلم مغل اعظم بن رہی تھی تو ہدایت کار کے آصف نے فلم کے پروڈیوسر شاپور جی پالون جی سے کہا کہ انہیں شوٹنگ کیلئےاصلی موتی چاہئےکیونکہ وہ اس آواز کو سننا چاہتے ہیں جو حقیقی موتیوں کے گرنے سے پیدا ہوتی ہے اور اس پر اداکار کا حقیقی رد عمل دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہدایت کا ر کا یہ مطالبہ بجا تھا لیکن زیادہ خرچ کی وجہ سے شاپور جی اس کیلئے تیار نہیں ہوئے اور پھر بات یہاں تک بڑھ گئی کہ دونوں میں بات چیت تک بند ہوگئی۔ اسی درمیان عید کا تیوہار آیا اور شاپور جی ایک بڑی سی تھالی میں سونے اور چاندی کے سکے لے کر کے آصف کے پاس گئے۔ اس پر کے آصف نے کہا کہ اصلی موتی لاؤ مجھے یہ نہیں چاہئے۔ راجیش بادل نے کہا کہ اس کے بعد فلمساز نے انہیں حقیقی موتی فراہم کئے گئے، اس کے بعد ہی مغل اعظم کی شوٹنگ دوبارہ شروع ہوپائی۔
ادیب ڈاکٹر کش چترویدی نے کہا کہ اٹاوہ میں پیدا ہونے والے قمر الدین آصف کا بچپن غریبی میں گذرا لیکن وہ دھن کے پکے تھے۔ پوری عمر بے حد سادگی سے رہنے والے کے آصف نے مغل اعظم کے طور پر اس وقت کی سب سے مہنگی اور کامیابی فلم بنائی۔ کے آصف کے نزدیکی کنبے میں سے ایک فضل یوسف خان نے مرحوم ہدایت کار کے مکان کو کے آصف اسمارک بنانے کی تجویز پیش کی جس پر وہاں موجود سبھی افراد نے رضامندی کا اظہار کیا۔
ا س تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر موجود راجیش بادل نے کے آصف کے نام پر فلم انڈسٹری بنائے جانے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ سینٹرل ہندوستان میں ایک اچھے فلم انسٹی ٹیوٹ کی بیحد ضرورت ہے کیوں نہ اس کیلئے آواز بلند کی جائے تاکہ مرکز و ریاست کی حکومتیں اس کیلئے کام کریں اور اسے کے آصف سے منسوب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اٹاوہ فلم کا ایسا مرکز بنے جہاں سے کئی کے آصف پیدا ہوں۔ اس موقع پرمعروف فلم نقاد مرتضیٰ علی خان نے کہا کہ کے آصف نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کے آصف کے۱۰۰؍ویں یوم پیدائش پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا جانا چاہئے۔ سینئر صحافی ڈاکٹر راکیش پاٹھک نے کہا کہ کے آصف نے اپنی فلم کے ذریعہ ہندو۔ مسلم یکتا او رمحبت کا پیغام دنیا کو دیا ہے۔ ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو یکجا کر کے ایک مکمل کتاب اور دستاویزی فلم بنائی جانی چاہئے۔