اُن کےدادا انہیں آئی اے ایس افسر بنانا چاہتے تھے مگر قسمت میں تو موسیقی کی دنیا میں نام پیدا کرنا لکھا تھا۔ اس کی پیش گوئی فیض احمد فیض نے ۱۹۷۸ء میں انہیں پہلی بار سن کر ہی کردی تھی۔
EPAPER
Updated: January 12, 2025, 2:22 PM IST | Anis Amrohvi | Mumbai
اُن کےدادا انہیں آئی اے ایس افسر بنانا چاہتے تھے مگر قسمت میں تو موسیقی کی دنیا میں نام پیدا کرنا لکھا تھا۔ اس کی پیش گوئی فیض احمد فیض نے ۱۹۷۸ء میں انہیں پہلی بار سن کر ہی کردی تھی۔
ہندوستانی موسیقی کا جادو پوری دنیا پر برسوں سے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرمنقسم ہندوستان میں بھی یہاں کی موسیقی کو غیرممالک میں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ بادشاہوں کے زمانے میں بھی موسیقی کے مقابلے اور پروگرام ہوا کرتے تھے اور چھوٹے موٹے راجے رجواڑے اور نوابین بھی موسیقی، رقص اور شاعری کے دلدادہ ہوا کرتے تھے۔ شہنشاہ اکبر اعظم نے تو اپنے نورتنوں میں ایک رتن کے طور پر فن موسیقی کے استاد تان سین کا انتخاب کیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ ہماری ہندوستانی فلموں کی کامیابی کی ایک بڑی گارنٹی فلم کی موسیقی اور اس کے نغمے ہوا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں جب نوشاد علی کی موسیقی سے سجی فلم ’’رتن‘‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی تو اس کے نغموں کی مقبولیت کی وجہ سے فلم کی آمدنی بوریوں میں بھرکر فلمساز کے پاس جایا کرتی تھی۔ ہندوستانی موسیقی کو عالمی مقبولیت حاصل کرنے میں اس کا سب سے بڑا ساتھ دیا قوالی اور غزل گائیکی نے اور غزل گائیکی میں جو چند نام گزشتہ چند دہائیوں میں سب سے زیادہ مقبول رہے ان میں بیگم اختر، استاد مہدی حسن اور غلام علی کے بعد جگجیت سنگھ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
سنگھ ۸؍فروری ۱۹۴۱ء کو صوبہ راجستھان کے سری گنگانگر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شری امر سنگھ دھیمن سرکاری ملازم تھے جو پڑوس کے صوبہ پنجاب کے دلہ گائوں کے رہنے والے تھے۔ جگجیت سنگھ کی والدہ بچن کور کا تعلق اوٹالن گائوں سے تھا۔ ان کے دو بھائی اور چار بہنیں تھیں اور یہ سب سکھ مذہب کو مانتے تھے۔
جگجیت سنگھ نے ابتدائی تعلیم سری گنگانگر کے خالصہ ہائی اسکول میں حاصل کی اور گورنمنٹ کالج، سری گنگانگر سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد جالندھر کے ڈی اے وی کالج سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے تاریخ کے مضمون سے ہریانہ کی کروکشیتر یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کیا۔ ان کے دادا ان کو آئی اے ایس افسر بنانا چاہتے تھے۔ مگر خدا نے ان کو موسیقی کی دنیا میں نام پیدا کرنے کیلئےچن لیا تھا اور اس کے لیے ان کو بہترین سریلی آواز عطا کی تھی۔ جگجیت سنگھ نے بچپن میں ہی پنڈت چھگن لعل شرما سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی تھی، جو گنگانگر میں بخشی ٹائپ کالج کے پہلے منزلے پر موسیقی کا ایک اسکول چلاتے تھے۔ وہاں دو برس تک انہوں نے خیال، ٹھمری اور دھروپد جیسے ہندوستانی موسیقی کے ابتدائی سبق سیکھے اور ریاض کیا۔ بعد میں سائینا گھرانے کے استاد جمال خان صاحب سے مزید تعلیم حاصل کی، جو استاد مہدی حسن خاں کے دُور کے رشتہ دار تھے اور ٹھاکر دت شرما کی پان کی دُکان پر تعلیم دیا کرتے تھے۔
۱۹۷۸ء میں کناڈا میں مقیم ایک پروگرام آرگنائزر اشوک سنگھ نے ایک سرکاری پروگرام کیلئے فیض احمد فیض کی شاعری کو ان کی موجودگی میں ہی پڑھنے کیلئے پاکستان سے مقبول غزل گلوکارہ منی بیگم کو دہلی مدعو کیا تھا۔ یہ پروگرام حالانکہ سرکاری تھا مگر وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری ڈاکٹر اندو پرکاش سنگھ کے مکان واقع ذاکر حسین روڈ کے لان میں چل رہا تھا۔ فیض احمد فیضؔ نے اپنی کئی غزلیں سنائیں اور پھر منی بیگم نے فیضؔ کی کئی غزلیں ان کی موجودگی میں گائیں۔ درمیان میں انہوں نے ایک وقفہ لینا چاہا تو اشوک سنگھ نے بمبئی سے آئے اپنے ایک دوست جگجیت سنگھ کو فیضؔ کی غزل پڑھنے کیلئے مائک پر مدعو کر لیا۔ سامعین کیلئے یہ نیا نام تھا مگر جب جگجیت سنگھ نے غزل پڑھی تو ماحول بدل چکا تھا۔ اس خوبصورت نوجوان سے غزل سن کر لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ فرمائشیں ہونے لگیں خود منی بیگم نے کہا کہ جگجیت سنگھ کی آواز میں فیضؔ صاحب کو سننا اچھا لگا۔ پروگرام کے آخر میں فیضؔ صاحب نے خود جگجیت سنگھ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ نوجوان غزل گائیکی میں بہت بلندیوں تک جائے گا۔ فیض صاحب کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔
جگجیت سنگھ ۱۹۶۵ء میں ممبئی پہنچے اور اپنی سچی لگن، محنت، ریاض اور پُرخلوص رویے سے کامیابی کی طرف گامزن ہو گئے۔ ۱۹۶۷ء میں انہوں نے چترا کے ساتھ گائیکی کی جوڑی بنائی اور جگجیت سنگھ چتراسنگھ کے نام سے گاتے رہے۔ ۲؍ سال کے اس تعلق کو انہوں نے دسمبر ۱۹۶۹ء میں شادی میں تبدیل کر لیا اور یہ ہندوستان کی پہلی کامیاب میاں بیوی والی مقبول ترین غزل گائیکی جوڑی بن گئی۔ ۲۸؍جولائی ۱۹۹۰ء کو جگجیت سنگھ کے اکلوتے بیٹے وویک کا ایک سڑک حادثے میں انتقال ہو گیا۔ جوان بیٹے کی موت کے بعد چترا سنگھ نے عوامی پروگراموں میں حصہ لینا چھوڑ دیا مگر جگجیت سنگھ برابر پروگرام کرتے رہے۔
غزل گائیکی کے ساتھ ساتھ جگجیت سنگھ نے فلموں میں پلے بیک سنگنگ کیلئے بھی جدوجہد شروع کر دی اور ۱۹۶۶ء میں پہلی بار فلم ’’زخم جو آپ کی عنایت ہے‘‘ کیلئے ایک گیت گایا۔ اس کے بعد فلم ’’بہروپی‘‘ کیلئے بھی گلوکاری کی اور ۱۹۷۳ء میں فلم ’’اوشکار‘‘ کیلئے ’’بابل مورا نیہر چھوٹو ہی جائے‘‘ گایا۔ ۱۹۷۹ء میں انہوں نے کفیل آذرؔ امروہوی کی ایک نظم ’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘ ریکارڈ کرائی جو بعد میں فلم ’’گرہ پرویش‘‘ میں شامل ہوئی۔ اس نظم سے جگجیت سنگھ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور ۱۹۸۰ء میں فلم ’’ایک بار کہو‘‘کیلئے ’’کوئی گیسو، کوئی آنچل ہمیں آواز نہ دو‘‘ گایا مگر ان کو سب سے بڑی کامیابی ملی ۱۹۸۱ء میں فلم ’’پریم گیت‘‘ کے نغمہ ’’ہونٹوں سے چھو لو تم، میرا گیت امر کر دو…‘‘ سے۔ اس فلم کی بیک گرائونڈ موسیقی بھی جگجیت سنگھ نے ہی ترتیب دی تھی۔ ٹی وی سیریل ’’مرزا غالبؔ‘‘ نشر ہوا تو ایک بار پھر جگجیت سنگھ کے نام کی دھوم مچ گئی۔ اس سیریل کیلئے مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کی ساری غزلیں جگجیت سنگھ کی آواز میں ریکارڈ کی گئیں اور مقبول ہوئیں۔ ۱۹۹۱ء میں علی سردار جعفری کے سیریل ’’کہکشاں ‘‘کیلئے بھی انہوں نے موسیقی دی اور گلوکاری کی۔
جگجیت سنگھ نے اردو، ہندی، پنجابی، گجراتی، سندھی اور نیپالی زبانوں میں بہت سے نغمے گائے، مگر ان کی شناخت اُردو غزل گائیکی سے رہی۔ ان کے فلمی اور غیرفلمی البم کی تعداد ۷۰؍سے زائد ہے۔ ان کی گائی ہوئی غزلوں میں ’’سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ…، کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا…، یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو…، ‘‘ وغیرہ بہت مقبول ہوئیں۔ انہوں نے مرزا غالبؔ کے علاوہ فراقؔ گورکھپوری، قتیلؔ شفائی، فیض احمد فیضؔ، امیرؔ مینائی، کفیل آذرؔ امروہوی، شاہد کبیر، سدرشن فاکرؔ، ندا فاضلی، ذکا صدیقی، نذیر باقری، فیض رتلامی، اور راجیش ریڈی جیسے شاعروں کی غزلیں بڑے خوبصورت اور دلکش انداز میں گائی ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں جگجیت سنگھ کو حکومت ہند کی جانب سے پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ۲۳؍ ستمبر ۲۰۱۱ء کو جگجیت سنگھ کو برین ہیمرج کی وجہ سے باندرہ کے لیلاوتی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں آپریشن کے باوجود وہ جانبر نہ ہوسکے ۱۰؍اکتوبر بروز پیر ۷۰؍برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔