غلام حیدر فلموں کے ابتدائی دور کے موسیقار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انہوں نےشمشاد بیگم، زینت بیگم، نورجہاں اور لتا منگیشکر سمیت کئی مشہور و معروف گلوکاراؤں کو فلمی صنعت سے متعارف کروایا۔
EPAPER
Updated: November 09, 2024, 11:32 AM IST | Mumbai
غلام حیدر فلموں کے ابتدائی دور کے موسیقار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انہوں نےشمشاد بیگم، زینت بیگم، نورجہاں اور لتا منگیشکر سمیت کئی مشہور و معروف گلوکاراؤں کو فلمی صنعت سے متعارف کروایا۔
غلام حیدر فلموں کے ابتدائی دور کے موسیقار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ انہوں نے شمشاد بیگم، زینت بیگم، نورجہاں اور لتا منگیشکر سمیت کئی مشہور و معروف گلوکاراؤں کو فلمی صنعت سے متعارف کروایا۔ ماسٹر غلام حیدر۱۹۰۶ء میں حیدرآباد، سندھ میں پیدا ہوئے۔ واضح رہے کہ یہ علاقہ اس وقت انگریزوں کے زیر قیادت ہندوستان کا حصہ تھا لیکن اب یہ پاکستان کاحصہ ہے۔انٹرمیڈیٹ امتحان پاس کرنے کے بعد انہیں ڈینٹل کالج میں داخلہ دلادیا گیا اور یہاں سے تعلیم مکمل کرکے وہ ایک ڈینٹسٹ بن گئے۔ لیکن ابتدا ہی سے انہیں ہارمونیم بجانے سے بڑی دلچسپی تھی۔ اس لئے انہوں نے بابو گنیش لال سے موسیقی کی باریکیاں سیکھنا شروع کردیا۔ موسیقی کے شوق کے سبب انہوں نے ڈینٹسٹ کے طور پر اپنا کریئر چھوڑ دیا جس کیلئے انہیں اپنے خاندان کی تنقیدوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے کلکتہ میں الفریڈ تھیٹریکل کمپنی اور الیگزینڈر تھیٹریکل کمپنی میںپیانو بجانا شروع کردیا۔اس دوران انہیں ہندوستان کے مختلف شہروں کےسفراور کئی اہم موسیقاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔۱۹۳۲ءمیں وہ لاہور کی ایک ریکارڈنگ کمپنی جینو فون سےمنسلک ہوگئے۔اس ادارے سے استاد جھنڈے خان، پنڈت امرناتھ اور جی اے چشتی بھی منسلک تھے۔ ماسٹر غلام حیدر کچھ عرصہ استاد جھنڈے خان کے معاون بھی رہے۔اس کے بعد وہ لاہور کے پنچولی اسٹوڈیو سے وابستہ ہوگئے اور اس وقت کی مشہور گلوکارہ امرائو ضیاء بیگم کیلئے موسیقی ترتیب دی۔ ۱۹۳۳ءمیں اے آر کاردار کی فلم سورگ کی سیڑھی سےان کے فلمی سفر کا باضابطہ آغاز ہوا، اس کے بعدانھوں نےفلم مجنوں کی موسیقی ترتیب دی، تاہم ان کی شناخت کا سبب فلم ساز اور ہدایت کار دل سکھ پنچولی کی فلم ’گل بکاؤلی‘ بنی جو ۱۹۳۸ءمیں نمائش کیلئے پیش کی گئی تھی۔اس کے بعد انھوں نے لاہور میں بننے والی مزیدکئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں یملا جٹ،خزانچی،چودھری اور خاندان کے نام شامل ہیں۔۱۹۴۴ءمیں وہ ہدایت کار محبوب خان کی دعوت پربمبئی منتقل ہو گئے۔بمبئی کے قیام کے دوران ان کی جن فلموں نےکامیابی حاصل کی ان میں ہمایوں، چل چل رے نوجوان، بیرم خان، جگ بیتی، شمع، مہندی، مجبور اور شہید کے نام سرفہرست ہیں۔تقسیم ہند کےبعد ۱۹۴۸ءمیں ماسٹر غلام حیدر واپس لاہور چلےگئے۔وہاں انھوں نے فلم شاہدہ، بےقرار، اکیلی، غلام اور گلنار سمیت۷؍فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی آخری فلم گلنار تھی جو ان کی وفات سے۳؍ روز قبل ریلیز ہوئی تھی۔ ماسٹر غلام حیدر کا شمار رجحان ساز موسیقاروں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے برصغیر پاک و ہند کی فلمی موسیقی کو ایک نیا رنگ دیا۔ وہ پہلے موسیقار ہیں جنھوں نےپنجاب کی لوک دھنوں کو اپنے گیتوں میں استعمال کیا۔انھوں نے کئی نامور گلوکاراؤں کو فلمی صنعت سے متعارف کروایا جن میں زینت بیگم، شمشاد بیگم، ملکہ ترنم نور جہاں اور لتا منگیشکر کے نام سرفہرست ہیں۔ یہ ماسٹر غلام حیدر ہی تھے جنھوں نے شمشاد بیگم کو صرف ۱۲؍سال کی عمر میں متعارف کروایا جو بعد ازاں ہندوستان کی پہلی نامور فلمی گلوکارہ کے طور پر سامنے آئیں۔ شمشاد بیگم چونکہ اس خطے کی پہلی پلے بیک گلوکارہ تھیں اسی لیے ان کے بعد آنے والی گلوکاراؤں، جن میں نورجہاں اور لتا منگیشکر بھی شامل تھیں، نے شمشاد بیگم کے انداز سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے اپنے لازوال انداز گائیکی کی بنیاد رکھی۔ماسٹر غلام حیدر گلے کے کینسر کی وجہ سے ۹؍ نومبر ۱۹۵۳ءکو محض ۴۵؍ سال کی عمر میںلاہور میں انتقال کرگئے۔