۲۰۱۴ء میں ریلیز ہونے والی کرسٹوفر نولن کی سائنس فکشن فلم ’’انٹرسٹیلر‘‘ نے ری ریلیز میں تاریخ رقم کردی ہے۔ اس کی مانگ کو دیکھتے ہوئے ۲۵؍ ڈالر کے ٹکٹ ۲۰۰؍ ڈالر میں فروخت ہورہے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 13, 2024, 9:59 PM IST | Los Angeles
۲۰۱۴ء میں ریلیز ہونے والی کرسٹوفر نولن کی سائنس فکشن فلم ’’انٹرسٹیلر‘‘ نے ری ریلیز میں تاریخ رقم کردی ہے۔ اس کی مانگ کو دیکھتے ہوئے ۲۵؍ ڈالر کے ٹکٹ ۲۰۰؍ ڈالر میں فروخت ہورہے ہیں۔
کرسٹوفر نولن کی ’’انٹرسٹیلر‘‘ کی ری ریلیز ’’موآنا ۲‘‘، ’’وکڈ‘‘ اور ’’گلیڈی ایٹر ۲‘‘ جیسی نئی فلموں کو بھی زبردست ٹکر دے رہی ہے۔ یہ فلم ۱۰؍ سال قبل ۲۰۱۴ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے باوجود اسے ری ریلیز پر زبردست مانگ حاصل ہوئی ہے۔ یہ فلم ۱۳؍ دسمبر کو آئی فارمیٹ میں ری ریلیز ہوئی جس کی وجہ سے ٹکٹ کی قیمتیں ۹۰۰؍ فیصد کے منافع کے مارجن کے ساتھ فروخت ہوئیں، جس سے شائقین کو ٹکٹ خریدنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ورائٹی کے مطابق، ’’انٹرسٹیلر‘‘ کا ایک ٹکٹ زیادہ سے زیادہ ۲۰۰؍ ڈالر (تقریباً ۱۷؍ ہزار روپے) میں فروخت ہوا۔ عام طور پر اس کی قیمت ۲۵؍ ڈالر ہے مگر مانگ کے سبب ٹکٹوں کی قیمت بڑھتے ہوئے ۲۰۰؍ ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہ فلم امریکہ کے ۱۶۶؍ اسکرینوں پر ری ریلیز ہوئی اور اس کی مانگ کو دیکھتے ہوئے سنیما گھروں کو نئی فلموں کے شوز کی تعداد کم کرکے ’’انٹرسٹیلر‘‘ کی بڑھانی پڑی۔
NEW 70MM and digital #Interstellar tickets on sale NOW in limited locations. Grab your tickets before it’s too late. https://t.co/9HWAetktdx pic.twitter.com/T4h4HmvMLK
— Interstellar (@Interstellar) December 9, 2024
کولائیڈر کے مطابق، فلم نے اپنے پہلے ویک اینڈ میں ۵ء۴؍ ملین ڈالر سے زیادہ کی کمائی کی اور اس کے بعد سے پیر اور منگل کو ایک ایک ملین ڈالر کمائے۔ دونوں دنوں میں، تھیٹروں نے اس فلم سے ۶؍ ہزار ڈالر کا کاروبار کیا۔ خیال رہے کہ ’’انٹرسٹیلر‘‘ ۱۹۵؍ ملین ڈالر کا سنگ میل عبور کرنے کے قریب ہے۔ ۲۰۱۴ء میں فلم نے گھریلو سطح پر ۱۸۸؍ ملین ڈالر کا کاروبار کیا تھا۔ فلم کی ری ریلیز پر زبردست ردعمل پر بات چیت کرتے ہوئے ہدایتکار اور فلمساز کرسٹوفر نولن نے دی اسوسی ایٹڈ پریس سے کہا کہ ’’یہ واقعی سنسنی خیز ہوتا ہے جب لوگ کسی بھی موقع پر آپ کے کام کا جواب دیتے ہیں۔ لیکن ۱۰؍ سال بعد، نئے ناظرین کے آنے اور آئی میکس پر اسے دیکھنے کیلئے بےتابی ظاہر کرنے کیلئے میں شکر گزار ہوں۔ یہ ثابت کرتا ہے فلمساز کا کام زندہ ہے۔ ‘‘