• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

یوم وِلادت (۱۴؍ جنوری) پر خراج عقیدت: کیفیؔ کی شاعری کا آغاز بچپن ہی میں ہوگیا تھا

Updated: January 15, 2025, 12:41 PM IST | Agency | Mumbai

مشہور ترقی پسند شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی میں شعر گوئی کی صلاحیت بچپن ہی سے نظر آنے لگی تھی۔ ۱۴؍جنوری ۱۹۱۹ء کو اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ مجواں گاؤں میں پیدا ہوئے کیفی صاحب کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔

Kaifi Azmi`s songs are popular even today. Photo: INN
کیفی اعظمی کے گیت آج بھی مقبول ہیں۔ تصویر: آئی این این

مشہور ترقی پسند شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی میں شعر گوئی کی صلاحیت بچپن ہی سے نظر آنے لگی تھی۔ ۱۴؍جنوری ۱۹۱۹ءکو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ مجواں گاؤں میں پیدا ہوئے کیفی صاحب کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے جو انہیں اعلی تعلیم دلانا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انہوں نے کیفی کا داخلہ لکھنؤکے مشہور مدرسے ’سلطان المدارس‘ میں کرایا تھا مگر کیفی کا میلان طبع شعرو ادب کی جانب تھا۔ محض ۱۱؍ بر س کی عمر میں انہوں نے شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ جلد ہی وہ مشاعروں میں بھی شریک ہونے لگے۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ تب تک بہت سے لوگ، جن میں ان کے والد بھی شامل تھے، یہ سمجھتے تھے کہ کیفی اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔ ایک مرتبہ بیٹے کا امتحان لینے کیلئے ان کے والدنےانہیں ایک مصرعہ ٔ طرح دیا اور اس پر غزل کہنے کو کہا۔ کیفی نے اسے چیلنج کے طورپرقبول کیا اور غزل کہہ ڈالی۔ ان کی یہ غزل کافی مقبول ہوئی جسے بعد میں مشہور گلوکارہ بیگم اخترنے اپنی آواز دی۔ کیفی محفلوں میں بہت شوق سے نظمیں پڑھا کرتے تھے اس کیلئے انہیں کئی مرتبہ ڈانٹ بھی کھانی پڑتی تھی جس کے بعد وہ روتے ہوئے اپنی ماں کے پاس جاتے اور کہتے ’’اماں دیکھنا ایک دن بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا۔ ‘‘
۱۹۴۲ءمیں کیفی اُردو اور فارسی کی اعلیٰ تعلیم کیلئے لکھنؤ اورالہ آباد بھیجے گئے لیکن انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کرلی اور پارٹی کارکن کے طور پر سرگرم ہوئے، جلد ہی وہ بھارت چھوڑو تحریک سے وابستہ ہو گئے۔ اس دوران مشاعروں میں کیفی کی شرکت جاری رہی۔ ۱۹۴۷ءمیں ایک مشاعرےمیں شرکت کیلئے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت (کیفی) سے ہوئی، یہی ملاقات رشتہ ازدواج میں بدل گئی۔ آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلے گئے لیکن کیفی نے ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ شادی کے بعد اخراجات بڑھنے کے سبب کیفی نے اردو اخبار کیلئے لکھنا شروع کیا جہاں انہیں ۱۵۰؍روپےماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ ان کی پہلی نظم ’سرفراز‘ لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ انہوں نےروزنامہ اخبار کے لئے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری بھی کی۔ یہی وہ دور تھا جب انہوں نے فلموں کیلئے نغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔ کیفی اعظمی نے سب سے پہلے مشہور ہدایتکار شاہد لطیف کی فلم ’بزدل‘کے لئے۲؍نغمےلکھے۔ شاہد لطیف معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کے شوہر تھے۔ ’’بزدل‘‘ کے عوض انہیں ۱۰۰۰؍روپے ملے۔ اس کے بعد انہوں نے ۱۹۵۹ء میں آئی فلم کاغذ کے پھول کیلئے ’وقت نے کیا کیا حسیں ستم، تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم‘جیسا سدا بہار نغمہ تحریر کیا۔ اس کے بعد۱۹۶۵ءمیں فلم ’حقیقت‘ کے نغموں بالخصوص ’’کر چلےہم فدا جان و تن ساتھیو اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘‘ کی کامیابی کے ساتھ وہ شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچے گئے۔ کیفی کی انقلابی شاعری نے اُنہیں غیر معمولی کامیابی سے ہمکنار کیا۔ 
 کیفی اعظمی نے فلم ’گرم ہوا‘کی کہانی ڈائیلاگ اور اسکرین پلے لکھا جس کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ فلم ’ہیررانجھا‘ کے منظوم مکالموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے شیام بینیگل کی فلم ’منتھن‘ کی اسکرپٹ بھی لکھی۔ تقریباً۷۵؍ برس کی عمر کے بعد کیفی نے اپنے گاؤں مجواں ہی میں مستقل سکونت کا فیصلہ کیا۔ اپنے خوبصورت نغموں سے سامعین کو مسحورکرنےوالے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی ۱۰؍مئی ۲۰۰۲ءکو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK