Inquilab Logo Happiest Places to Work

نمی ایک پروقار اور فطری اداکارہ تھیں

Updated: February 22, 2025, 4:04 PM IST | Agency | New Delhi

نمی کا اصل نام نواب بانو ہے۔ ان کے والد عبدالحکیم انگریزی فوج کے ٹھیکے دار تھے۔ والدہ کا نام وحیدن تھا، جو اپنےوقت کی معروف گلوکارہ تھیں اور فلموں میں کام بھی کر لیتی تھیں۔

Nawab Bano aka Nimmi, the queen of innocent performances. Photo: INN
معصومیت بھری ادائوں کی ملکہ نواب بانو عرف نمی۔ تصویر: آئی این این

نمی کا اصل نام نواب بانو ہے۔ ان کے والد عبدالحکیم انگریزی فوج کے ٹھیکے دار تھے۔ والدہ کا نام وحیدن تھا، جو اپنےوقت کی معروف گلوکارہ تھیں اور فلموں میں کام بھی کر لیتی تھیں۔ نمی کی پیدائش ۱۸؍فروری ۱۹۳۳ءکو آگرہ میں ہوئی۔ ان کے والد عبدالحکیم ایبٹ آباد (پاکستان) کےرہنے والے تھے۔ وحیدن بمبئی کی فلم انڈسٹری میں خاصا اثر و رسوخ رکھتی تھیں، خاص طور پر ان کے خاندان کے تعلقات ہدایت کارمحبوب خان کے ساتھ کافی اچھے تھے۔ 
 نمی کی پہلی فلم برسات تھی جو انہیں راج کپور نے محبوب خان کے اسٹوڈیوں میں دیکھ کرآفر کی تھی۔ برسات کےبعدنمی کو بالی ووڈ کےبڑے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جن میں اشوک کمار کے ساتھ بھائی بھائی راج کپور کے ساتھ باورا، دیوآنند کے ساتھ سزا اور آندھیاں، دلیپ کمار کےساتھ دیدار(۱۹۵۱ء)، داغ (۱۹۵۲ء) اور آن (۱۹۵۲ء)میں کام کیا۔ نرگس کے علاوہ امر میں مدھو بالا، ’شمع‘ میں ثریا، اوشا کرن، گیتا بالی اور چار دل، چار راہیں (۱۹۵۹ء)میں مینا کماری کے ساتھ کام کیا اور ان سبھی بڑی اداکارؤں کے درمیان نمی نے اپنی صلاحیت تسلیم کرائی۔ ایک بات جو بہت کم لوگ جانتےہیں کہ نمی بہت اچھی گلوکارہ بھی تھیں تاہم انہوں نےاپنی اس صلاحیت کو فلم ’بیدردی‘ (۱۹۵۱ء) کے ایک گانے کے سوا کبھی اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ فلم ’بیدردی‘ میں ان کا گایا ہوا گانا ان ہی پر فلمایا گیا ہے۔ ۱۹۵۵ءمیں اڑن کھٹولا، محبوب خان کی ایک اور پروڈکشن تھی جس نے باکس آفس پر وہ کامیابی حاصل کی جس کی اس وقت تک مثال نہیں ملتی۔ اس فلم میں نمی نے اپنے کردار کی باریکیاں جس انداز میں پیش کیں، بہت کم اداکاراؤں کو یہ صلاحیت نصیب ہوئی۔ اس فلم کی موسیقی نوشاد نے دی تھی۔ اڑن کھٹولا کےنغمے آج بھی سنے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ۱۹۵۶ءمیں ان کی ’بسنت بہار‘ اور ’بھائی بھائی‘نمائش کے لئے پیش ہوئیں۔ 
 ۱۹۵۷ءمیں جب ان کی عمرمحض ۲۴؍سال تھی، انہیں بھائی بھائی میں ان کی کردار نگاری کے لیے کرٹک ایورڈپیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں میں نمی بہت سلیکٹیوہو گئیں۔ ان کے بعض فیصلے تو درست رہےتاہم بعض فیصلوں نے انہیں ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچایا۔ مثلاً ۱۹۶۳ءمیں ’میرے محبوب‘ ہدایت کاراور رائٹر ہرمن سنگھ رویل نےبہت بڑے بجٹ کےساتھ بنانے کا پروگرام بنایا۔ اس میں نمی کو مرکزی کردار کی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے اپنے لیے ثانوی کردار کا انتخاب کیا۔ ان کے خیال میں اس کردارمیں وہ زیادہ اچھی پرفارمنس دے پائیں گی۔ یہ مرکزی کردار بعد میں نسبتاً نئی اداکارہ سادھنا کو دیا گیا اور جس کردار کے لیے سادھنا تجویز کی گئی تھیں، وہ نمی نےکیا۔ اس کردار کے لئے انہیں فلم فیئر کا معاون اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا۔ انہوں نے ۱۹۶۴ءمیں پوجا کے پھول میں اندھی لڑکی اور آکاش دیپ میں اشوک کمار کی گونگی بیوی کےکردار کوبہتر ڈھنگ سے ادا کیا۔ وہ ایک ذہین خاتون تھیں، وقار کے ساتھ آئی تھیں لہٰذا وقار کے ساتھ وقت سے بہت پہلے فلمی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ ۱۹۶۵ء میں بنی فلم آکاش دیپ نمی کی آخری فلم ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کی ایک نامکمل فلم لو اینڈ گاڈ تھی۔ جسے کے آصف بنا رہے تھے یہ بہت بڑے بجٹ کی فلم تھی۔ کے آصف کے بے وقت انتقال پر یہ فلم نامکمل ہی رہ گئی۔ بالآخر کافی سال بعد اسے نامکمل ہی ریلیز کردیا گیا۔ اس باصلاحیت اداکارہ کا ۲۵؍مارچ ۲۰۲۰ء کو ممبئی میں انتقال ہوگیا اور اس طرح ایک دور کا خاتمہ ہوگیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK