اور پھر ایک دن نوشاد نے ہمت کرکے اپنے والد سے کہہ دیا کہ ’’آپ کو آپ کا گھر مبارک اور مجھے میری موسیقی‘‘ اس کے بعد وہ گھر چھوڑ کر ایک ڈراما کمپنی میں شامل ہوگئے اور اس کے ساتھ جےپور، جودھپور، بریلی اور گجرات جیسے بڑے شہروں میں گھومتے رہے۔
EPAPER
Updated: December 22, 2024, 6:36 PM IST | Mumbai
اور پھر ایک دن نوشاد نے ہمت کرکے اپنے والد سے کہہ دیا کہ ’’آپ کو آپ کا گھر مبارک اور مجھے میری موسیقی‘‘ اس کے بعد وہ گھر چھوڑ کر ایک ڈراما کمپنی میں شامل ہوگئے اور اس کے ساتھ جےپور، جودھپور، بریلی اور گجرات جیسے بڑے شہروں میں گھومتے رہے۔
۱۹۶۰ءمیں ریلیز ہوئی شاہکار فلم ’مغل اعظم‘ کی سحر انگیز موسیقی آج بھی اسی طرح مقبول ہے جیسی اُس وقت تھی جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی۔ آج کی نسل بھی اس کے نغمے سنتی اور گنگناتی ہے لیکن اس فلم کے موسیقارنوشاد نے پہلے اس میں موسیقی دینے سے انکار کردیاتھا۔
کہا جاتا ہے کہ مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف جب نوشاد کے گھر ان سے ملنے کیلئےگئے۔ وہ اس وقت ہارمونیم پر کوئی دھن تیار کررہے تھے، اسی وقت کے آصف نے۵۰؍ہزار روپوں کے نوٹوں کا بنڈل ہارمونیم پر پھینکا۔ نوشاد کو اس بات پر بے حد غصہ آیا اور نوٹوں کا بنڈل واپس کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا ان لوگوں کیلئے کرنا جو بغیر ایڈوانس فلموں میں موسیقی نہیں دیتے۔ میں آپ کی فلم میں موسیقی نہیں دوں گا۔ ‘‘ بعد میں کے آصف کی منت سماجت پر نوشاد نہ صرف فلم میں موسیقی دینے کیلئے تیار ہوئے بلکہ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ اس کیلئے انہوں نے پیسے بھی نہیں لئے۔
لکھنؤ کے ایک متوسط خاندان میں ۲۵؍دسمبر۱۹۱۹ء کو نوشاد کی پیدائش ہوئی۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی کی طرف مائل تھے۔ انہیں اپنے اس شوق کو پروان چڑھانےکیلئے اپنے والد کی ناراضگی بھی برداشت کرنی پڑتی تھی۔ ان کے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم گھر یا موسیقی میں سے کوئی ایک چیز منتخب کرلو۔ اسی دوران لکھنؤ میں ایک ڈراما کمپنی آئی اور نوشاد نے ہمت کرکے اپنے والد سے کہہ دیا کہ ’’آپ کو آپ کا گھر مبارک اور مجھے میری موسیقی‘‘اس کے بعد وہ گھر چھوڑ کر اس ڈرامہ کمپنی میں شامل ہوگئے اور اس کے ساتھ جےپور، جودھپور، بریلی اور گجرات جیسے بڑے شہروں میں گھومتے رہے۔
نوشاد کے بچپن کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ لکھنؤ میں بھوندومل اینڈ سنس کی موسیقی کے آلات کی ایک دکان تھی جسے موسیقی کے دیوانے نوشاد حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک بار دکان کے مالک نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ وہ یہاں کیوں کھڑے رہتے ہیں۔ نوشاد نے کہا کہ وہ ان کی دکان میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ نوشاد کا ارادہ تھا کہ وہ اسی بہانے موسیقی کے آلات پر ریاض کر سکیں گے۔ ایک دن دکان کے مالک نے انہیں ریاض کرتے ہوئے دیکھ لیا اور انہیں ڈانٹ لگائی کہ انہوں نے آلات گندے کردیئے لیکن بعد میں اس نے محسوس کیا کہ نوشاد بہت خوبصورت دھن بجا رہے تھے جس کے بعد اس نے نہ صرف انہیں موسیقی کے آلات تحفہ میں دیئے بلکہ ان کیلئے موسیقی سیکھنے کا انتظام بھی کردیا۔
۱۹۳۷ءمیں نوشاد پنے ایک دوست سے۲۵؍روپے بطور قرض لے کر موسیقار بننے کا خواب آنکھوں میں لئے ممبئی آگئےلیکن یہاں آکر انہیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ عالم یہ تھا کہ کئی راتیں انہیں فٹ پاتھ پر گزارنی پڑیں۔ اس دوران ان کی ملاقات فلم ساز اور ہدایتکار اے آر کاردار سے ہوئی، انہی کی سفارش پر نوشاد کو موسیقار حسین خان کے یہاں ۴۰؍ روپے فی ماہوار پرپیانو بجانے کا کام مل گیا۔ اس کے بعد انہوں نےموسیقار کھیم چندر پرکاش کے اسسٹنٹ کے طورپر بھی کام کیا۔ بطور موسیقار نوشاد کو ۱۹۴۰ء میں فلم پریم نگر میں پہلی بار۱۰۰؍روپے ماہوار پر کام کرنے کا موقع ملا۔ ۱۹۴۴ءمیں ریلیز ہوئی فلم ’رتن‘ میں ان کی موسیقی سے آراستہ نغمہ’انکھیاں ملا کے جیا بھرما کے چلے نہیں جانا‘ کی کامیابی کے بعد نوشاد۲۵؍ہزار روپے بطور محنتانہ لینے لگے اور اس کے بعدانہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔
نوشاد نے۶؍ دہائی کے اپنے فلمی کریئر میں تقریباً ۷۰؍ فلموں میں موسیقی دی ہے۔ اس طویل سفر میں انہوں نے سب سے زیادہ فلمیں نغمہ نگار شکیل بدایونی کے ساتھ کیں۔ ان کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ نوشاد کے پسندیدہ گلوکار کے طورپر محمد رفیع کا نام سب سے اوپر آتا ہے۔ انہوں نے شکیل بدایونی اور محمد رفیع کے علاوہ لتا منگیشکر، ثریا، اوما دیوی اور نغمہ نگارمجروح سلطان پوری کو بھی فلم انڈسٹری میں ممتاز مقام دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
نوشاد کی موسیقی سے آراستہ مشہور فلموں میں پریم نگر، بیجو باورا، آن، بابل، رتن، شاہ جہاں، دلاری، دیدار، درد، انداز، امر، مدر انڈیا، اڑن کھٹولا، کوہ نور، مغل اعظم، پالکی اور میرے محبوب قابل ذکر ہیں۔ نوشاد ایسے پہلے موسیقار تھے جنہوں نے پلے بیک سنگنگ کے میدان میں ساؤنڈ مکسنگ اور گانے کی ریکارڈنگ کو الگ رکھا۔ فلم موسیقی میں ایکورڈین کا سب سے پہلے استعمال بھی انہوں نے ہی کیاتھا۔ ہندی فلم انڈسٹری کے وہ پہلے موسیقار تھے جنہیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا اور یہ ایوارڈ انہیں ۱۹۵۳ء میں ریلیز ہوئی فلم بیجو باورا میں بہترین موسیقی کیلئے دیا گیالیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہیں ا س کے بعد کوئی فلم فیئر ایوارڈ نہیں ملا۔ ہندوستانی سنیما میں ان کی قابل ذکر خدمات کےلئے۱۹۸۲ء میں دادا صاحب پھالکےایوارڈ اور۱۹۹۲ء میں پدم بھوشن سے نوازا گیا۔ تقریباً چھ دہائی کے طیویل سفر میں اپنی موسیقی سے شائقین کا دل جیتنے والے موسیقار نوشاد ۵؍ مئی۲۰۰۶ء کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔