• Wed, 25 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

محمدرفیع: ایک گلوکار کے دامن میں کیا کیا تھا جس میں سے دیگر گلوکاروں نے کچھ نہ کچھ چن لیا

Updated: December 24, 2024, 3:21 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

  موسیقی سننے والےیا اس کی سمجھ بوجھ رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ گلوکاری کی آواز اور عام آوازمیں بہت فرق ہوتا ہے۔ کہنے سننے کی آواز اورگانے کی آواز مختلف ہوتی ہے۔

Mohammad Rafi. Photo: INN
محمد رفیع۔ تصویر: آئی این این

  موسیقی سننے والےیا اس کی سمجھ بوجھ رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ گلوکاری کی آواز اور عام آوازمیں بہت فرق ہوتا ہے۔ کہنے سننے کی آواز اورگانے کی آواز مختلف ہوتی ہے۔ عام آواز اگر نرم ا ور میٹھی ہو تو ضروری نہیں کہ گانے میں بھی آواز نرم اور میٹھی ہی ہوگی، یہ سخت اور ناگوار بھی ہوسکتی ہے۔ عام آواز اگر سخت اورناگوار ہے تو ضروری نہیں کہ گانےکے د وران بھی یہ سخت اور ناگوار ہی ہو، یہ نرم اور خوش کن بھی ہوسکتی ہے۔ آشا بھوسلےنے رفیع صاحب کی اسی پہلو سے تعریف کرتے ہوئےایک بار کہا تھا کہ رفیع صاحب نرم گو تھے لیکن جب وہ گاتے تھے توپہاڑ جیسی آواز معلوم ہوتی تھی۔ انڈین آئیڈل کے ایک سیزن میں اداکار جتیندر مہمان تھے۔ ان کے سامنے ایک کنٹیسٹنٹ نےرفیع صاحب کا گانا گایا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئےجتیندر نے کہاکہ رفیع صاحب کو سن کر لگتا تھاکہ کوئی نیک آدمی گانا گا رہا ہے۔ یعنی ان کی آواز کی یہ خوبی تھی۔ ریالٹی شو ایکس فیکٹر میں ایک مرتبہ ادت نارائن کوبطورمہمان مدعو کیاگیا۔ شومیں سونو نگم بھی موجود تھے۔ ادت نارائن کا استقبال کرتے ہوئےسونونگم نے کہا تھا کہ انڈسٹری میں دوہی سنگروں کی آواز انتہائی منفرد شناخت رکھتی ہے، ایک رفیع صاحب اور دوسرا اُدت نارائن۔ ادت نارائن نے جو رفیع صاحب سے گہری عقیدت رکھتے ہیں، یہ سن کرآسمان کی طرف سراٹھا کر مسکرادیا اور اس طرح اشارۃًرفیع صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:جب راجیش کھنہ کے رومانوی نغموں کا تذکرہ ہوگا تو محمد رفیع ہی کی آواز یاد آئے گی

رفیع صاحب کی آواز کیا تھی، اس پر تحقیق اورتبصرہ کرنے والے آج تک کررہے ہیں لیکن جہاں تک آواز کی نوعیت کی کا تعلق ہے تو یہ کہنے میں مضائقہ نہیں اس آواز میں ایک بزرگی تھی۔ رفیع صاحب سے جن کا بھی تعلق رہا ہے، یعنی ان سے میل جول رکھنے والے، ان کے متعلقین اوران کے ہم عصر گلوکار، سبھی نے انہیں نیک اورنرم دل انسان کہا ہے، سبھی نے انہیں خدا کا بندہ کہا ہے۔ بھگوان کاآدمی کہا ہے۔ معروف گلوکارسریش واڈکررفیع صاحب کی خصلت سے متاثرہوکر انہیں ’ولی‘تک کہہ چکے ہیں۔ رفیع صاحب کی آواز کے بارے میں کسی سے بھی پوچھا جائے وہ اسے منفرد ہی کہے گا ۔ 
 کسی بھی فیلڈ یا شعبے میں ایک پیٹرن بنتا ہے، ایک وراثت بنتی ہےجویکے بعد دیگرے منتقل ہوتی ہے۔ صورت وشباہت، زبان وبیان، صلاحیت وقابلیت، آواز وانداز ہر چیز کہیں نہ کہیں اپنی وراثت وعلامت چھوڑتی ہے۔ رفیع صاحب کی آواز کے ساتھ بھی قدرتی طورپریہی ہوا، خود ان کی آواز میں پہلے کے ایل سہگل کا اثر تھا جو بعد میں پورے نئے آہنگ میں ڈھل گئی۔ رفیع صاحب کے بعدان کی آواز کا پہلو گلوکار انور میں نظر آیا، ایک پہلومحمد عزیز میں دکھائی دیا ، ایک پہلوشبیر کمارکے حصےمیں آیا، اس آواز کا ایک عنصرسونونگم کو بھی ملا، ایک انداز ایس پی بالا سبرامنیم تو ایک انداز ادت نارائن نے اپنالیا، ان سب گلوکاروں کو سن کررفیع صاحب کی ہی یاد آتی ہے۔ ایک گلوکارکے دامن میں کیا کیا تھا جس میں سے سب نے کچھ نہ کچھ چن لیا۔ ان سبھی نے رفیع صاحب کو ایک ادارہ مانا اور ان کے نغمے سن سن کریہ گلوکا ربنے۔ لگتا منگیشکر بلبل تھیں اوررفیع صاحب اپنے زمانے یعنی بالی ووڈ کے سنہرے دور کی روح تھے جیسا کہ موسیقار اے آررحمٰن نےایک مرتبہ تبصرہ کیا تھا اور اس سے بڑھ کر حقیقت اور کیاہوگی کہ ’جسم کو موت آتی ہے لیکن روح کو موت آتی نہیں ہے...‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK