• Tue, 07 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

دو اہم چیلنج

Updated: December 11, 2019, 10:56 PM IST | Editorial

دوسرا چیلنج جو تینوں پارٹیوں کے سامنے ہے وہ اپنے اراکین اسمبلی کو بہلاوے اور بہکاوے سے بچائے رکھنا ہے۔ جس بی جے پی کے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے گزشتہ منگل کو استعفےٰ دے دیا، وہ خاموش بیٹھی رہے گی، ایسا نہیں ہوسکتا۔ جس پارٹی کے لیڈران نے گوا جیسی مختصر ریاست کی حکومت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا

(مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے (تصویر: نئی دنیا
(مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے (تصویر: نئی دنیا

یہ پہلا موقع ہے جب شیو سینا کی سربراہی میں بننے والی حکومت میں اس کی دیرینہ حلیف بی جے پی نہیں ہے بلکہ وہ پارٹیاں ہیں جن سے شیو سینا کی دوری جتنی پرانی ہے اُتنی ہی زیادہ بھی ہے۔ کبھی کسی نے سوچا نہیں ہوگا کہ بالا صاحب ٹھاکرے کی پارٹی کو کانگریس اور این سی پی سے یا کانگریس اور این سی پی کو شیو سینا سے ہاتھ ملانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہ صورتحال نہ پیدا ہوتی اگر شیو سینا کو اپنی حلیف بی جے پی سے خطرہ نہ محسوس ہوتا۔ اسی خطرے کو زائل کرنے کی کوشش کے تحت شیو سینا نے پچھلے پانچ سال کے دوران بی جے پی کو ہمہ وقت اپنے نشانے پر رکھا تھا اور اب جبکہ اس کے پاس کم سیٹیں تھیں اور وہ تن تنہا حکومت نہیں بناسکتی تھی، اس نے علاحدگی کا بگل بجا دیا۔ بہرکیف، مہاراشٹر کا انتخابی نتیجہ ظاہر ہونے کے بعد سے کل شام تک جب شیو سینا کے سربراہ اُدھو ٹھاکرے نے دیگر وزراء کے ساتھ حلف لیا، ایسے کئی واقعات ہوئے جو چونکانے والے تھے اور جو آئندہ کافی عرصے تک یاد رکھے جائینگے۔
 اُدھو ٹھاکرے اور اُن کی پارٹی شیو سینا کیلئے حکومت بنانے کا چیلنج جتنا بڑا تھا اُتنا ہی اب ہے۔ وہ یہ کہ این سی پی اور کانگریس کے ساتھ نباہ کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ حکومت عوام کی فلاح کے کاموں کو اولیت دے اور کامیابی کے ساتھ پورے پانچ سال قائم رہے۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل پر مسرت کا اظہار کرنے والوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال ہے کہ یہ پارٹیاں جن میں کل تک شدید نظریاتی اختلاف رہا اور جنہوں نے گزشتہ کئی انتخابات ایک دوسرے کے خلاف لڑے، پائیدار حکومت فراہم کرپائینگی یا نہیں۔ چونکہ حکومت کی قیادت شیو سینا کے ہاتھوں میں ہے اس لئے نئے وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے ہی سے زیادہ اُمید وابستہ کی جائیگی کہ وہ نئی حلیف پارٹیوں کے ساتھ افہام و تفہیم کا معاملہ رکھیں اور اُنہیں اعتماد میں لے کر ہی آگے بڑھتے رہیں۔ شیوسینا سے، زیادہ اُمید ضرور ہے مگر این سی پی اور کانگریس سے کچھ کم اُمید نہیں وابستہ کی جاسکتی۔ اِن دو پارٹیوں کو بھی نئے وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے اور اُن کی پارٹی کے وزراء نیز اراکین اسمبلی کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنا ہوگا تاکہ نہ تو سیاسی چپقلش اور رسہ کشی ہو نہ ہی عوامی کاموں سے تغافل۔ یہ ہوا ایک چیلنج۔
  دوسرا چیلنج جو تینوں پارٹیوں کے سامنے ہے وہ اپنے اراکین اسمبلی کو بہلاوے اور بہکاوے سے بچائے رکھنا ہے۔ جس بی جے پی کے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے گزشتہ منگل کو استعفےٰ دے دیا، وہ خاموش بیٹھی رہے گی، ایسا نہیں ہوسکتا۔ جس پارٹی کے لیڈران نے گوا جیسی مختصر ریاست کی حکومت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا وہ مہاراشٹر جیسی اہم ریاست کے ہاتھ سے نکل جانے پر کچھ نہ کہیں گے یا کچھ نہ کریں گے یہ سمجھنا انتہائی درجے کی سادہ لوحی ہوگی۔ اُنہوں نے تو اکثریت کی بھی فکر نہ کی اور گزشتہ سنیچر کو اہل مہاراشٹر کو اچانک یہ اطلاع ملی کہ فرنویس اور اجیت پوار نے حلف لے لیا۔ ہوسکتا ہے آج ہی سے بی جے پی کی ریشہ دوانیاں شروع ہوجائیں۔ ان سے متنبہ رہنا بھی اُتنا ہی لازمی ہے جتنا اپنے اقتدار کو عوام کے حق میں زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانا اور ریاست کی حقیقی ترقی کو مرکزیت عطا کرنا ہے۔ اُدھو ٹھاکرے کو وزارت کا تجربہ نہیں ہے مگر بحر سیاست کی غواصی کا اُن کا تجربہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے اس لئے ہمارے خیال میں اُنہیں کوئی دشواری پیش نہیں آنی چاہئے۔ اُن کی پارٹی میں منوہر جوشی اور سبھاش دیسائی جیسے سینئر اور تجربہ کار لیڈران موجود ہیں جن سے صلاح مشورہ کے ذریعہ اُمور حکومت کی بہتر انجام دہی ممکن ہے۔ وقتاً فوقتاً شرد پوار (این سی پی) اور سشیل کمار شندے، اشوک چوان اور پرتھوی راج چوہان (کانگریس) سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے جو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK