جامعہ عثمانیہ میں ڈاکٹر عبدالحق جیسی شخصیت سے ان کا واسطہ رہا۔ سکندر علی وجدؔ اور جلال الدین اشکؔ جیسے شعراء ان کے ہمعصر تھے ۔ انہوں نے خود فلمی دنیا سے وابستگی کی کوئی کوشش نہیں کی تھی بلکہ ان کی مقبول نظمیں اور غزلیں ، فلمسازوں اور ہدایتکاروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔ان کی ایک نظم ’سپاہی‘ کو سب سے پہلے بمل رائے نے استعمال کیا
ہندوستانی سنیما میں ابتدائی دور سے ہی نغمہ نگاری کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ جس طرح فلم کی کہانی، منظرنامہ اور مکالمے لکھنے کیلئے اچھے نثرنگار، ادیبوں اور کہانی کاروں کی ضرورت ہمیشہ سے فلمی دنیا میں رہی ہے، اُسی طرح باصلاحیت اور اچھے فلمی نغمہ نگاروں، گیت کاروں کی بھی فلمی دُنیا کو ضرورت پڑتی رہی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ بہت سے کامیاب ادبی شاعر فلمی دنیامیں جاکر ناکام ہو گئے یا پھر جلدی ہی گھبراکر واپس آگئے۔ دوسری طرف کئی ایسے نغمہ نگار بھی ہیں جن کی ادب میں کبھی کوئی شناخت قائم نہیں ہو سکی مگر وہ فلمی دنیا میں بہت کامیاب رہے اور ان کے نغموں سے فلموں کو کامیاب ہونے میں بھی مدد ملی۔
دراصل فلمی نغمہ نگاری ادبی شاعری سے تھوڑا مختلف کام ہے۔ اگر ہم اِسے تکنیکی کام کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ جس طرح ایک کہانی لکھنا یا افسانہ تحریر کرنا بالکل ایک الگ بات ہے اور اُسی کو فلمی منظرنامہ بناکر لکھنا بالکل مختلف قسم کی تکنیکی مہارت کی بات ہوتی ہے۔
ہمارے کئی ادبی شاعر اسی لئے فلمی دنیا میں کامیاب نہ ہو سکے یا گھبراکر جلدی واپس ہو گئے کیونکہ وہاں کے طور طریقے اور چلن کچھ نرالے ہی ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ موسیقار کی دُھن سے بندھے ہوئے ہیں۔ اُس نے جو میٹر بنا دیئے ہیں، اسی میں رہ کر اب آپ کو فلم کی سچویشن کے مطابق الفاظ اُس دھن میں بٹھانے ہیں۔یعنی آپ سچویشن کے بھی پابند ہو گئے۔ اب آپ کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ گانا کہاں پر فلم بند ہوگا۔ یعنی گانے کے سین کی لوکیشن کیا ہے۔ اس کا بھی خیال رکھتے ہوئے الفاظ کا استعمال کرنا ہے اور پھر اس بات کا خیال بھی رکھنا ہے کہ فلم کے پردے پر کون کون سے کردار آپ کے لکھے نغمے کو گائیں گے۔ ایک خاص بات یہ بھی ذہن میں رکھنی ہے کہ آسان الفاظ کا استعمال کرنا ہے تاکہ فلم بینوں کا ہر طبقہ فوری طور پر آپ کے نغمہ کو سمجھ لے اور لطف اندوز ہو سکے۔ تبھی تو آپ کا نغمہ مقبول ہوگا۔ایسے چند شاعروں میں جو فلمی دنیا میں زیادہ عرصے تک نہ ٹکے رہ سکے یا وہاں کے ماحول اور طور طریقوں کو نہ اپنا سکے، جوشؔ ملیح آبادی کا نام سرفہرست ہے۔ اسی طرح جگرؔ مرادآبادی کے بڑے چہیتے شاگرد خمارؔ بارہ بنکوی بھی تادیر فلمی دنیا میں نہیں ٹک پائے جبکہ شکیل بدایونی، مجروح سلطانپوری اور ساحرؔ لدھیانوی نے کامیابی اور شہرت، سب کچھ حاصل کیا۔ اسی طرح جلد واپس ہونے والوں میں ایک بڑا اہم نام مخدومؔ محی الدین کا بھی رہا ہے۔
مخدوم کا پورا نام ابوسعید محمد مخدوم محی الدین حذری تھا۔ وہ ۴؍فروری ۱۹۰۸ء کو اندول ضلع میدک میں پیدا ہوئے، جہاں اُن کے والد ملازم تھے۔ یوں اُن کا آبائی وطن منمول تھا۔ خاندان کے بزرگ مخدوم کو بچپن میں ’بابا‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کے بچپن میں ہی، جب وہ محض سوا پانچ برس کے تھے، ان کے والد محمد غوث محی الدین کا انتقال تیس برس کی عمر میں ہو گیا۔ بعد میں مخدوم کی پرورش ان کے چچا محمد بشیرالدین نے کی جو اندول کی تحصیل میں بحیثیت اہلکار ملازم تھے۔ مخدومؔ کے بچپن ہی میں ان کی والدہ نے دوسری شادی کر لی مگر اس بات کو مخدومؔ سے پوشیدہ رکھا گیا۔ کافی عرصے کے بعد مخدومؔ کو کسی طرح پتہ چلا کہ ان کی ماں زندہ ہیں اور ان کی ایک بہن بھی ہے۔ بعد میں ان کی والدہ انہی کے ساتھ رہنے لگی تھیں اور مخدوم کے گھر ہی میں ان کا انتقال بھی ہوا۔
مخدومؔ محی الدین کی شادی ۲۲؍اگست ۱۹۳۳ء کو ان کے ایک دوسرے چچا سمیع الدین کی دختر رابعہ بیگم سے ہوئی۔ مخدومؔ نے اپنی تمام تر گھریلو مشکلات اور خود کی شرارتوں کے باوجود ۱۹۳۴ء میں جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد سے بی اے کا امتحان درجہ دوم میں پاس کیا اور وہیں سے ۱۹۳۶ء میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ عثمانیہ میں ڈاکٹر عبدالحق جیسی شخصیت سے ان کا واسطہ رہا اور سکندر علی وجدؔ اور جلال الدین اشکؔ جیسے شعراء مخدوم کے ہمعصر تھے۔ مخدومؔ خود بھی جامعہ عثمانیہ میں بحیثیت شاعر خاصے مقبول تھے۔
۱۹۳۳ء میں مخدومؔ نے اپنی طالب علمی کے زمانے ہی میں پہلی نظم ’پیلا دوشالہ‘ کہی تھی، جو قوالی کی طرز پر کالج کے ہوسٹل میں بڑی مقبول تھی اور ان کے ساتھی طلبہ اکثر دہرایا کرتے تھے۔ مخدوم کی بے حد مقبول غزل ’پھر چھڑی رات بات پھولوں کی.....‘‘ کا بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ ۱۹۶۰ء کی بات ہے۔ شکیلہ بانو بھوپالی کسی پروگرام کے سلسلے میں حیدرآباد آئی ہوئی تھیں اور وہ مخدومؔ اور ان کے دوست شاہد صدیقی سے کافی بے تکلف تھیں۔ تینوں دوستوں میں یہ بات طے ہوئی کہ اب جو بھی بات ہم تینوں میں ہوگی وہ منظوم ہوگی۔ رات کو کھانے کے بعد شاعری کا دور چلا اور شکیلہ بانو کو خوب ہار پہنائے گئے جو اُن کے سامنے رکھے ہوئے تھے اور وہ بے خیالی میں پتی پتی ان کو بکھیر رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے ان کے سامنے پتیوں کی چادر سی بچھ گئی تھی۔ شاہد صدیقی نے آہستہ سے کہا’’کیا بچھا دی بساط پھولوں کی....‘‘ شکیلہ نے جواب دیا..... ’’بے مروت ہے ذات پھولوں کی....‘‘۔مخدومؔ نے دونوں کو خاموش کرانے کی غرض سے کہا کہ ’’لوگ سنتے ہیں بات پھولوں کی.....‘‘مشاعرہ ختم ہوا، اگلے دن پھولوں والی زمین پر مخدومؔ کی وہ مشہور زمانہ غزل تیار تھی، جو بعد میں فلم ’بازار‘ میں فلمساز و ہدایتکار ساگر سرحدی نے استعمال کی۔
مخدومؔ نے طالب علمی کے زمانہ ہی سے ہی تلاش روزگار شروع کر دی تھی۔ ابتدا میں اپنے دوست نورالہدیٰ کے ساتھ مل کرپینٹنگس فروخت کیں مگر یہ کاروبار اچھا نہ چلا تو فلمی اداکار اور اداکارائوں کی تصویریں فروخت کرنے لگے۔ اخباروں کے دفتروں میں کام کیا، ٹیوشن بھی پڑھائے۔ ۱۹۳۷ء میں ایم اے کرنے کے بعد دفتر دیوانی میں کلرکی بھی کی۔ ۱۹۳۹ء میں مخدوم سٹی کالج کے شعبہ اردو میں بحیثیت استاد مقرر ہوئے اور ۱۹۴۱ء میں یہ ملازمت بھی چھوڑ دی۔ ۱۹۴۰ء میں مخدوم کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری منتخب ہوئے لہٰذا ان کی سیاسی مصروفیات بڑھنے لگیں۔ ۱۹۴۳ء میں مخدومؔ انگریزوں کے خلاف تقریر کرتے ہوئے گرفتار ہوئے اور تین ماہ کی سادہ سزا کیلئے جیل گئے۔ بعد میں مخدومؔ کو اسمبلی کا رُکن بھی چنا گیا۔
مخدومؔ محی الدین نے فلمی دنیا سے وابستگی کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ ان کی نظمیں اور غزلیں کافی مقبول ہو چکی تھیں اور فلمسازوں و ہدایتکاروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔ فلمساز و ہدایتکار بمل رائے، جو اپنے ہمعصروں سے مختلف ذہن و فکر کے فلمساز تھے، انہوںنے مخدوم کی ایک نظم ’سپاہی‘ کو اپنی فلم’اُس نے کہا تھا‘ میں بڑی موثر موسیقی کے ساتھ پیش کیا تھا۔ موسیقار سلیل چودھری نے مخدومؔ کے مصرعوں کی سبک خرامی کے مطابق بہت پُراثر موسیقی ترتیب دی تھی۔۱۹۵۸ء میں مشہور فلمساز و ہدایتکار گرودت اپنی فلم ’کاغذ کے پھول‘ کیلئے مخدومؔ سے گیت لکھوانے کے خواہشمند تھے مگر وہ چاہتے تھے کہ مخدومؔ بمبئی میں رہ کر اس فلم کے گیت لکھیں لیکن مخدومؔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے حیدرآباد چھوڑنے کو تیار نہیں تھے لہٰذا بعد میں مخدوم ہی کی سفارش پر گرودت نے فلم ’کاغذ کے پھول‘ کی نغمہ نگاری کی ذمہ داری کیفی اعظمی کے سپرد کی۔مخدومؔ کی ایک اور نظم ’چارہ گر‘ نے فلمی دنیا میں بڑی دُھوم مچائی تھی۔ اس نظم کا مکھڑا ’’اک چمیلی کے منڈوے تلے‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ اس گانے کی دھن حیدرآباد ہی کے ایک میوزک ڈائریکٹر اقبال قریشی نے تیار کی تھی۔ اس نظم کو سب سے پہلے فائن آرٹ اکیڈمی کے گلوکاروں نے پیش کیا تھا۔ اقبال قریشی خود بھی فائن آرٹ اکیڈمی کے ممبر رہ چکے تھے لہٰذا، انہوںنے اس نظم کو عوام کے سامنے کورس کی شکل میں پیش کیا۔
بعد میں دیوآنند، راج کھوسلہ، سنیل دت اور خواجہ احمد عباس نے بھی اس نظم کو پیش کرنا چاہا مگر چندر شیکھر نے اپنی فلم ’چاچاچا‘ میں اس نظم کو مکمل طور پر پیش کیا۔ حالانکہ یہ فلم ناکام ہو گئی مگر مخدوم کا لکھا نغمہ ’’اک چنبیلی کے منڈوے تلے....‘‘ پورے ملک میں گونجنے لگا۔
مخدومؔ نے ۱۹۶۸ء میں فلم ’برسات‘ سائن کی۔ اس فلم کی موسیقی مقبول موسیقار مدن موہن ترتیب دے رہے تھے۔ مخدوم کا ارادہ تھا کہ وہ مہینے میں دو تین بار ہوائی جہاز سے بمبئی جائیںگے اور کام مکمل کر دیںگے۔ ابھی وہ اس فلم کے دو گیت ہی لکھ پائے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا اور کچھ عرصہ بعد ہی مدن موہن بھی چل بسے۔ اس طرح یہ فلم ادھوری ہی رہ گئی اور کوئی ایک گیت بھی ریکارڈ نہ ہو سکا۔
مخدومؔ کا مزاج فلمی دنیا کے طور طریقوں کے موافق بالکل نہ تھا۔ نظم ’سپاہی‘ اور’چارہ گر‘ کی موسیقی تیار کرنے میں موسیقار خود شاعر کا پابند تھا مگر فلمی دنیا کے رواج کے مطابق شاعر کو ہی موسیقار کا پابند رہنا پڑتا ہے اور فلمی دنیا کی روایت کے مطابق پہلے موسیقار دھن تیار کر لیتا ہے جس پر بعد میں شاعر کو الفاظ بٹھانے ہوتے ہیں۔ مخدومؔ کی پوری شاعری میں گیتوں کا عمل دخل نظر نہیں آتا۔ اس کے باوجود ان کی کئی نظمیں ایسی ہیں جن میں گیتوں کی نغمگی اُسی انداز کی ہے۔ مثال کے طور پر نظم’آزادیٔ وطن‘ اور نظم ’مسافر‘ یا پھر’مستقبل، جنگِ آزادی، ستارے اورماسکو‘ جیسی نظمیں گیتوں کے انداز کی ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلم’برسات‘ کے دونوں گیت لکھنے میں مخدوم کو دشواری محسوس نہیں ہوئی، وہ فلم کیلئے گیت لکھتے وقت بھی شعر اور شعریت کے تقاضوںکا دھیان رکھتے تھے۔
فلم’چاچاچا‘ اور’گمن‘ کے بعد فلم ’بازار‘ میں موسیقار خیام نے مخدوم کی غزل ’پھر چھڑی رات بات پھولوں کی....‘کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ اس غزل کو لتامنگیشکر اور طلعت عزیز کی آوازوں میں ریکارڈ کرایا گیا۔ یہ فلم تو کامیاب ہوئی ہی مگر اس سے زیادہ مخدوم کی غزل فلمی شائقین کے دلوں پر چھا گئی۔ بعد میں لتامنگیشکر کے ایک البم میں بھی اس غزل کو شامل کیا گیا۔اسی طرح مخدومؔ کی ایک نظم ’انتظار‘ کو بھی فلم میں استعمال کیا گیا۔ ’رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے‘‘ کو فلمساز وہدایتکار مہیش بھٹ کی بیٹی پوجا بھٹ نے اپنی فلم ’تمنا‘ میں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اس نظم کی فلم بندی بھی بہت خوبصورت انداز میں ہوئی ہے۔
اس طرح مخدومؔ کا جو بھی کلام فلموں میں استعمال ہوا وہ بے حد مقبول ہوا.... اور آج بھی فلم بینوں کے کانوں میں گونجتا ہے۔ حالانکہ ایسے نغموں کی تعداد بے حد مختصر ہے۔ مخدومؔ کا ایک شعر، جو پوری دنیا میں مشہور ہوا..... اور ہزاروں جگہ استعمال کیا گیا، وہ تھا:
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
مخدومؔ کا پہلا شعری مجموعہ ۱۹۴۴ء میں ’سرخ سویرا‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ’گل تر‘ کے عنوان سے دوسرا مجموعہ ۱۹۶۱ء میں منظر عام پر آیا۔ ۱۹۶۶ء میں ’بساط رقص‘ کے عنوان سے جشن مخدوم کے موقع پر مخدوم کمیٹی نے تیسرا مجموعہ شائع کرایا۔ حیدرآباد سے شائع ہونے والے رسالے ’صبا‘ نے بھی مخدوم کی شخصیت اور ان کے فن پر ایک خصوصی شمارہ سلیمان اریب کی ادارت میں شائع کیا۔۲۵؍اگست کی صبح کو دہلی کے ارون اسپتال میں مخدومؔ نے آخری سانس لی اور اپنی طرز کا یہ بے مثال شاعر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ وہ سابق صدر جمہوریہ ہند وی وی گری کے صدر منتخب ہونے کی خوشی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں شریک ہونے کیلئے دہلی آئے تھے۔ بعد میں ۲۶؍اگست کو حیدرآباد کے درگاہ شاہ خاموش میں مخدومؔ کو سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے چند فلمی نغمے آج بھی ہندوستان کی فضائوں میں گونجتے ہیں