محبوب اسٹوڈیو فلمی دیوانوں کیلئے ہردور میں کسی اہم مقام سے کم نہیں رہا جس کے داخلی دروازے کے اردگردبھاری بھیڑ ہوتی ہے جن میں بیشتر دیگر شہروں سے آئے ہوئے فلمی دیوانے ہوتےہیں۔ جن کا مقصد اپنے پسندیدہ فلمی ستاروں کی ایک جھلک پانا ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: May 28, 2024, 8:55 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
محبوب اسٹوڈیو فلمی دیوانوں کیلئے ہردور میں کسی اہم مقام سے کم نہیں رہا جس کے داخلی دروازے کے اردگردبھاری بھیڑ ہوتی ہے جن میں بیشتر دیگر شہروں سے آئے ہوئے فلمی دیوانے ہوتےہیں۔ جن کا مقصد اپنے پسندیدہ فلمی ستاروں کی ایک جھلک پانا ہوتا ہے۔
محبوب اسٹوڈیوفلمی دیوانوں کیلئےہردورمیں کسی اہم مقام سے کم نہیں رہا جس کے داخلی دروازےکے اردگردبھاری بھیڑ ہوتی ہے جن میں بیشتر دیگر شہروں سے آئے ہوئے فلمی دیوانے ہوتےہیں۔ جن کا مقصد اپنے پسندیدہ فلمی ستاروں کی ایک جھلک پانا ہوتا ہے۔ انہیں امید ہوتی ہے کہ یہی ایک دروازہ ایسا ہے جو کھلے گا تو کوئی نہ کوئی ستارہ باہر آئے گا۔ یہ ہے فلمی دنیا میں فلمی ستاروں اورفلمی شوٹنگ کا مرکز محبوب اسٹوڈیو جس کے داخلی دروازے ک پیچھے بالی ووڈ کی ایسی ایسی کہانیاں ہیں جو کسی نہ کسی فلمی ستارے کی زندگی سے جڑی ہیں۔
اس اسٹوڈیو کو قائم کرنے والے محبوب خان بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے جنہوں نے ایسی فلمیں بنائیں جو لازوال ثابت ہوئیں اور آج بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ہندوستانی فلمی صنعت کے اس عظیم فلمساز کی پیدائش ۹؍ستمبر ۱۹۰۷ءکو گجرات کے شہر بلی موریا میں ہوئی تھی، محبوب خان کاتھیٹر اور فلم کا جنون اس حد تک بڑھا کہ وہ گھر سے بھاگ کر ممبئی آگئے۔ یہاں انہوں نے امپریل فلم کمپنی سے اپنے کریئرکی ابتداءکی۔ فلمی دنیا میں وہ مار دھاڑ اور طلسماتی فلموں کا دور تھا۔ محبوب خان نےبھی اپنی ابتدائی فلمیں اسی انداز میں بنائیں۔ جن میں ’الہلال:ججمنٹ آف اللہ‘ اور ’علی بابا چالیس چور‘شامل تھیں لیکن یہ ان کی منزل نہیں تھی۔ وہ فلموں کو بامقصد میڈیا کے طور پر دیکھتے تھے اور اسی لئے انہوں نے فلم ’ایک ہی راستہ‘ اور اس کے بعد چند ایسی فلمیں بنائیں جن میں سماج کے سلگتے مسائل، امیروں کے ذریعہ غریبوں کا استحصال اور سماج میں عورت کے مقام کو اجاگر کیا۔ ’جاگیردار‘، ’بہن‘، ’روٹی‘ اور ’عورت‘ ایسی ہی فلمیں تھیں۔ بمبئی فلم نگری میں سب سے پہلی ٹیکنی کلر فلم ’آن‘ محبوب خان نےہی بنائی۔
فلم’امر‘میں دلیپ کمار، مدھو بالا اور نمی جیسے اداکار شامل ہوئے۔ نوشاد کی موسیقی میں بنی فلم کے نغمے بہت مقبول ہوئے لیکن فلم کو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی کیونکہ فلم میں دلیپ کمار کا کردار منفی دکھایا گیا۔ محبوب خان نے اس دور میں ایسی ہمت دکھائی جب ناظرین ہیروکا منفی کردار پسند نہیں کرتے تھے۔ اُن کی ہدایتکاری میں بنائی گئی فلم’مدر انڈیا ‘ کو شاہکار فلم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ فلم کئی معنوں میں ہندوستانی فلمی صنعت کی یادگار فلم ثابت ہوئی۔ مدر انڈیا وہ پہلی فلم تھی جوغیرملکی زبان کی فلموں کی حیثیت سے آسکر ایوارڈکیلئے نامزد ہوئی۔ اس فلم میں ہندوستان کے دیہات کی صحیح تصویر پیش کی گئی۔ محبوب خان چونکہ دیہات میں رہ چکے تھے اس لیے انہیں وہاں کے تہوار، رہن سہن بول چال ہر بات سے واقفیت تھی اور یہی وجہ ہے کہ فلم نے ایک شاہکار کا روپ لے لیا۔ ’مدر انڈیا‘ کے بعد محبوب خان نے’سن آف انڈیا‘ بنائی جو زیادہ متاثر کن ثابت نہیں ہو سکی۔ اس فلم کے دو سال بعد اس صدی کے عظیم فلمساز اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ ۲۰۰۷ء میں صد سالہ یوم پیدائش پر حکومت ہند نے ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ محبوب خان کو حکومت ہند نے ’’ہدایت کاراعظم ‘‘ کے اعزاز سے بھی نوازا۔