• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مجروح سلطان پوری: الفاظ کے ذریعہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے تھے

Updated: May 24, 2024, 8:48 AM IST | Agency | Mumbai

اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول،کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا، ہائے ہائے یہ ظالم  زمانہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے، ہمیں تم سے پیار کتنا، جیسے معروف نغموں کے خالق مجروح سلطان پوری یکم اکتوبر ۱۹۱۹ء کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔

Famous poet and songwriter Majroh Sultanpuri. Photo: INN
مشہور شاعر اور نغمہ نگار مجروح سلطانپوری۔ تصویر : آئی این این

اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول،کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا، ہائے ہائے یہ ظالم  زمانہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے، ہمیں تم سے پیار کتنا، جیسے معروف نغموں کے خالق مجروح سلطان پوری یکم اکتوبر ۱۹۱۹ء کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسرارالحسن خان تھا۔ والد پیشہ سے  سب انسپکٹر تھے۔ انھیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے لیکن مجروح نے ساتویں جماعت مکمل کرنے کے بعد عربی و فارسی کی تعلیم کیلئے ۷؍سالہ کورس میں داخلہ لےلیا۔ مجروح درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے، جس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔اپنا دواخانہ چلایا، جہاں وہ مریضوں کو حکیمانہ نسخوں سے صحت یاب کرتے تھے۔ حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ سلطان پورمیں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ شعر و شاعری کا شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ حکمت کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ لیا۔ ایک مرتبہ سلطان پورمیں مشاعرے میں غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔ اِس طرح، مجروح نے حکمت چھوڑ کر شاعری کے ذریعے معاشرے کی نبض پہ ہاتھ رکھنے کا سوچا۔ پھر لفظوں سے لوگوں کا علاج کرنے لگے۔
 ایسے وقت میں جگر مراد آبادی سے ملاقات اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگےتھے۔ شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہوگئے۔ مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراء میں ہوتا ہے۔ مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے۔ اُن کا شمارترقی پسند شعراء میں کیا جاتا ہے۔ جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔ مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت ’غم دئیے مستقل‘ ۱۹۴۵ءمیں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔ اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔ جن کی ہر طرف دھوم مچ گئی ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ پھر مجروح کا یہ فلمی سفر پانچ دہائیوں تک چلتا رہا۔ البتہ مجروح کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی شاعری کو فلم یا فلمی دنیا کے حوالے سے جانا جائے۔ ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔
 ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتاہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جو غزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔
 مجروح، اردو فلم انڈسٹری کی شان ہیں۔ وہ ایک ایسا نام ہیں جنہوں نے اپنے لفظوں کے جادو سے کڑوروں انسانوں کو اپنا دیوانہ بنایا۔اور ان کی وجہ سے بالی ووڈ کے کئی ہیروز کو عالمی شہرت ملی۔ فلمی دنیا کی مقبول نغمہ نگاری اور اردو شاعری کی لازوال خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مجروح کو ہندستان کے دو عظیم فنی ایوارڈوں ’اقبال سمّان ایوارڈ‘ اور’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اردو غزل کا یہ البیلا شاعر ۲۴؍مئی۲۰۰۰ء کو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK