• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مکیش کی دردبھری آواز آج بھی جذباتی کردیتی ہے

Updated: July 22, 2024, 12:09 PM IST | Mumbai

مکیش نے جس وقت بطور گلوکار گائیکی شروع کی تو انہیں کافی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اس وقت محمد رفیع اور طلعت محمودجیسےقابل گلوکار چھائے ہوئے تھے۔

Mukesh with Surya in a scene from the movie Maashuqa. Photo: INN.
فلم معشوقہ کے ایک منظر میں ثریا کے ساتھ مکیش۔ تصویر: آئی این این۔

جب بھی فلمی گیتوں کی بات ہوتی ہے تو محمد رفیع کے بعد سب سے زیادہ مکیش کو پسند کیا جاتا ہےاور ان کے گیت خصوصی طور پر درد بھرے گیت آج بھی لوگوں کو مغموم کردیتے ہیں۔ آج انہی مکیش کی ۱۰۱؍ویں سالگرہ ہے۔ جی ہاں مکیش ۲۲؍جولائی ۱۹۲۳ء کودہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پیدائشی نام مکیش چندماتھر تھا لیکن وہ پوری دنیا میں مکیش کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں۔ 
مکیش نے۱۹۴۱ءمیں فلم ’نردوش ‘ سے بطور اداکار اپنے کریئرکا آغازکیا، اس فلم میں انہوں نےایک گیت بھی گیا۔ اس کے بعد بھی انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کی۔ یوں تو مکیش اداکار بننےکیلئے ہی بمبئی آئے تھے اور انہیں موسیقی کا زیادہ علم بھی نہیں تھا لیکن جب ان کے ایک رشتہ دار موتی لال نےانہیں ایک شادی میں گاتےہوئے سنا تو انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ اس آواز میں کافی دم ہے۔ موتی لال ہی انہیں بمبئی لے کر آئے اور انہیں پنڈت جگن ناتھ پرساد کی سرپرستی میں موسیقی کی تربیت دلانے کا بھی انتظام کیا۔ 
مکیش ایک ایسے گلوکار تھےجنہیں پشہ ور گلوکاروں کی قطار میں سب سےپیچھے رکھا گیا۔ معروف گلوکار منا ڈے کے لئے وہ ہمیشہ ایک شوقیہ گلوکارہی رہے جبکہ موسیقار سلیل چودھری انہیں ایسا گلوکار مانتےرہے جن کی آواز میں مختلف خیالات کی گائیکی کوایک ساتھ پرویا جا سکتا تھا۔ مکیش نے جس وقت بطور گلوکار گائیکی شروع کی تو انہیں کافی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ اس وقت محمد رفیع اور طلعت محمودجیسےقابل گلوکار چھائے ہوئے تھے۔ 
مکیش نےتقریباً ۳۰۰؍فلموں کیلئے۱۲۰۰؍کےقریب گیت گائے، ان یادگار ہندی فلموں میں جس دیش میں گنگا بہتی ہے، سنگم، ملن، تیسری قسم، پہچان، شور، روٹی کپڑا اور مکان اور کبھی کبھی مشہور ہے۔ ان کےمقبول گیتوں میں ’ساون کا مہینہ پون کرے سور‘، ’میری تمناؤں کی تقدیر تم سنوار دو‘، ’بول میری تقدیر میں کیا ہے مرے ہم سفر اب تو بتا‘، ’بول رادھا بول سنگم ہوگا کہ نہیں ‘، ’زبان پہ درد بھری داستاں چلی آئی ‘، ’جانے کہاں گئے وہ دن ‘، ’میرا جوتا ہے جاپانی ‘، ’کیا خوب لگتی ہو بڑی سندر دکھتی ہو‘، ’کسی راہ میں کسی موڑ پر ‘، ’اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، جینا اسی کا نام ہے ‘، ’دوست دوست نہ رہا پیار پیار نہ رہا ‘، ’جس گلی میں تیرا گھر نہ ہو بالما ‘، ’ایک پیار کا نغمہ ہے ‘، ’یہ میرا دیوانہ پن ہے ‘، ’کہیں دورجب دن ڈھل جائے ‘، ’محبوب میرے محبوب میرے ‘، ’پھول تمھیں بھیجاہے خط میں پھول نہیں میرا دل ہے ‘، ’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے ‘، ’جینا یہاں مرنا یہاں ‘، ’میں پل دو پل کا شاعر ہوں ‘، ’آوارہ ہوں ‘، ’چندن سا بدن‘، ’رمیاوستاویہ‘، ’سہانا سفر اور موسم حسیں ‘، ’سجن رےجھوٹ مت بولو‘، ’دنیا بنانے والے ‘، ’ہر دل جو پیار کرے گا‘، ’رک جا او جانے والے رک جا‘، ’دیوانوں سےیہ مت پوچھو‘، ’جنہیں ہم بھولنا چاہیں ‘، ’بڑے ارمانوں سے رکھا ہے بلم‘، وغیرہ شامل ہیں۔ 
مکیش کو۱۹۷۴ء میں فلم رجنی گندھا کے گیت ’’کئی بار یونہی دیکھا ہے‘‘کیلئے بہترین گلوکار کا نیشنل ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں ۴؍مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ بھی دیاجاچکاہے جس میں پہلا ایوارڈ ۱۹۵۹ء کی فلم اناڑی کے گیت’سب کچھ سیکھا ہم نے‘، دوسرا ۱۹۷۰ء کی فلم پہچان کیلئے ’سب سے بڑا نادان‘، تیسرا ایوارڈ ۱۹۷۲ء کی فلم بے ایمان کے گیت’جے بولو بے ایمان کی‘، اور چوتھا ایوارڈ ۱۹۷۶ء کی فلم کبھی کبھی کے گیت’کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے‘ کیلئے دیا گیا تھا۔ مکیش۲۷؍ اگست۱۹۷۶ءکو ڈیٹرائٹ، مشی گن، امریکہ میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے، وہ وہاں ایک کنسرٹ میں پرفام کرنےکے لیے گئے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK