۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے ندا فاضلی کو شاعری ورثہ میں ملی تھی۔ ان کے گھر میں اُردو اور فارسی کے ديوان بھرے پڑے تھے۔
EPAPER
Updated: October 12, 2024, 12:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے ندا فاضلی کو شاعری ورثہ میں ملی تھی۔ ان کے گھر میں اُردو اور فارسی کے ديوان بھرے پڑے تھے۔
۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے ندا فاضلی کو شاعری ورثہ میں ملی تھی۔ ان کے گھر میں اُردو اور فارسی کے ديوان بھرے پڑے تھے۔ ان کے والد بھی شعر و شاعری میں دلچسپی لیا کرتے تھے اور ان کا اپنا شعری مجموعہ بھی تھا جسے ندا اکثر پڑھا کرتے تھے۔ ندا فاضلی نے گوالیار کالج سے ماسٹرز کی تعلیم مکمل کی اور اپنے خوابوں کو نئی شکل دینے کیلئے وہ ۱۹۶۴ء میں ممبئی آگئے۔ یہاں انہیں کئی مشکلات کا سامناکرناپڑا۔ اس درمیان انہوں نے ’دھرم يُگ‘ اور ’بلٹز‘ جیسے میگزین میں لکھنا شروع کر دیا۔
اپنی تحریرکے منفرد انداز سے ندا کچھ ہی عرصہ میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی دوران اُردو ادب کے کچھ ترقی پسند مصنفین اور شاعروں کی نظر ان پر پڑی جو ان کی صلاحیت سے کافی متاثر ہوئے تھے۔ ندا فاضلی کے اندر انہیں ایک اُبھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا اور انہوں نے ندا فاضلی کی حوصلہ افزائی کرنے اور ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی اور انہیں مشاعروں میں آنے کی دعوت دی۔ ان دنوں اُردو ادب کی تحریروں کی ایک حد مقرر تھی۔ ندا میرؔ اور غالبؔ کی تخلیقات سے کافی متاثر تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اُردو ادب کےبندھے ٹکے اُصولوں کو توڑ دیا اور اپنی شاعری کو ایک نئی شکل دی۔ اس درمیان ندا مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے جس سے انہیں ملک بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔
۷۰ء کے عشرے میں ممبئی میں اپنے بڑھتے ہوئےاخراجات کو دیکھ کر انہوں نے فلموں کیلئےگیت لکھناشروع کر دیا لیکن فلموں کی ناکامی کے بعد انہیں اپنا فلمی کریئر ڈوبتا نظر آیا۔ پھر بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ آہستہ آہستہ ممبئی میں ان کی شناخت قائم ہوتی گئی۔ تقریباً ۱۰؍سال تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کےبعد ۱۹۸۰ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’آپ تو ایسے نہ تھے‘ میں گلوکار محمد رفیع، ہیم لتا اور منهر ادھاس کی آواز میں الگ الگ گائےہوئے اپنے گیت ’تُو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے‘ کی کامیابی کے بعدندا کچھ حد تک نغمہ نگار کے طور پر فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد ندا کو کئی بہترین فلموں کی پیشکش ہوئی جن میں ’بیوی او بیوی‘ اور ’نذرانہ پیار کا‘ جیسی فلمیں شامل ہیں۔ اس درمیان انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اورکئی چھوٹی بجٹ کی فلموں میں بھی گیت لکھےجن سے انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اچانک ان کی ملاقات موسیقار خيام سےہوئی جن کی موسیقی میں انہوں نے فلم ’آہستہ آہستہ‘ کیلئے ’کبھی کسی کو مكمل جہاں نہیں ملتا‘ گیت لکھا۔ آشا بھوسلےاور بھوپندر سنگھ کی آواز میں ان کا یہ گیت سامعین کے درمیان کافی مقبول ہوا۔
۱۹۸۳ء ندا فاضلی کے فلمی کریئر کی اہم منزل ثابت ہوئی۔ فلم ’رضیہ سلطان‘ بنانے کے دوران نغمہ نگارجاں نثار اختر کی حادثاتی موت کے بعد فلمساز و ہدایتکار کمال امروہی نے ندا فاضلی سے فلم کے باقی نغمے لکھنے کی پیشکش کی۔ اس فلم کے بعد نغمہ نگار کے طور پر فلم انڈسٹری میں ان کی شناخت قائم ہوگئی۔ غزل گلوکار جگجیت سنگھ نے ندا فاضلی کیلئے بہت سےنغمے گائے جن میں ۱۹۹۹ء میں ریلیز ہونےوالی فلم ’سرفروش‘ کا یہ نغمہ ’ہوش والوں کو خبر کیا بےخودي کیا چیزہے‘بھی شامل ہے۔ ان دونوں فنکاروں کی جوڑی کی بہترین مثال ہے۔ ندا کے شعری مجموعوں میں ’مور ناچ‘، ’هم قدم‘ اور ’سفر میں دھوپ تو ہوگی‘ اہم ہیں۔ اپنے نغموں سے سامعین کا دل جیتنے والے نغمہ نگار ندا فاضلي کا ۹؍فروری ۲۰۱۶ء کو انتقال ہو گیا۔