• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مجروح سلطانپوری نے اپنی شاعری کے ساتھ کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا

Updated: November 26, 2023, 12:26 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

فلم انڈسٹری میں رہتے ہوئے بھی انہوںنے کبھی خود کو صرف فلمی نغمہ نگار کہلوانا پسند نہیں کیا بلکہ ایک شاعر کے طور پر اپنی پہچان ہمیشہ قائم رکھی ۔

Majrooh Sultanpuri. Photo: INN
مجروح سلطانپوری۔ تصویر : آئی این این

اُترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ نظام آباد میں ایک پولیس انسپکٹر کے گھر میں اسرار حسین خاں کا جنم ہوا جو بعد میں مجروحؔ سلطانپوری کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کے تعلق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسرار حسین اپنے بچپن ہی سےشعرو شاعری سے دلچسپی رکھتے تھے،اسلئے جب کبھی پرائمری اسکول کے ٹیچر کوئی مصرعہ غلط پڑھ دیتے تو وہ انہیں ٹوک دیا کرتے تھے کہ ماسٹر صاحب! اس کو ایسے نہیں ، ایسے پڑھنا چاہئے۔ اُس وقت اُن کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ وہ بڑے ہوکر ایک معروف شاعربنیں گے۔
 ۱۹۲۱ء میں جب مجروحؔ صرف ڈھائی برس کے تھے، ان کے والد نے ہندوستان کی جنگ آزادی کی خلافت تحریک میں شامل ہوکر انگریزوں سے اپنی نفرت کا اظہار اِس طرح کیا کہ اپنے اکلوتے بیٹے اسرار حسین خاں کو انگریزی تعلیم دلوانے سے صاف انکار کر دیا۔ اس طرح مجروحؔ سلطانپوری کی تعلیم عربی، فارسی اور اردو میں ہوئی۔ عربی، فارسی کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے مجروحؔ کو مولانا بن کر پگڑی بندھوانے میں صرف ۲؍ سال باقی رہ گئے تھے کہ ایک مذاق کرنے کی وجہ سے مجروحؔ کو مدرسہ سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد مجروحؔ نے طب کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی اور۱۹۳۶ءء میں لکھنؤ کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہیں پر انہوں نے پہلی بار ایک شخص پر کچھ مزاحیہ رنگ میں شعر کہے جو طبیہ کالج میں کافی مشہور ہوئے تھے۔
 طب کی تعلیم مکمل کرکے مجروحؔ ضلع فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہیں ’حکیم صاحب‘ بن کر لوگوں کا علاج کرنے لگے۔ بعد میں وہ پھر ٹانڈہ سے سلطانپور آگئے۔ سلطانپور میں ہر ہفتے ایک ادبی نشست کا اہتمام ہوتا تھا، جہاں مجروحؔ نے ایک بار اپنی ایک غزل ترنم کے ساتھ پڑھی۔ اس نشست نما مشاعرے میں مجروحؔ کو خوب داد ملی۔ اس کے بعد ان پر شاعری کا ایسا جادو چڑھا کہ باقاعدہ شاعری کے دَور کا آغاز ہو گیا۔ کچھ ہی دنوں بعد مجروحؔ نے اپنی حکیمی کی دُکان بند کر دی اور مکمل طور پر شاعر ہی بن کر رہ گئے۔
 انہیں دنوں سلطانپور میں ایک بڑا مشاعرہ ہوا، جس میں آس پاس کے شہروں سے بھی شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا۔مجروحؔ نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ یہ ان کیلئے پہلی بڑی کامیابی تھی۔ ان کا ترنم بہت دلکش تھا۔ اُس غزل کا ایک شعر اِس طرح تھا۔
ہم ہیں کعبہ، ہم ہیں بت خانہ، ہمیں ہیں کائنات
ہو سکے تو خود کو بھی ایک بار سجدہ کیجئے
 اب مجروحؔ باقاعدہ مشاعروں میں شریک ہونے لگے۔ ان ہی دنوں علی گڑھ میں ان کی ملاقات اردو کے مشہور ادیب رشید احمد صدیقی سے ہوئی۔ علی گڑھ میں رشید احمد صدیقی کے ساتھ مجروحؔ تین سال رہے اور مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری میں بہت سی عمدہ کتابوں اور ادبی شہ پاروں کا مطالعہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کی شاعری میں نکھار آنے لگا۔ یہیں ان کی ملاقاتیں کئی مشہور شاعروں سے ہوئیں ۔۱۹۴۱ء میں حضرت جگرؔ مرادآبادی نے مجروحؔ کی شاعری سنی اور بہت پسند کی۔ اُس کے بعد ہی دونوں میں قربت پیدا ہوگئی۔ مجروح انہیں اپنے استاد کی طرح عزت دینے لگے۔ حالانکہ بہت کم غزلوں پر انہوں نے جگرؔ مرادآبادی سے اصلاح لی ہوگی لیکن انہوں نے جگر صاحب کو ہمیشہ استاد ہی کا درجہ دیا۔
 فروری۱۹۴۵ء میں جگرؔ مرادآبادی ممبئی کے ایک مشاعرے میں مجروحؔ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ مشاعرے کے سامعین کی اگلی قطار میں مشہور فلمساز عبدالرحمان کاردار بھی تشریف رکھتے تھے۔ اے آر کاردار اُن دنوں تاریخی فلم ’شاہجہاں ‘ بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ اُس فلم کیلئے کسی ایسے اردو شاعر سے نغمے لکھوانا چاہتے تھے، جو اپنے نغموں میں مغلیہ دَور کی تہذیب اور شان وشوکت کا بھی خصوصی طور پر خیال رکھ سکے۔ انہوں نے جگرؔ مرادآبادی سے اِس فلم کے نغمے لکھوانے کی خواہش ظاہر کی اور پیشگی بھی ادا کر دئیے تھے مگر مجروحؔ کو مشاعرے میں غزل پڑھتے ہوئے سنا تو بہت پسند کیا اور پھر طے کیا کہ انہیں سے لکھوائیں گے۔ بہرحال دونوں میں بات ہوئی تو پانچ ہزار روپے ماہانہ پر تنخواہ طے ہوئی۔ اس وقت مجروحؔ کی یہ تنخواہ فیض آباد کے ڈپٹی کلکٹر کی تنخواہ سے بھی زیادہ تھی۔ اس طرح مجروحؔ سلطانپوری نے پہلی بار فلم’شاہجہاں ‘ کے گیت، موسیقارِ اعظم نوشاد کی میٹھی دُھنوں پر لکھے۔ اُن کا پہلا گیت تھا:
کر لیجئے چل کر میری جنت کے نظارے
جنت بھی بنائی ہے محبت کے سہارے
 یہ گیت کندن لال سہگل کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اِس فلم کے دوسرے گیت بھی مجروحؔ سلطانپوری نے بہت خوبصورت لکھے ’’جب دل ہی ٹوٹ گیا.... غم دئیے مستقل کتنا.... نازک تھا دل.....‘‘ وغیرہ۔
 فلم ’’شاہجہاں ‘‘ سپر ہٹ ثابت ہوئی اور مجروحؔ نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ وہ کمال کر سکتے ہیں مگر مجروحؔ اِس فلم کی کامیابی سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔اسی درمیان وہ بیمار ہوگئے،اسلئے علاج کیلئے لکھنؤ چلے گئے اور کئی ماہ تک وہیں رہے۔ اُسی درمیان فلم کیلئے ۲؍ گیتوں کی مزید ضرورت پڑی جو جگرؔ مرادآبادی ہی کے دوسرے شاگرد خمارؔ بارہ بنکوی سے لکھوائے گئے۔ اس طرح اس فلم کے۱۰؍ میں سے ۸؍ نغمے مجروحؔ سلطانپوری نے لکھے۔
  ایک برس کے لمبے عرصے کے بعد نوشاد صاحب کی رضامندی کے بعد فلمساز ہدایتکار محبوب خان نے مجروحؔ سلطانپوری کو بلایا اور کہا کہ ’’میرے کو تیرے ’شاہجہاں ‘ والے گانے بہت پسند ہیں ۔‘‘اس طرح محبوب خان کی فلم ’انداز‘ کے نغمے مجروحؔ نے لکھے۔ اس فلم میں دلیپ کمار اور راج کپور پہلی اور آخری بار ایک ساتھ پردۂ سیمیں پر آئے تھے۔ ان کی ہیروئن نرگس تھیں ۔ یہ فلم کامیاب رہی اور اس کے گیت بھی مقبول ہوئے۔اُٹھائے جا ان کے ستم......،کوئی میرے دل میں ......،ہم آج کہیں دل کھو بیٹھے.....،تو کہے اگر جیون بھر.....،توڑ دیا دل میرا......،میری لاڈلی او میری لاڈلی......،ٹوٹے نہ دل ٹوٹے نہ،......جھوم جھوم کے ناچو آج.....جیسے سبھی گیت مقبول ہوئے۔
 اس کے بعد مجروحؔ کسی ایک موسیقار کے ساتھ جڑے نہیں رہے۔ وہ سبھی کیلئے گیت لکھتے رہےکیونکہ فلم ’انداز‘ کے گانوں کی مقبولیت سے بھی ان کو خاص فائدہ نہیں ہوا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں دنوں ممبئی کے چیف منسٹر مرارجی دیسائی نے ایک سیاسی اور کچھ ضرورت سے زیادہ جوشیلی نظم پڑھنے کی وجہ سے مجروحؔ سلطانپوری کے نام گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا تھا۔مجروحؔ جیل سے رہا ہوئے توفلم ساز کمال امروہوی نے۱۹۵۳ء میں اپنی فلم ’دائرہ‘ کے نغمے اُن سے لکھوائے۔ اس کے بعد گرودت نے ان کا انتخاب کیا اور پھر انہوں نے موسیقار او پی نیّر کے ساتھ بہت سے مقبول ترین نغموں کی تخلیق کی۔
 او پی نیّر کو پہلی بار مجروحؔ کے گیتوں ہی سے کامیابی ملی تھی۔ فلم ’پھر وہی دل لایا ہوں ‘ کے مشہور گیت ’’بندہ پرور، تھام لو جگر؛ لاکھوں ہیں نگاہ میں ؛ آنچل میں سجا لینا کلیاں ؛ آنکھوں سے جو اُتری ہے دل میں ؛ میری بے رخی تم نے دیکھی ہے لیکن؛ ہمدم میرے مان بھی جائو؛ زلف کی چھائوں میں چہرے کا اجالا لے کر‘‘ وغیرہ مجروحؔ کے نغمے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں ۔اس کے بعد انہوں نے ایس ڈی برمن اور آر ڈی برمن کیلئے گیت لکھے، اوشا کھنہ، خیام، لکشمی کانت پیارے لال، مدن موہن، چتر گپت اور بہت سے آج کے نئے موسیقاروں کے لئے بھی مجروحؔ گیت لکھتے رہے۔
 مجروحؔ ہمیشہ وقت کے ساتھ چلے اور فلموں کی سچویشن کے مطابق انہوں نے بہترین نغمے تخلیق کئے مگر انہوں نے کبھی اپنی ادبی شاعری کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی اپنے آپ کو صرف فلمی نغمہ نگار کہلوانا پسند نہیں کیا۔ بلکہ ایک شاعر کے طور پر اپنی پہچان ہمیشہ قائم رکھی۔ انہوں نے اپنی ۵۵؍ سالہ فلمی زندگی میں لگ بھگ ۴۰۰؍ سے زائد فلموں کے نغمے لکھے۔۱۹۹۳ءء میں انہیں ملک کے سب سے بڑے فلمی اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اس سے قبل ۹۲۔۱۹۹۱ء کیلئے مدھیہ پردیش سرکار کی طرف سے اُردو ادب کا سب سے اہم اعزاز ’اقبال سمّان ‘ بھی پیش کیا گیا۔ ۱۹۵۶ء میں اُن کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ’غزل‘ کے ہی عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔
 ۲۴؍مئی۲۰۰۰ء کی شب میں ممبئی کے لیلاوتی اسپتال میں مجروحؔ سلطانپوری پھیپھڑوں کی تکلیف کے سبب اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کے نغموں سے سجی آخری فلم تھی ’ہم تو محبت کرے گا‘، جو اُن کے انتقال کے ایک ہفتہ بعد نمائش کیلئے پیش کی گئی۔
 مجروحؔ سلطانپوری کا ایک شعر بہت مشہور ہوا جو انہیں اردو دنیا میں زندہ رکھنے کیلئے کافی ہے۔ 
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK