اگر اجیت پوار نے بی جے پی سے مل کر مہاگٹھ بندھن کے منصوبوں پر پانی پھیرنے کی کوشش نہ کی ہوتی تو اب تک شیو سینا کی قیادت میں تین پارٹیوں کی حکومت بن چکی ہوتی جس میں بہت ممکن تھا کہ نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اجیت پوار ہی کو موقع ملتا
EPAPER
Updated: December 11, 2019, 11:28 PM IST
|
Editorial
اگر اجیت پوار نے بی جے پی سے مل کر مہاگٹھ بندھن کے منصوبوں پر پانی پھیرنے کی کوشش نہ کی ہوتی تو اب تک شیو سینا کی قیادت میں تین پارٹیوں کی حکومت بن چکی ہوتی جس میں بہت ممکن تھا کہ نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اجیت پوار ہی کو موقع ملتا کس کے دل میں کیا ہے، یہ جاننا ہر دور میں مشکل رہا ہے مگر موجودہ دور میں زیادہ کٹھن ہوگیا ہے۔ سیاست میں تو ایسے ایسے دھوکے ہوئے اور اب بھی ہوتے ہیں کہ اس شعبے کے وہ لوگ خوش نصیب قرار پاتے ہیں جو ایک دوسرے پر بھروسہ کرلیتے ہیں، ورنہ بھروسہ وہ لفظ ہے جو دیگر شعبوں کے مقابلے میں سیاست میں زیادہ رُسوا ہوا ہے۔ این سی پی کے سربراہ شرد پوار کے بھیتجے اجیت پوار نے شیو سینا، این سی پی اور کانگریس کے مہا وکاس گٹھ بندھن کی کئی اہم میٹنگوں میں شرکت کے باوجود اپنی راہ الگ کرلی اور اب ، زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اُنہیں منہ کی کھانی پڑے۔ کل ممبئی کے ہوٹل گرانڈ حیات میں تینوں پارٹیوں کے اراکین اسمبلی کی حاضری اور مہاوکاس گٹھ بندھن کا یہ عزم، کہ وہ سب مل کر ۱۶۲؍ کی ناقابل تسخیر طاقت ہیں، یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ پوار بمقابلہ پوار میں، سینئر پوار جونیئر پوار پر حاوی ہیں۔
اگر اجیت پوار نے بی جے پی سے مل کر مہاگٹھ بندھن کے منصوبوں پر پانی پھیرنے کی کوشش نہ کی ہوتی تو اب تک شیو سینا کی قیادت میں تین پارٹیوں کی حکومت بن چکی ہوتی جس میں بہت ممکن تھا کہ نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اجیت پوار ہی کو موقع ملتا۔ یہ وہی عہدہ ہے جوبی جے پی کی جانب سے اُنہیں ملا ہے مگر این سی پی کےاکا دکا اراکین اسمبلی کو چھوڑ کر باقی تمام کا شرد پوار کے ساتھ ہونا اور مہاگٹھ بندھن کی حکومت بننے کے امکانات کا روشن تر ہونا یہ سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ اجیت پوار جس اتحاد کے ذریعہ نائب وزیر اعلیٰ بنے وہ اتحاد حکومت نہیں بچا پائیگا اور جس اتحاد کو انہوں نے دھوکہ دیا وہ حکومت بنائیگا مگر اُس میں اب اُن کیلئے جگہ نہیں ہوگی۔ اس طرح، وہ (اجیت پوار) بڑے سیاسی نقصان سے دوچار ہونے کے قریب ہیں جو پہلے سے محسوس کررہے تھے کہ سیاسی طور پر حاشئے پر آ گئے ہیں۔ اُن کے پینترا بدلنے سے این سی پی کے کارکنان میں موجود غم و غصہ اُن کی راہ کو مزید مسدود کررہا ہے۔ اب اگر وہ این سی پی میں رہے بھی تو اُس مقام و مرتبہ کے حقدار نہیں رہیں گے جو گزشتہ ہفتے سے پہلے حاصل تھا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ شرد پوار جیسا تجربہ کار اور حالات کو بہتر طور پر بھانپنے والا سیاستداں بھی اپنے بھتیجے کے بدلتے تیوروں کو نہیں سمجھ سکا۔ بتایا جاتا ہے کہ اجیت پوار نے ۱۷؍ نومبر کو شرد پوار کی رہائش گاہ واقع پونے میں منعقدہ ایک اہم میٹنگ میں مشورہ دیا تھا کہ شیو سینا اور کانگریس کو خیرباد کہہ کر پارٹی بی جے پی سے اتحاد کرے۔ شرد پوار نے اس مشورے کو مسترد کردیا تھا مگر یہی وہ وقت تھا جب جونیئر پوار کے بدلتے سُروں کا نوٹس لیا جانا چاہئے تھا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس کے بعد ایک اور میٹنگ میں، جو دو گھنٹے تک جاری رہی تھی، اجیت پوار ۵۵؍ منٹ بعد میٹنگ سے نکل گئے تھے۔ شرد پوار تک یہ خبر بھی نہیں پہنچ پائی کہ اجیت پوار اور فرنویس ۱۰؍ نومبر سے ایک دوسرے کے رابطہ میں تھے اور دونوں لیڈروں میں کبھی کبھی دن میں کئی کئی مرتبہ گفتگو ہورہی تھی۔
اِدھر شیو سینا اور کانگریس کے ساتھ ساتھ این سی پی کے اراکین نے بھی کل ہوٹل گرانڈ حیات میں حاضر رہ کر طاقت کا مظاہرہ کیا جبکہ اُدھر اجیت پوار کو منانے کی کوشش بھی جاری ہے مگر وہ کیونکر آمادہ ہوں گے اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ اور اگر مان گئے تو کیا این سی پی کا کیڈر انہیں قبول کریگا یہ الگ سوال ہے۔
بہرحال، آج کا عدالتی فیصلہ کیا ہوگا یہ بہت اہم ہے جس کے تعلق سے کوئی پیش گوئی یا قیاس آرائی نہیں کی جاسکتی۔ گٹھ بندھن کی جانب سے کیا جانے والا ۱۶۲؍ کا دعویٰ کتنا مستحکم ہے یہ کل کے ’’شکتی پردرشن ‘‘ سے ظاہر ہوا مگر ثابت اُسی وقت ہوگا جب ایوان اسمبلی میں ووٹنگ ہوگی۔ اس سے قبل کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ کرکٹ اور سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔