• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مکیش ایک بہترین گلوکار کے ساتھ ہی ایک نرم دل اور دوست نواز انسان بھی تھے

Updated: July 21, 2024, 1:35 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

یش چوپڑہ سے مکیش کی گہری دوستی تھی،اسلئے بہت زور دینے کے بعد بھی فلم ’کبھی کبھی‘ میں اپنے گائے ہوئے نغمے ’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘ کا انہوں نے کوئی معاوضہ نہیں لیا تھا

Like Kundanlal Sehgal, Mukesh`s voice also does not sound like a voice coming from the throat, but that voice seems to come from the depths of the heart. Photo: INN
کندن لال سہگل کی طرح مکیش کی آواز بھی گلے سے نکلی آواز نہیں لگتی بلکہ وہ آواز دل کی گہرائیوں سے نکلتی محسوس ہوتی ہے۔ تصویر : آئی این این

وہ ۲۲؍جولائی ۱۹۲۳ء کا دن تھا جب دہلی کے ایک متمول خاندان میں ایک ایسے شخص کا جنم ہوا، جس نے آواز کی دُنیا میں ایک درد بھری اور انتہائی نرم آواز کو جنم دیا۔ یہ درد بھری آواز تھی مرحوم مکیش کی۔ 
 دہلی کے کائستھ خاندان میں پیدا ہوئے مکیش چندر ناتھ نے میٹرک تک کی تعلیم دہلی میں ہی حاصل کرنے کے بعد اُس وقت کے مطابق کلرک بننے کی خواہش کا اظہار کیا مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیونکہ قدرت کو تو ان سے کچھ اور ہی کام لینا مقصود تھا، جس کیلئے وہ صرف ۱۸؍ برس کی عمر میں ۱۹۴۰ء میں بمبئی کی فلمی دُنیا میں اپنی قسمت آزمانے چلے آئے تھے۔ 
 ہوا یوں تھا کہ دہلی میں ان کی بہن کی شادی تھی جس میں لڑکے والوں کی طرف سے اپنے زمانے کے مقبول فلم اداکار موتی لال آئے ہوئے تھے۔ اُس شادی میں مکیش نے ایک گیت سنایا تھا جسے سن کر موتی لال بہت متاثر ہوئےتھے۔ پروگرام کے بعد انہوں نے خاص طور پر مکیش سے ملاقات کی اور کہا کہ ’’تم یہاں دہلی میں کیا کر رہے ہو؟ اتنی اچھی آواز کو تو بمبئی کی فلمی دنیا میں ہونا چاہئے تھا۔ ‘‘ اس وقت موتی لال کی اس بات کو مکیش نے صرف اپنی تعریف ہی سمجھا تھا مگر موتی لال نے یہ بات صرف مکیش کو خوش کرنے کیلئے نہیں کہی تھی بلکہ وہ خود مکیش کو دہلی سے بمبئی لے گئے تھے، جہاں انہوں نے ۱۸؍برس کے مکیش کو اپنے بیٹے کی طرح اپنے ساتھ ہی رکھا۔ دراصل ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، اسلئے انہوں نے ایک باپ کی ساری شفقت مکیش پر انڈیل دی۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۶ء میں ۲۴؍برس کی عمر میں مکیش کی شادی بھی موتی لال ہی نے کرائی تھی۔ 
 یہ مکیش کے بمبئی میں جدوجہد کے دن تھے اور وہ فلموں میں اداکاری کیلئے کام کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ حالانکہ ان کے سر پر موتی لال جیسی قدآور شخصیت کا سایہ موجود تھا۔ کوئی ڈھنگ کا رول نہیں ملا تو انہوں نے فلم ’نردوش‘ کا اپنا رول چھوڑکر مکیش کو دلوایا تھا۔ فلم ’نردوش‘ کی ہیروئن اپنے زمانے کی مقبول ترین فلم اداکارہ نلنی جیونت تھیں مگر یہ فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ہو گئی تھی۔ اس طرح مکیش کا اداکار بننے کا وہ خواب جو انہوں نے بمبئی آکر اپنی آنکھوں میں سجایا تھا، بکھر کر رہ گیا۔ 
 ’نردوش‘ ناکام ہو گئی تھی اور مکیش بھی اداکار کی حیثیت سے بدقسمت ثابت ہوئے تھے مگر اسی ’نردوش‘ کی وجہ سے رنجیت مووی ٹون نے مکیش کو تین سال کیلئے اپنا پابند کر لیا تھا۔ ان تین برسوں میں رنجیت کی کئی فلموں میں مکیش نے اس زمانے کے کئی مشہور فنکاروں کے ساتھ کام کیا مگر نہ جانے کیوں ان میں سے کوئی بھی فلم پوری نہ بن سکی اور اگر بنی بھی تو وہ پردۂ سیمیں سے ملاقات نہ کر سکی۔ اس طرح اداکار کے طور پر مکیش بُری طرح ناکام ہو گئے تھےمگر اُنہیں دنوں ایک اور فن کیلئے مکیش مقبولیت حاصل کرتے جا رہے تھے۔ یہ فن تھا گلوکاری کا۔ نجی محفلوں میں گاتے گاتے مکیش نے کافی شہرت حاصل کر لی تھی۔ البتہ فلموں میں انہیں باقاعدہ گانے کا موقع ۱۹۴۳ء میں فلم ’مورتی‘ میں ملا۔ اسی برس مکیش کا رنجیت مووی ٹون سے معاہدہ بھی پورا ہوچکا تھا۔ 
 ۱۹۴۷ء میں اُن کی تقدیر نے ایک نیا موڑ لیا۔ مشہور موسیقار انل بسواس نے اپنی ہدایت میں مکیش سے فلم ’پہلی نظر‘ کیلئے ایک گیت ’دل جلتا ہے تو جلنے دے‘ ریکارڈ کرایا۔ یہ گیت اپنے آپ میں تو بے حد مقبول ہوا ہی، ساتھ ہی مکیش کی پہچان بھی بن گیا۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ تو اداکار کے طور پر مکیش کی پہلی فلم ’پہلی نظر‘ ہی بتاتے ہیں، جو غلط ہے۔ اس گیت سے مکیش کی پہچان تو بن گئی مگر ان کا کریئر دھیمی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا لہٰذا انہوں نے ۱۹۵۳ء میں بلبلِ ہند ثریا کو ہیروئن لے کر ایک فلم ’معشوقہ‘ بنانے کا فیصلہ کر ڈالا۔ یہ فلم نمائش کے ساتھ ہی فلاپ بھی ہو گئی۔ مکیش کا دل ٹوٹ گیا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری، اور ایک نئی فلم ’انوراگ‘ بنانی شروع کر دی۔ اس فلم کی موسیقی بھی خود مکیش ہی نے ترتیب دی تھی مگر یہ فلم کسی وجہ سے نمائش کیلئے پیش نہیں کی جا سکی۔ اس درمیان مکیش نے ایک اور فلم’ملہار‘ بھی بنائی تھی جو ناکام ہو چکی تھی۔ اس طرح فلمساز اور اداکار کی حیثیت سے مکیش بُری طرح ناکام ہو چکے تھے۔ 
 مکیش کا دوسرا مقبول ترین گیت آیا ’’زندہ ہوں اس طرح کہ غم زندگی نہیں ‘‘ اور اس کے ساتھ ہی راج کپور سے مکیش کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی اور مکیش نے اس دوستی کو مرتے دم تک نبھایا بھی۔ اس کے ساتھ ہی آواز کی دنیا میں مکیش نے اپنا ایک الگ مقام پیدا کر لیا۔ فلم ’ملن‘ کا گیت ’’ساون کا مہینہ، پون کرے شور‘ گاکر مکیش اعلیٰ قسم کے گلوکاروں کی فہرست میں آگئے تھے اور ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پیچھے مڑکر دیکھنے کی فرصت ان کے پاس نہیں رہی تھی۔ 
 ۲۶؍برس فلمی دنیا میں رہتے ہوئے مکیش نے لگ بھگ دس ہزار گیتوں کو اپنی آواز میں ڈھالا تھا اور اس میدان میں کئی بڑے انعام بھی حاصل کئے تھے۔ ۱۹۵۷ء میں فلم ’اناڑی‘ کا گیت ’’سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہوشیاری‘‘، ۱۹۷۰ء میں فلم ’پہچان‘ کا گیت ’’یہ گنگا رام کی سمجھ نہ آئے‘‘، ۱۹۷۲ء میں ’بے ایمان‘ کا گیت ’’جے بولو بے ایمان کی‘‘ کیلئے انہوں نے فلم فیئر ایوارڈ بھی حاصل کئے۔ ۱۹۷۵ء میں فلم ’رجنی گندھا‘ کے گیت ’’کئی بار یوں بھی ہوتا ہے، یہ جو من کی سیما ریکھا ہے‘‘ کیلئے مکیش کو نیشنل ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ 
 اپنے آخری دنوں میں مکیش نے تلسی داس کی تخلیق ’رام چرت مانس‘ کو اپنی آواز میں ریکارڈ کرانا شروع کیا تھا اور انتقال سے کچھ ہی دنوں قبل ’رام چرت مانس‘ کا آٹھواں اور آخری ایل پی ریکارڈ کرا دیا تھا۔ 
 مکیش ایک بہترین گلوکار کے ساتھ ساتھ ایک نرم دل انسان بھی تھے۔ وہ سب کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے۔ جہاں آج کل کے گلوکار صرف دولت حاصل کرنے کیلئے گاتے ہیں، وہیں مکیش ایک ایسے انسان تھے جن کی زندگی فن کی خدمت کیلئے وقف تھی۔ وہ اکثر اوقات میں غریبوں کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے۔ سردی کے دنوں میں مکیش اپنی گاڑی میں ۲۰۰؍کمبل رکھ کر نکل پڑتے تھے اور فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے غریب لوگوں میں تقسیم کرتے چلے جاتے تھے۔ 
 حسرتؔ جئے پوری کا لکھا پہلا گیت ’چھوڑ گئے بالم‘ مکیش نے ہی گایا تھا۔ حسرتؔ جئے پوری کے ساتھ فلم ’تیسری قسم‘ کے گیت ’’دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی‘‘ کی ریہرسل مکیش فرش پر بیٹھے کر رہے تھے۔ حسرتؔ جئے پوری صوفے پر بیٹھے تھے۔ حسرتؔ نے زور دے کر مکیش سے کہا ’’مکیش جی، آپ بھی صوفے پر بیٹھ جائیے۔ ‘‘ مکیش کہنے لگے۔ ’’ہم سب کو ایک دن زمین پر ہی مرنا ہے۔ کوئی بھی کرسی اپنے ساتھ لے کر نہیں جائے گا۔ ‘‘ یہ تھی مکیش کی سادگی کی ایک مثال۔ 
 ۱۹۴۷ء میں فلم ’آگ‘ میں مکیش نے ’’زندہ ہوں اس طرح کہ غم زندگی نہیں ‘‘ گیت گایا تھا۔ تب سے راج کپور کے خاندان کے ایک فرد کی حیثیت مکیش کو حاصل تھی اور آرکے فلمز سے ماہانہ تنخواہ مکیش کو ملتی تھی۔ راج کپور ان کو بہت عزت دیتے تھے۔ فلم ’ستیم شیوم سندرم‘ کی تکمیل کے دوران مکیش خود راج کپور کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ ’’راج صاحب! کیا اس فلم میں میرے لئے کوئی گیت نہیں ہوگا؟‘‘ تو راج کپور نے صرف مکیش کا دل رکھنے کیلئے ’’چنچل شیتل‘‘ والاگیت ریکارڈ کرایا تھا۔ 
 یش چوپڑہ سے بھی مکیش کی گہری دوستی تھی۔ فلم ’کبھی کبھی‘ میں مکیش نے ایک گیت گایا تھا۔ ’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘۔ یش چوپڑہ نے کافی زور دیا مگر مکیش نے اس ایک گیت کا کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ یش چوپڑہ کی شادی میں بھی مکیش خود گیت گانے گئے تھے۔ 
 مقبول ترین گلوکار کندن لال سہگل کی طرح مکیش کی آواز بھی گلے سے نکلی آواز نہیں لگتی بلکہ وہ آواز دل کی گہرائیوں سے نکلتی محسوس ہوتی ہے۔ دل کے انتہائی جذباتی تاثرات جیسے ان کی آواز میں تیرنے لگتے ہیں اور ایک میٹھا سا نشیلا درد انگڑائیاں لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کی گلوکاری میں کہیں کوئی گھمائودار موڑ نہیں ہے۔ تانوں، مُرکیوں اور آروہ کی لمبی کھینچاتانی بھی نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے تو وہ صرف ایک سُریلا سا سپاٹ پن... سننے والوں کو صرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کانوں سے ان کی آواز نہیں سن رہے بلکہ دل کی عمیق گہرائیوں سے اس میٹھی آواز کا نشہ اپنے اندر اتار رہے ہیں۔ ایک بندھے بندھائے میٹر کے اندر جذبات کی گہری سے گہری ادائیگی مکیش کی ایسی خوبی رہی جو اُن کے ساتھ ہی چلی گئی۔ اور پھر یوں ہوا کہ ۲۷؍اگست ۱۹۷۶ء کو وہ میٹھی، نرم اور دل کو چھونے والی آواز ہم سے روٹھ گئی۔ وہ امریکہ میں تھے کہ موت نے آکر درِ دل پر دستک دی اور مکیش اپنے پرستاروں سے یہ کہتے ہوئے رخصت ہو گئے:
اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK