بالی ووڈمیں کچھ اداکار ایسےہیں جو اپنے مختصر مگر یادگار کرداروں کی وجہ سے ناظرین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتےہیں۔ جلال آغا بھی ان ہی فنکاروں میں سےایک تھے، جو اپنی منفرد اداکاری، بے ساختہ تاثرات، اور زبردست مکالمہ ادا کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے مشہور ہوئے۔
بااثر اداکاری کے ماہر جلال آغا۔ تصویر: آئی این این
بالی ووڈمیں کچھ اداکار ایسےہیں جو اپنے مختصر مگر یادگار کرداروں کی وجہ سے ناظرین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتےہیں۔ جلال آغا بھی ان ہی فنکاروں میں سےایک تھے، جو اپنی منفرد اداکاری، بے ساختہ تاثرات، اور زبردست مکالمہ ادا کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ جلال آغا۱۱؍جولائی ۱۹۴۵ءکودہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنےکےبعد نیشنل اسکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی)میں داخلہ لیا، جہاں سے انہوں نے تھیٹر اور اداکاری کی تربیت حاصل کی۔ ان کا جھکاؤ شروع سے ہی اداکاری کی طرف تھا، اور انہوں نے تھیٹرمیں کئی نمایاں پرفارمنس دی، جس نے ان کی فلمی دنیا میں انٹری کا راستہ ہموار کیا۔
جلال آغانےاپنےفلمی سفر کاآغاز ۱۹۶۰ءکی دہائی میں کیا۔ وہ زیادہ ترمعاون کرداروں میں نظر آتے تھے، لیکن ان کے کردار ہمیشہ یادگارہوتےتھے۔ وہ بالی ووڈ کے چند ایسے فنکاروں میں سے تھے جو اپنی قدرتی اداکاری اور مکالمہ کیمتاثر کن ادائیگی کی وجہ سے فلم میں جان ڈال دیتے تھے۔ ان کی چندمشہور فلموں میں شعلے(۱۹۷۵ء) جیسی فلمیں شامل ہیں ۔ اس بلاک بسٹر فلم میں جلال آغانےایک مختصر مگر یادگار کردار ادا کیا۔ ان پر فلمایا گیا گیت آج بھی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ فلم قرض (۱۹۸۰ء)میں جلال آغا کے کردار کو بہت پسند کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے جن فلموں میں کام کیا ان میں ’دی برننگ ٹرین‘(۱۹۸۰ء)، ’مقدر کا سکندر‘ (۱۹۷۸ء) ’سلیم لنگڑے پہ مت رو (۱۹۸۹ء) گاندھی (۱۹۸۲ء)، معصوم (۱۹۸۳ء)، دل والے دلہنیا لےجائیں گے (۱۹۹۵ء) جیس مشہور فلمیں شامل ہیں۔
جلال آغا کی اداکاری کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر کردار کو حقیقت کےقریب لے آتے تھے۔ ان کے کرداروں میں ایک قدرتی پن ہوتا تھا، جو انہیں دوسرے معاون اداکاروں سے ممتاز کرتا تھا۔ وہ سنجیدہ، مزاحیہ، اور منفی ہر طرح کے کرداروں کوبخوبی نبھایا کرتےتھے۔ ان کی اداکاری میں جو سچائی اور خلوص تھا، وہ ناظرین کے دلوں پر نقش ہو جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ فلم میں ان کا چھوٹا سا کردار بھی ایک خاص تاثر چھوڑ جاتا تھا۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ جلال آغا ایک بہترین ہدایت کار بھی تھے۔ انہوں نےمیوزک ویڈیوز اور اشتہارات کی ہدایت کاری بھی کی، اوران کے کچھ میوزک ویڈیوز ۹۰ءکی دہائی میں کافی مقبول ہوئے۔ انہوں نےمیوزک ویڈیو ’گوری تیرے گاؤں میں ‘ (مسرت نذیرکے گانے پر) کو ڈائریکٹ کیا، جو اس وقت کافی ہٹ ہوا تھا۔
جلال آغا کی زندگی کافی سادہ اورپروقار رہی۔ وہ زیادہ تر فلمی دنیاکی چکاچوند سے دور رہتے تھے، اور اپنی نجی زندگی کو عوامی نظر سے پوشیدہ رکھتے تھے۔ ۵؍مارچ ۱۹۹۵ءکودل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے جلال آغاکا انتقال ہو گیا۔ ان کی اچانک موت فلم انڈسٹری کے لیے ایک بڑا نقصان ثابت ہوئی، کیونکہ وہ ایک نایاب اور باصلاحیت اداکار تھے جو اپنے کام سے پہچانے جاتے تھے۔
جلال آغا کا فلمی سفر مختصر مگر شاندار رہا۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جو کم وقت میں زیادہ اثر چھوڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی اداکاری میں قدرتی پن، حقیقت پسندی اور جذبات کی عکاسی کا ایک خاص امتزاج تھا، جس کی وجہ سے ان کے کردار آج بھی زندہ ہیں۔ بالی ووڈ ان کے جانے سے ایک بہترین معاون اداکار اور ہدایت کار کو کھو دیا، لیکن ان کا نام ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔