بالی ووڈ میں منوج کمار کا نام ایسے عظیم فنکاروں کی فہرست میں شامل ہوتا ہے جنہوں نے اپنی بے مثال صلاحیتوں سے ناظرین کے دلوں میں اپنا ایک مخصوص مقام بنایا ہے۔
EPAPER
Updated: July 25, 2020, 3:00 AM IST | Mumbai
بالی ووڈ میں منوج کمار کا نام ایسے عظیم فنکاروں کی فہرست میں شامل ہوتا ہے جنہوں نے اپنی بے مثال صلاحیتوں سے ناظرین کے دلوں میں اپنا ایک مخصوص مقام بنایا ہے۔
سالگرہ (۲۴؍ جولائی)کے موقع پر خراجِ تحسین
بالی ووڈ میں منوج کمار کا نام ایسے عظیم فنکاروں کی فہرست میں شامل ہوتا ہے جنہوں نے اپنی بے مثال صلاحیتوں سے ناظرین کے دلوں میں اپنا ایک مخصوص مقام بنایا ہے۔منوج کمار نے یوں تو ۵۰؍ سے بھی کم فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے مگر فلمسازی، ہدایتکاری،کہانی کاری اور منظرنامہ نویسی (’اپکار‘، ’شور‘، ’روٹی کپڑااور مکان‘،’پورب پچھم اور’کرانتی‘ )سے ناظرین کے دلوں میں اپنی ایک خاص شناخت بنائی۔ منوج کمار کی فنکاری کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی فلموں کی کہانیاں خود اُردو میں قلم بند کرتے ہیں اورساتھ ہی ساتھ وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں کیونکہ ان کے والد پنڈت ہربنس لال گوسوامی اردو فارسی کے ایک نامور شاعر تھے۔
اگر ان کے ماضی کی طرف نظر ڈالیں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوگا کہ وہ کسی ہیرو کے نہ تو بیٹے تھے اور نہ ہی کسی ہدایتکار کے رشتہ دار۔ فلم انڈسٹری کا قلعہ فتح کرنا ان کیلئےتقریباً ناممکن تھا۔ پہاڑ جیسی ہمت رکھنے والے ان کے والدین نے انہیں تعلیم دے کر قابل بنایا۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد وہ ممبئی آگئے۔ یہاں آکر مسلسل دوڑ دھوپ میں لگے رہے اس کے بعد ۱۹۵۷ء انہیں فلم ’فیشن‘ میں اداکاری دکھانے کا موقع ملا مگر اس فلم میں انہیں ایک ضعیف العمر شخص کا کردار دیا گیا تھا۔۲؍سال تک دھکے کھانے، چھوٹے موٹے رول کرنے اور ایک آدھ نچلے درجے کی فلمیں کرنے کے بعد ان کو فلمی صنعت میں قدم رکھنے کی جگہ مل گئی۔ مگر اس وقت تک کامیابی ان سے کوسوں دور تھی۔ ۱۹۶۱ء میں ان کی یکے بعد دیگرے ۳؍ فلمیں (’ریشمی رومال‘، ’کانچ کی گڑیا‘ اور ’سہاگ سندور‘) ریلیز ہوئیں ۔ان فلموں میں ان کی چاکلیٹی اداکاری پُرکشش رہی مگر کمزور اسکرین پلے کے باعث ان فلموں کو کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔
منوج کمار کی پیدائش ۲۴؍ جولائی ۱۹۳۷ء کو ایبٹ آباد،خیبر پختونخوا( اب پاکستان میں ) میں ہوئی تھی۔ ملک کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان راجستھان کے ہنومان گڑھ ضلع میں بس گیا تھا۔ نہایت دشوار گزار وقت کا سامنا کرتے ہوئے گرتے پڑتے، بے سروسامانی کی حالت میں یہاں پہنچے، نہ گھر، نہ ٹھکانہ اور نہ ہی کوئی دوست۔ انہوں نے ایک مہاجر کیمپ میں قیام کیا۔ ان کی معصوم بہن غذائی قلت اور غیر صحت مند ماحول کے باعث بیمار پڑگئی، اسپتال پہنچے تو حالات بگڑے ہوئے تھے، ڈاکٹر کم مریض زیادہ، مسائل بے شمار تھے، ایسے میں مہاجر اور انجان مریض کو کون پوچھتا۔ معصوم بہن کی چیخ و پکار نے انہیں ہلادیا۔ وہ آپے سے باہر ہوگئے۔ ڈنڈا اٹھاکر ڈاکٹر، نرس، پولیس اہلکار الغرض سب پر برس پڑے۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری تشدد ثابت ہوا لیکن ان کے والد نے انہیں سمجھایا کہ ’’تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے اور ہم تشدد ہی کی پیداوار ہیں ، اس لئے وعدہ کرو کبھی بھی ہاتھ کا استعمال نہیں کروگے، ہمیشہ محبت اور نرمی کا مظاہرہ کروگے۔‘‘ منوج کمار نے وعدہ کرلیا اور ان کی پوری زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی۔ اسپتال سے جب گھر پہنچے تو بہن اس دنیا میں نہیں رہی۔ بہن کا صدمہ نے انہیں توڑ کر رکھ دیا۔ بقول منوج کمار ’’جب میری بہن کو دفن کیا جارہا تھا تو مجھے ایسا لگا جیسے میری زندگی کا ایک بڑا حصہ دفن ہونے جارہا ہے، میرا وجود مجھے خود پر بوجھ سا لگنے لگا تھا۔‘‘ منوج کمار کی طبیعت میں اس حادثہ کے بعد انکساری اور عاجزی آگئی تھی۔ ان کے اپنے رفقاء کے ساتھ ہمدردی کا رویہ نہایت نرم ہوگیا۔ ان کی ہمت، ثابت قدمی اور شکست نہ ماننے کا ثمر انہیں ۱۹۶۲ء میں ملا، جب انہوں نے ایک نہیں بلکہ ۲؍ بہترین فلموں کے ساتھ خود کو بطور چاکلیٹی ہیرو منوا یا۔ ’ہریالی اور راستہ‘ اور ’شادی‘جیسی خوبصورت فلموں کے ذریعے انہوں نے بالآخر وہ مقام پالیا جس کا خواب انہوں نے دلیپ کمار کی ’شبنم‘ دیکھنے کے بعد آنکھوں میں بُننا شروع کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہ دیکھا۔ ایک کے بعد ایک کامیاب فلمیں منظر عام پر آئیں ۔ ’نقلی نواب‘، ’گھر بساکے دیکھو‘، ’وہ کون تھی‘ اور سب سے بڑھ کر عظیم انقلابی رہنما بھگت سنگھ کی زندگی پر مبنی فلم ’شہید‘۔ اس فلم میں انہوں نے بھگت سنگھ کے کردار میں حقیقت کا رنگ بھر دیا تھا۔
اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری اس فلم سے بے انتہا متاثر ہوئے۔ انہوں نے ’شہید‘ کی ٹیم سے دہلی میں ملاقات کرکے منوج کمار سے سرکاری نعرے ’جے جوان، جے کسان‘ پر مبنی فلم بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ منوج کمار نے ان کی اس خواہش کو چیلنج کے طور پر قبول کرلیا۔ ’جے جوان، جے کسان‘ کے نعرے نے ہندی سنیما کو ایک نیا رنگ دیا، ایک نئی راہ دکھائی۔ اس نعرے پر مبنی منوج کمار کی مشہور فلم ’اپکار‘ نے خوبصورت ہدایتکاری، اداکاری، نغموں اور اسکرین پلے کے سبب ہندی سنیما میں ایک مخصوص مقام بنایا جو بالی ووڈ کی تاحال ۵۰؍ بہترین فلموں میں سے ایک گنی جاتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے جتنی بھی فلموں کی ہدایتکاری کیں ،ان میں حب الوطنی کا رنگ چھایا رہا۔
آج منوج کمار فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوکر سبکدوشی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ۲۰۱۵ء فلمی صنعت نے ان کی لازوال خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ سے نوازا، جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں ۔