۳۲؍سال قبل نارتھ انڈیا کے اسٹائل میں’ڈھائی کلو کا ہاتھ‘ دکھانے والے سنی دیول اب سائوتھ کے اسٹائل میںوہی ہاتھ دکھا رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 12, 2025, 11:21 AM IST | Mumbai
۳۲؍سال قبل نارتھ انڈیا کے اسٹائل میں’ڈھائی کلو کا ہاتھ‘ دکھانے والے سنی دیول اب سائوتھ کے اسٹائل میںوہی ہاتھ دکھا رہے ہیں۔
’جب یہ ڈھائی کلو کا ہاتھ اٹھتا ہے تو آدمی اٹھتا نہیں،اٹھ جاتا ہے‘۔۳۲؍سال قبل فلم’دامنی‘ میںسنی دیول نے اپنے ڈھائی کلو کے ہاتھ کی طاقت دکھا کر شمالی ہند کے ناظرین کا دل جیت لیا تھا۔ اب، ۶۷؍سال کی عمر میں، بالی ووڈکےایکشن اسٹار’جاٹ‘کے طور پر اپنی طاقت دکھانے کیلئےجنوب میں داخل ہوئے ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ بڑھاپےکےاثرات چہرےاورجلدپر نظر آنے کے باوجود اپنے سویگ،اسٹائل اورایکشن سےوہ آج بھی یقین دلاتے ہیںکہ ان کا ڈھائی کلو کا ہاتھ درجنوں غنڈوں کو اکیلاپیٹ سکتا ہے۔وہ چلتی جیپ کو روک سکتا ہے اور بھاری پنکھا اٹھا کر ہوا میں اڑا سکتا ہے۔فلم ’جاٹ‘بنیادی طورپر ۸۰ءکی دہائی کے’اینگری ینگ مین‘ سنی دیول کی جنوبی ہندوستانی انداز میں واپسی ہے، خاص طور پر ان لوگوںکو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی ہےجو ان مسالہ فلموں کے شوقین ہیں جن میں اپنے دماغ کا استعمال کرنا یا منطق تلاش کرنا بے وقوفی ہوگی۔
فلم کی کہانی
فلم کا آغاز جنگلوں میں ایک سنسنی خیز ایکشن سین سے ہوتا ہے، جہاں راناتنگا(رندیپ ہڈا)، اس کا بھائی سومولو (ونیت کمار سنگھ) اور چند دیگر ساتھی درختوں سےلٹکتے اور فوجیوں کا سر قلم کرتے ہوئے نظر آتےہیں۔ویسے، آپ کو پوری فلم میں اتنے کٹے ہوئے سر نظر آئیں گےکہ اس سے آپ کا سرچکرا سکتا ہے۔ راناتنگا پولیس اہلکار کو رشوت دےکر اپنے خاندان کے ساتھ سری لنکا سے ہندوستان میں داخل ہوا اور آندھرا پردیش میںدوردراز کے۳۰؍ دیہاتوں کو اس نےاپنی لنکا بنا لیا ہے۔ وہ اپنی بربریت اور خونریزی کے ذریعے گاؤں والوں کی زمینیںزبردستی چھین رہاہے۔ پھر، برگیڈیئر بلدیو پرتاپ سنگھ (سنی دیول)، جو ایک کسان سے سپاہی بنے، داخل ہوتےہیں۔ہاتھ سے اڈلی گرانے والےایک چھوٹےٹھگ سےمعافی مانگتے مانگتےمقامی سطح کے بدعنوان سیاست داں کے ذریعہ سےسومولواور پھر رانا تنگا تک پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پہنچنے کے بعد رانا تنگا کی سلطنت کو تاش کے پتوں کی طرح بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔
ہدایت کاری
پہلی بارہندی فلم بنانےوالے فلم کے رائٹر اور ڈائریکٹرگوپی چند مالینینی کامقصد پہلے سین سے ہی واضح ہوجاتاہےکہ وہ صرف ایک مسالہ ایکشن تفریحی فلم بناناچاہتے ہیںجوسامعین کو سیٹی بجانے، فکر مندہونےاور بعض اوقات جذباتی ہونے پر مجبور کردے۔اس لیے انہوں نےایکشن کی بھرپور خوراک کے ساتھ کسانوں اور بیٹیوں کی حالت زار کو بھی پیش کیاہے۔ اس فلم کا پلاٹ آپ کو شاہ رخ خان اور ایٹلی کی فلم ’جوان‘کی بھی یاد دلائے گا۔ گاؤں میں مظالم ڈھانے والےخوفناک ویلن سے گاؤں کو چھڑانے کے لیے آنے والے ایک مسیحاکی کہانی آپ کو۸۰ء کی دہائی کے دور میں لے جائے گی۔
کہانی میں بہت سی باتیں بے بنیادہیں۔مثال کے طور پر، صدر، ایک چھوٹی بچی کے خط سے متاثر ہوتے ہیں، فوراً ایک سی بی آئی افسر کو بلاتے ہیں اور کیس اس کے حوالے کر دیتے ہیں (جو فلم کے آخر تک جائےوقوعہ تک نہیں پہنچتا)، لیکن قانون کی پرواہ کسے ہے؟ جب فلم میں ایکشن، جذبات، کامیڈی اوراروشی روتیلا کے آئٹم نمبر جیسے تمام مسالے شامل کیے گئے ہیں۔
اداکاری
گوپی چند نے اپنے اداکاروں کی خوبیوں کو بھی خوب استعمال کیاہے۔ اس ایکشن اوتار میں سنی دیول بہت اچھے لگ رہے ہیں، جب کہ رندیپ ہڈا نےہیرو کو راون کے اپنے ولن کے کردار سے چمکنے کاموقع فراہم کیا ہے۔ راناتنگا کی بیوی کا کردار ادا کرنے والی ریجینا کیسینڈرا نے بھی لیڈی پولیس آفیسرکےکپڑے اتارنے کے سطحی منظرکےباوجود شاندار کام کیا ہے۔سنیامی کھیر بھی اپنے کردار میں پرفیکٹ ہیں۔ ونیت کمار سنگھ کو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔مجموعی طور پر، اگر آپ ۸۰ءکی دہائی کے سنی دیول کویاد کر رہے ہیں، تو یہ فلم آپ کے لیے ہے۔
نتیجہ
اگر آپ سنی دیول کے اسٹائل اورخطرناک ایکشن دیکھنا پسند کرتے ہیں تو اس فلم کو دیکھ سکتے ہیں۔