بالی وڈ کے مشہور نغمہ نگار اور شاعر کیفی آعظمی میں شعر و شاعری کی صلاحیت بچپن ہی سے نظر آنے لگی تھی۔ ان کی ولادت ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۹ءکو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں ہوئی تھی۔
EPAPER
Updated: May 12, 2024, 4:03 PM IST | Agency | Mumbai
بالی وڈ کے مشہور نغمہ نگار اور شاعر کیفی آعظمی میں شعر و شاعری کی صلاحیت بچپن ہی سے نظر آنے لگی تھی۔ ان کی ولادت ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۹ءکو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں ہوئی تھی۔
بالی وڈ کے مشہور نغمہ نگار اور شاعر کیفی آعظمی میں شعر و شاعری کی صلاحیت بچپن ہی سے نظر آنے لگی تھی۔ ان کی ولادت ۱۴؍ جنوری ۱۹۱۹ءکو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں ہوئی تھی۔ ان کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے جو انہیں اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انہوں نے کیفی کا داخلہ لکھنؤ کے مشہور مدرسے ’سلطان المدارس‘ میں کرادیا تھا۔ کیفی نے محض ۱۱؍ برس کی عمر ہی سے شعر کہنا شروع کر دیاتھا۔ اسی دوران وہ مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھےلیکن بیشتر لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے، یہ سوچا کرتے تھے کہ کیفی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔ ایک مرتبہ بیٹے کا امتحان لینے کیلئے ان کے والد نے انہیں ایک مصرعہ طرح دیا اور اس پر غزل کہنے کو کہا۔ کیفی نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا اور پوری غزل لکھ ڈالی۔ ان کی یہ غزل کافی مقبول ہوئی جسے بعد میں مشہور گلوکارہ بیگم اختر نے اپنی آواز دی۔ وہ غزل تھی۔
اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے: ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے
کیفی اعظمی محفلوں میں بہت شوق سے نظمیں پڑھا کرتے تھے اس کیلئے انہیں کئی مرتبہ ڈانٹ بھی کھانی پڑتی تھی۔ ایک بار وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس گئے اوربولے ’’اماں دیکھنا ایک دن میں بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا۔ ‘‘ ایک مرتبہ مدرسے میں اپنی تعلیم کے دوران وہاں کے غیرمنظم حالات دیکھ کر انہوں نے طلبہ یونین بنائی اور طلبہ سے ہڑتال پر جانے کی اپیل کی۔ ان کی یہ ہڑتال تقریباً ڈیڑھ سال تک چلی۔ اس ہڑتال کی وجہ سے کیفی مدرسہ انتظامیہ کیلئے مشکل بن گئے تھےجس کی وجہ سے ہڑتال کے خاتمے کے بعد انہیں مدرسےسے نکال دیا گیا۔ البتہ اس ہڑتال سے انہیں یہ فائدہ ہوا کہ وہ ترقی پسند مصنفین کی نظر میں آگئے۔ ان کی قیادت سے وہ کافی متاثر ہوئے اور انہیں کیفی میں ایک ابھرتا ہوا شاعر بھی دکھائی دیا۔ ان لوگوں نے انہیں حوصلہ دیا اور ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی۔ کچھ ہی دنوں بعد انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کر لی اورپارٹی کارکن کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔
۱۹۴۷ء میں ایک مشاعرے میں شرکت کیلئے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت سے ہوئی اور ان کی یہ ملاقات رشتہ ازدواج میں بدل گئی۔ آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلے گئے لیکن کیفی اعظمی نے ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ شادی کے بعد اخراجات بڑھے تو انہوں نے ایک اردو اخبار کیلئے لکھنا شروع کر دیا جہاں انہیں ۱۵۰؍ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے فلموں کیلئے نغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے شاہد لطیف کی فلم ’بزدل‘کیلئے۲؍ نغمے لکھے جس کے عوض انہیں ایک ہزار روپے ملے۔ اس کے بعد انہوں نے۱۹۵۸ء میں آئی فلم ’کاغذ کے پھول‘ کیلئے ’’وقت نے کیا کیا حسیں ستم، تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم‘‘جیسا سدا بہار نغمہ تحریر کیا۔ اس کے بعد۱۹۶۵ء میں فلم’حقیقت‘ کے نغموں بالخصوص ’’کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘‘ کی کامیابی کے ساتھ وہ ترقی کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ کیفی اعظمی نے فلم’گرم ہوا ‘کی کہانی ڈائیلاگ اور اسکرین پلے لکھے جس کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلم ’ہیررانجھا‘ کے منظوم مکالموں کے ساتھ ہی انہوں نے شیام بینیگل کی فلم ’منتھن‘ کی اسکرپٹ بھی لکھی۔ تقریباً۷۵؍ برس کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجوا ں ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے خوبصورت نغموں سے سامعین کو مسحور کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی۱۰؍ مئی۲۰۰۲ءکو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔