• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مجروح سلطانپوری الفاظ اور شاعرانہ اصطلاحات کے سلطان تھے

Updated: October 01, 2021, 11:37 AM IST | Agency | Mumbai

۱۹۴۵ء میں ایک مشاعرہ میں مجروح کی ملاقات مشہور پروڈیوسر اے آر کاردار سے ہوئی اورانہوں نے مجروح کو نغمہ نگاری کی پیشکش کی

Majrooh Sultanpuri. Picture:INN
مجروح سلطانپوری۔ تصویر: آئی این این

 اردو زبان کے مشہور شاعر اور نامور نغمہ نگار  مجروح سلطانپوری الفاظ اور شاعرانہ اصطلاحات کے سلطان  تھے۔مجروح سلطان پوری یکم اکتوبر۱۹۱۹ء کو اترپردیش کے ضلع سلطانپور میں پیدا ہوئے۔ ان کا حقیقی نام اسرار الحسن خان تھا۔ اُن کے والد ایک سب انسپکٹر تھے۔ مجروح نےاسکولی تعلیم  صرف ساتویں جماعت تک ہی حاصل کی اس کے بعد انہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے۔ اس کے بعد انہوں نے لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔مجروح حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور میں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے سلطان پور میں مشاعرے میں غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔ شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔ مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ۷۰؍ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراء میں ہوتا ہے۔۱۹۴۵ءکی بات ہے جب مجروح نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں شرکت کی تھی جہاں ان کی ملاقات فلم انڈسٹری کے مشہور پروڈیوسر اے آر کاردار سے ہوئی  جنہوں نے مجروح کو نغمہ نگاری کی پیشکش کی۔ حالانکہ اس وقت انھوں نے منع کر دیا لیکن جب جگر مراد آبادی نے مجروح کو سمجھایا تو وہ راضی ہو گئے۔  کاردار نے  مجروح کی ملاقات موسیقار نوشاد سے کرائی۔ نوشاد نے فوراً ایک  دھن  پیش کی اور نغمہ لکھنے کی فرمائش کی۔ گویا مجروح کا پہلا فلمی نغمہ منظر وجود پر آیا۔ وہ نغمہ تھا ’جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم کے، مست امنگیں لہرائی  ہیں رنگیں مکھڑا چوم کے‘ نوشاد کو یہ نغمہ بہت پسند آیا اور انہوںنے فلم ‘تاج محل’ میں نغمہ نگاری کی ذمہ داری مجروح کے سپرد کر دی۔ اس فلم کے نغموں کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ سبھی کی زبان پر صرف مجروح کا ہی نام تھا۔ 
  مجروح نے ۱۹۴۵ء  میں ہی گیت‘غم دئیے مستقل’ فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔ اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا جن کی ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔ جب دل ہی ٹوٹ گیا ، ہم جی کے کیا کریں گے، انتہائی مقبول ہوئے اور مجروح کی شہرت کو گویا پر لگ گئے۔ انہیں پے درپے فلمیں ملنے لگیں، ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کی قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔ مجروح ایک ایسے شاعر تھے جن کے کلام میں سماج کا درد جھلکتا تھا۔ انھوں نے زندگی کو ایک فلسفی کے نظریے سے دیکھا اور اردو شاعری کو نئی اونچائیاں عطا کیں۔ دراصل مجروح کی نظر سماجی مسائل کے ساتھ زندگی کی کشمکش پر بھی رہتی تھی۔ وہ اپنے قلم کے ذریعہ سماجواد کا پرچم بلند کرنے والے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ۱۹۴۹ء  میں راج کپور نے  مجروح سے ایک نغمہ لکھنے کی فرمائش کی تو وہ انکار نہیں کر سکے۔ اس موقع پر مجروح نے اپنے درد و الم کو کاغذ پر بکھیرتے ہوئے یہ نغمہ لکھا ’ایک دن بک جائے گا ماٹی کے مول ،جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول‘ راج کپور نے اس نغمہ کیلئے انہیں۱۰۰۰؍ روپے دیے تھے۔  راج کپور نےیہ نغمہ۱۹۷۵ء  میں اپنی فلم ‘دھرم کرم’ میں شامل کیا تھا۔  مجروح نے فلموں میں روایتی انداز کی نغمہ نگاری سے ہمیشہ پرہیز کیا۔  انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے نغمہ کے پیرایہ میں ڈھال دیا۔‘پھر وہی دل لایا ہوں’، ‘تیسری منزل’، ‘بہاروں کے سپنے’، ‘کارواں’، ‘خاموشی’ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جن کے کسی ایک نغمہ کو بطور مثال پیش نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس میں موجود سبھی نغمے فلموں کی کامیابی کا ضامن بنی ہیں۔مجروح کو فلم دوستی کے نغمہ ’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘کیلئے فلم فیئر ایوارڈ  اور فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزازدادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔مجروح ۵۰؍ سال فلمی دنیا سے جُڑے رہے۔ انہوں  نے۳۰۰؍ سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے جو بے حد مقبول ہوئے تھے۔ مجروح سلطان پوری کو۱۹۴۹ء میں سیاسی تنقیدوںپر مبنی نظمیں لکھنے کی پاداش  میں۲؍ سال قیدکی سزا بھی بھگتنی پڑی تھی۔اس کے بعدانہوں نے نئے سرے سے اپنے کریئر کاآغاز کیا اورگرو دت کی فلم باز (۱۹۵۳ء)اورآر پار (۱۹۵۴ء)کیلئے نغمے لکھے ۔ بابو جی دھیرے چلنا ، کبھی آر کبھی پار ،یہ لو میںہاری پیا ،سن سن سن سن ظالمہ جیسے نغموں کے ساتھ مجروح سلطان پوری  نے زوردار  اندازمیں انڈسٹری میں واپس آئے۔ مجروح  سلطان پوری نے گوکہ  اپنے وقت کےنامور اورمایہ ناز موسیقاروںکے ساتھ کام کیا جن میںانل بسواس ، نوشاد، مدن موہن ،اوپی نیر، روشن ،سلیل چودھری، چتر گپت، کلیان جی آنند جی اورلکشمی کانت پیارے لال شامل ہیں،لیکن ایس ڈی برمن کے ساتھ ان کی جوڑی ان سب میں نمایاں نظر آتی ہے۔ایس ڈی برمن کے ساتھ انہوں نے جن فلموںکیلئے نغمے لکھے ان میں پیئنگ گیسٹ ،نو دوگیارہ ،کالا پانی ،سولہواں سال ،سجاتا ،بمبئی کا بابو اورجیول تھیف جیسی ناقابل فرامو ش فلمیں شامل ہیں ۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK