• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

منوج کمار اپنی فلموں کی کہانیاں خود اردو میں قلمبند کرتے ہیں

Updated: July 24, 2023, 3:09 PM IST | Mumbai

بالی ووڈ فلم انڈسٹری میں منوج کمار کا نام ایسے عظیم فنکاروں کی فہرست میں شامل ہےجنہوں نےبے مثال اداکارانہ صلاحیت سے ناظرین کے دلوں میں اپنا ایک مخصوص مقام بنایا ہے۔منوج کمارکی پیدائش ۲۴؍جولائی ۱۹۳۷ءکو پاکستان کے ایبٹ آباد شہر میں ہوئی تھی۔

Manoj Kumar. Photo : INN
منوج کمار۔ تصویر : آئی این این

بالی ووڈ فلم انڈسٹری میں منوج کمار کا نام ایسے عظیم  فنکاروں کی فہرست میں شامل ہےجنہوں نےبے مثال اداکارانہ صلاحیت سے ناظرین کے دلوں میں اپنا ایک مخصوص مقام بنایا ہے۔منوج کمارکی پیدائش ۲۴؍جولائی ۱۹۳۷ءکو پاکستان کے ایبٹ آباد شہر میں ہوئی تھی۔ ان  کا اصل نام ہر ی کرشن گوسوامی ہے۔ انہوں نے  نہ صرف فلم سازی بلکہ ہدایت کاری،اسٹوری رائٹر اور مکالمہ نگاری      سےناظرین کے دلوں میں اپنی ایک خاص شناخت قائم کی۔منوج کمار نےتقریباً ۵۰؍فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
 ۱۹۵۷ء سے ۱۹۶۲ءتک منو ج کمار فلمی صنعت میں اپنا مقام بنانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور آخرکار ان کی جدوجہد رنگ لائی اور فلم ’’فیشن‘‘ سے انھوں نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا۔اس کے بعد انہیں جو بھی کردار ملا اسے وہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے گئے۔لیکن ان کی کچھ فلمیں ایسی بھی  ہیں ،جس میں وہ بحیثیت اداکار، ہدایت کار،پروڈیوسر،اسکرپٹ رائٹر نظر آئے۔ان کی متعدد فلم یںایسی ہیں جنہوں نے منوج کمار کو شہرت کی  بلندیوں تک پہنچا دیا۔  ان فلمو ں میں اپکار،شور،روٹی کپڑااور مکان، سنتوش، پورب پچھم، کل یگ اوررامائن ،کرانتی، جئے ہند،پینٹربابو اورکلرک وغیرہ شامل ہیں۔
 منوج کمار کی فنکاری کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی فلموں کی کہانیاں خود اردو میں قلم بند کرتے ہیں اس کےعلاوہ  وہ ایک اچھے شاعربھی ہیں۔ان کے والد پنڈت ہربنس لال گوسوامی اردو فارسی کے ایک نامور شاعر تھے۔ان کے کلام کا جلوہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب وہ صرف پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔
 ان کی ہمت، ثابت قدمی اور شکست نہ ماننے کے جذبہ کا پھل انہیں ۱۹۶۲ء میں ملا جب انہوں نے ۲؍بہترین فلموں کےساتھ خود کو بطور چاکلیٹی ہیرو کے منوا یا۔’ہریالی اور راستہ‘ اور’شادی‘ جیسی خوبصورت فلموںکے ذریعےانہوں نے بالآخر وہ مقام پالیا جس کاخواب انہوں نےدلیپ کمار کی ’شبنم‘ دیکھنے کے بعدآنکھوں میں سجانا شروع کیاتھا۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک کے بعد ایک کامیاب فلمیں منظرعام پر آئیں۔ ان میں ’نقلی نواب‘،’گھر بسا کے دیکھو‘ ، ’وہ کون تھی‘  اور سب سے بڑھ کر عظیم انقلابی  بھگت سنگھ کی زندگی پر مبنی فلم ’شہید‘ شامل ہیں۔شہید میں انہوں نے حقیقی بھگت سنگھ بن کر دکھادیا۔اس وقت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری اس فلم سے کافی  متاثر ہوئے۔ انہوں نے ’شہید‘ کی ٹیم سے دہلی میں ملاقات کرکے منوج کمار سے سرکاری نعرے ’جے جوان، جے کسان‘ پر مبنی فلم بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ منوج کمار نے ان کی اس خواہش کو چیلنج کے طور پر قبول کرلیا۔بس پھر کیا تھا ، ممبئی پہنچتے پہنچتےان کے ذہن میں فلم کا خاکہ بن چکا تھا۔ اس خاکے کو فلم کا روپ دینے میں انہیں مزید۲؍سال لگے۔ ان دوسابرسوںمیں ’ہمالیہ کی گود میں‘، ’دوبدن‘ اور ’پتھر کے صنم‘ جیسی سدا بہار فلموں کے ذریعے وہ فلم بینوں کے دل و دماغ میں مقام بنا چکے تھے۔
 جے جوان جے کسان ، فلم نے ہندی سینما کو ایک نیا رنگ دیا، ایک نئی راہ دکھائی۔اس کے بعدان کی معروف فلم اپکارنےخوبصورت ہدایت کاری، اداکاری،نغموں اور اسکرین پلے کے سبب ہندی سینما میں ایک مخصوص مقام بنایا جو بالی ووڈ کی تاحال ۵۰؍ بہترین فلموں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔فلم’ اپکار‘ نےایک نئے منوج کمار کو  یعنی ’بھارت کمار‘ کو جنم دیا۔آج منوج کمار فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوکر ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔فلمی صنعت نےان کی لازوال خدمات کا اعتراف کر کے انہیں ہندی فلم انڈسٹری کےسب سے بڑے اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘سےنوازا، جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK