• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ملکہ ترنم نور جہاں کی آوازآج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے

Updated: December 23, 2024, 11:57 AM IST | Mumbai

پیدائش کے وقت نور جہاں کی خالہ نے نومولود بچے کے رونے کی آواز سن کرکہا- اس بچے کے رونے میں موسیقی ہے۔ نور جہاں کے والدین تھیٹر میں کام کرتے تھے۔

Noor Jehan. Photo: INN.
دلکش آواز کی ملکہ نور جہاں۔ تصویر: آئی این این۔

فلمی دنیا میں ملکہ ترنم کے نام سے مشہور پلے بیک سنگر اللہ وسائی عرف نورجہاں نے اپنی آواز میں جو گانے گائے وہ آج بھی اپنا جادو جگائے ہوئے ہیں۔ نور جہاں کی پیدائش ۲۱؍ستمبر ۱۹۲۶ءکوپنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے قصور کے ایک متوسط گھرانےمیں ہوئی۔ پیدائش کے وقت نور جہاں کی خالہ نے نومولود بچے کے رونے کی آواز سن کرکہا- اس بچے کے رونے میں موسیقی ہے۔ نور جہاں کے والدین تھیٹر میں کام کرتے تھے۔ گھر میں فلمی ماحول کی وجہ سے نور جہاں بچپن سے ہی موسیقی کی طرف مائل تھیں۔ نور جہاں نے فیصلہ کیا کہ وہ بطورپلے بیک سنگر اپنی شناخت بنائیں گی۔ ان کی والدہ نے نورجہاں کے ذہن میں موسیقی کی طرف بڑھتےہوئےجھکاؤ کو پہچان لیا۔ اس راستے پر آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور گھر پر موسیقی سیکھنے کا انتظام کیا۔ نورجہاں نےموسیقی کی ابتدائی تعلیم کجن بائی سے اور کلاسیکی موسیقی کی تعلیم استاد غلام محمد اور استاد بڑےغلام علی خان سےحاصل کی۔ ۱۹۳۰ءمیں نور جہاں کو انڈین پکچر کے بینر تلے بننے والی خاموش فلم ’ہند کے تارے‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ کچھ عرصے بعد ان کا خاندان پنجاب سے کلکتہ چلا گیا۔ اس عرصے میں انہیں تقریباً ۱۱؍خاموش فلموں میں اداکاری کرنے کا موقع ملا، ۱۹۳۱ءتک نور جہاں نے بطورچائلڈ آرٹسٹ اپنی پہچان بنا لی تھی۔ 
تقریباً ۳؍سال کولکتہ میں رہنے کے بعد نور جہاں واپس لاہور چلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات مشہور موسیقار جی اے چشتی سےہوئی۔ جو اسٹیج پروگراموں میں موسیقی دیا کرتے تھے۔ انہوں نے نورجہاں کو اسٹیج پر گانے کی پیشکش کی جس کے بدلے میں نورجہاں کو فی گانا ساڑھے سات آنہ دیاگیا۔ ان دنوں ساڑھے سات آنہ اچھی رقم سمجھی جاتی تھی۔ ۱۹۳۹ءمیں پنچولی کی میوزیکل فلم گل بکاولی کی کامیابی کے بعد نور جہاں فلم انڈسٹری کی ایک مقبول شخصیت بن گئیں۔ اس کے بعد ۱۹۴۲ءمیں پنچولی کی پروڈیوس کردہ فلم خاندان کی کامیابی کے بعد نور جہاں نے بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنائی۔ 
فلم خاندان میں نورجہاں پر فلمایا گیا گانا ’کون سی بدلی میں میراچاندہے آجا‘ ناظرین میں کافی مقبول ہوا۔ فلم خاندان کی کامیابی کے بعد نورجہاں نےفلم کے ہدایت کار شوکت حسین سے شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ ممبئی آگئیں۔ اس دوران نور جہاں نے شوکت حسین کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں نوکر، جگنو(۱۹۴۳ء)میں کام کیا۔ نور جہاں نے اپنی آوازکے ساتھ مسلسل تجربہ کیا۔ انہی خوبیوں کی وجہ سےانہیں ٹھمری گائیکی کی ملکہ کہاجانے لگا۔ اس عرصےمیں نورجہاں کی دہائی (۱۹۴۳ء)، دوست (۱۹۴۴ء) اور بڑی ماں، ولیج گرل(۱۹۴۵ء)جیسی کامیاب فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں میں ان کی آواز کے جادو نے شائقین کو متاثر کیا۔ اس طرح نورجہاں ممبئی فلم انڈسٹری میں ملکہ ترنم کہی جانے لگیں۔ 
نورجہاں نے اپنے پورے فلمی کیرئیر میں بے شمارگانے گائے۔ نور جہاں نے ہندی فلموں کے علاوہ پنجابی، اردو اور سندھی فلموں میں بھی اپنی آواز سے سامعین کو مسحور کیا، اپنی دلکش آواز اور انداز سے سب کو مسحور کرنے والی نورجہاں ۲۳؍دسمبر ۲۰۰۰ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK