• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوم پوری نے اپنی کامیابی سے ثابت کردیا تھا کہ صلاحیتوں کے آگے دوسری باتوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں

Updated: June 02, 2024, 2:21 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

انہوں نے اپنی مخصوص اداکاری سے نہ صرف بالی ووڈ بلکہ ہالی ووڈ میں بھی اپنا خاص مقام بنالیا تھا،انہیں بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا، یہی شوق انہیں پونے میں ’نیشنل اسکول آف ڈراما‘ تک لے گیا اور پھر ۱۹۷۶ء میں وہ ممبئی آئے اور بالی ووڈ پر طویل عرصے تک چھا ئے رہے۔

Om Puri is considered as one of the leading actors of the country. Photo: INN
اوم پوری کا شمار ملک کے صف اول کے اداکاروں میں کیا جاتا ہے۔ تصویر : آئی این این

فلم انڈسٹری میں سیکڑوں فنکار آتے جاتے رہتے ہیں۔ کچھ مقبولیت پاتے ہیں اور طویل عرصے تک یاد رکھے جاتے ہیں جبکہ بیشترفنکار وقت گزرنے کے ساتھ ہی فراموش کر دیئے جاتے ہیں۔ اوم پوری کا شمار ان فنکاروں میں کیا جاتا ہے جنہیں لوگ عرصے تک یاد کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوم پوری ایک بہترین اداکار کے ساتھ ہی ایک بہترین انسان بھی تھے۔ انہیں دیکھ کر ایک عام انسان، خود کو ان سے اپنے آپ کو جوڑ لیتا تھا۔ 
 یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بالی ووڈ کی دنیا چمک دمک والی دنیا ہے، جس میں عامر خان، شاہ رُخ خان اور سلمان خان جیسےخوشنماچہرے والے اداکار کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ ہیرو کے طور پر فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کیلئے لمبے تگڑے ہونے کے ساتھ ہی گورا چٹا ہونے کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر اوم پوری میں یہ ساری باتیں نہیں تھیں، اس کے باوجود وہ کامیاب تھے۔ ان کے اندر بہترین اداکارانہ صلاحیتیں تھیں جس کی وجہ سے وہ نہ صرف الگ الگ قسم کے کرداروں کو ادا کرتے رہے بلکہ بطور ہیرو بھی فلموں میں دِکھائی دیئے اور کامیاب رہے۔ 
 اوم پوری کا شمار ملک کے صف اول کے فلمی اداکاروں میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی مخصوص اداکاری سے نہ صرف بالی ووڈ بلکہ ہالی ووڈ میں بھی اپنا خاص مقام بنایا تھا۔ ان کی پیدائش ایک پنجابی خاندان میں ۱۸؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ہریانہ کے ضلع انبالہ میں ہوئی تھی، جو پہلے برٹش زمانے میں پنجاب کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اوم پوری کے والد کا نام ٹیک چند پوری تھا اور وہ انڈین ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ اوم پوری کی والدہ کا نام تارا دیوی ہے۔ 
 اوم پوری کی ولادت کے سلسلے میں اُن کے پاس کوئی سند نہیں تھی۔ اُن کے خاندان والے بھی اُن کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں یقینی طور پر کچھ نہیں جانتے تھے۔ حالانکہ اُن کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ ۱۹۵۰ء میں دسہرے کے ۲؍ دن بعد پیدا ہوئے تھے۔ مشہور اداکار مدن پوری اور امریش پوری اُن کے چچازاد بھائی تھے۔ ان کا بچپن بہت غربت میں گزرا تھا، یہاں تک کہ ۶؍برس کی عمر میں انہیں ایک چائے کے ہوٹل پر برتن بھی دھونے پڑتے تھے۔ اوم پوری کا پورا نام راجیش اوم پوری تھا اور انہوں نے پنجاب میں پٹیالہ کے خالصہ کالج سے گریجویشن کیا۔ وہیں کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ہی اوم پوری کی دلچسپی اداکاری کی طرف بھی ہونے لگی تھی۔ 
 تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ چنڈی گڑھ میں ایک وکیل کے یہاں منشی گیری کی نوکری کرنے لگے۔ اس درمیان کالج کے ایک ناٹک میں اوم پوری کو اداکاری کرنے کیلئے دوستوں نے بلایا، جس کیلئے اوم پوری نے اپنے وکیل باس سے تین دن کی چھٹی طلب کی لیکن وکیل صاحب نے انہیں تین دن کی چھٹی دینے سے انکار کر دیا۔ وکیل صاحب کی یہ بات اوم پوری کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے وکیل صاحب سے کہہ دیاکہ ’’اپنی نوکری اپنے پاس رکھ لیں اور میرا حساب کر دیں۔ ‘‘ جب اوم پوری کے کالج کے دوستوں کو اس واقعہ کا پتہ چلا تو انہوں نے کالج کے پرنسپل صاحب سے اس بارے میں بات کی اور پرنسپل صاحب نے اوم پوری کو کالج میں لیب اسسٹنٹ کی ملازمت دے دی۔ اس ملازمت میں اوم پوری کو تنخواہ کے طور پر ۱۱۲؍ روپے ماہانہ ملتے تھے۔ 
 جس دن کالج میں ڈراما تھا، اسے دیکھنے کیلئے پنجاب کے مشہور تھیٹر اداکار ہرپال ٹِوانا بھی آئے ہوئے تھے۔ اوم پوری کی اداکاری کو دیکھنے کے بعد ہرپال ٹوانا نے اُنہیں اپنے تھیٹر گروپ سے جڑنے کی پیش کش کی۔ انہوں نے اداکاری کی دنیا میں شروعات کرنے کیلئے کالج کے لیب اسسٹنٹ کی ملازمت چھوڑ دی تھی۔ بعد ازاں ان کا یہی شوق انہیں ’نیشنل اسکول آف ڈراما‘ تک لے گیا جہاں انہوں نے اداکاری کے کورس میں داخلہ لے لیا۔ 
  اُن دنوں نصیرالدین شاہ اور اوم پوری ’این ایس ڈی‘ میں بیچ میٹ تھے۔ اُن دونوں کی دوستی تقریباً چالیس برس تک رہی۔ اس دَوران نصیرالدین شاہ نے کئی بار اوم پوری کی مالی مدد بھی کی۔ اِس سلسلے میں خود اوم پوری کا کہنا تھا کہ اگر نصیر مدد نہیں کرتے تو وہ کامیابی کے اِس مقام تک کبھی نہیں پہنچ پاتے۔ اوم پوری مانتے تھے کہ جب انہوں نے این ایس ڈی میں داخلہ لیا تھا، تب اُن کے اندر خوداعتمادی کی بہت کمی تھی کیونکہ اُن کی بنیادی تعلیم پنجابی زبان میں ہوئی تھی۔ این ایس ڈی میں ہی اوم پوری کی ملاقات شبانہ اعظمی سے ہوئی تھی، بعد میں ان دونوں نے ایک ساتھ ’دھاراوی (۱۹۹۲ء)، مرتیو دنڈ (۱۹۹۷ء)، البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے؟ (۱۹۸۰ء) اورسٹی آف جوائے (۱۹۹۲ء)‘ جیسی کامیاب فلموں میں یادگار کردار ادا کئے۔ 
 پونے کے ’فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ‘ میں اداکاری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۷۶ء میں اوم پوری ممبئی آگئے اور کچھ دوستوں کے ساتھ ’مجمع تھیٹر‘ نام سے اپنا ایک ذاتی تھیٹر گروپ قائم کیا لیکن جہاں تک ان کی اپنی اداکاری کے سفر کی بات ہے تو انہوں نے ۱۹۷۶ء میں ایک مراٹھی ناٹک ’گھاسی رام کوتوال‘ سے شروع کیا تھا۔ اِسی دَوران اوم پوری کو بال فلم سمیتی کے ذریعہ بن رہی فلم ’چور چور چھپ جا‘ میں بھی اداکاری کرنے کا موقع ملا لیکن ان کی باقاعدہ پہلی فلم ۱۹۸۰ء میں ریلیز ہونے والی ’چن پردیسی‘ تھی جوکہ پنجابی زبان میں تھی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد اوم پوری کو کئی ہندی فلمیں ملیں، جیسے ۱۹۸۰ء میں ہدایتکار گووند نہلانی کی ’آکروش‘ اور ۱۹۸۱ء میں ستیہ جیت رے کی ایک ٹیلی فلم ’سدگتی‘۔ اس کے ساتھ ہی اوم پوری کو ۱۹۸۰ء میں گجراتی زبان میں بننے والی کیتن مہتا کی فلم ’بھوَنی بھوائی‘ میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ حالانکہ ایک باصلاحیت اداکار کے طور پر فلم ’آکروش‘ ہی سے اوم پوری ممبئی کی فلمی دُنیا میں اپنی شناخت قائم کر چکے تھے، مگر ۱۹۸۳ء میں گووند نہلانی کی ہدایت میں بننے والی فلم ’اَردھ ستیہ‘ اوم پوری کے فلمی کریئر کیلئے سنگِ میل ثابت ہوئی۔ فلم ’اردھ ستیہ‘ میں اُن کا کردار سماجی اور سیاسی بدعنوانیوں کی مخالفت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس فلم میں پولیس انسپکٹر کے کردار میں اوم پوری نے ہمیں سمجھا دیا کہ ہمارے سماج میں ’ویلن‘ کس طرح پیدا ہوتے ہیں، خلاء میں نہیں بلکہ اِسی دلدلی دُنیا میں۔ 
 فلم ’اردھ ستیہ‘ اوم پوری کی ایک ایسی فلم تھی جس میں انہوں نے اپنی مخصوص اداکاری سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ ایک باصلاحیت اداکار ہیں۔ اس فلم کے ذریعہ اُن کی بہترین اداکاری کا تذکرہ نہ صرف ہندوستان میں ہوا بلکہ غیرممالک میں بھی اوم پوری نے خوب شہرت حاصل کی۔ اس فلم کو کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ اوم پوری کی کامیابی اسلئے بھی کافی اہمیت رکھتی تھی کہ کمرشیل فلموں کی کوئی بھی شرط پوری نہ کرنے کے باوجود وہ کمرشیل اعتبار سے پوری طرح کامیاب ہوئے تھے۔ 
 مختلف کرداروں میں اداکاری کرتے ہوئے اوم پوری ہمیشہ الگ دکھائی دیئے۔ سنجیدہ کرداروں کی ادائیگی میں جذبات کا اُبال اُن کی فنکاری تھی۔ مزاحیہ کردار کرتے ہوئے جو فطری رنگ اُن کی اداکاری میں تھا، وہ اُن کے ہمعصروں میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ شیام بینیگل کی ہدایت میں بننے والی فلم ’آروہن‘ ۱۹۸۲ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں اوم پوری نے ایک غریب کسان کا کردار ادا کیا تھا جو بنگال کے ایک دُور دراز کے گائوں میں رہتا ہے۔ شمع زیدی کی کہانی پر بنی اس فلم کے دیگر اداکاروں میں وِکٹر بنرجی، پنکج کپور، سریلا مجمدار، جینت کرپلانی اور امریش پوری وغیرہ شامل تھے۔ اس فلم نے ہندی کی بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کیا تھا، اسی فلم کیلئے ۱۹۸۲ء کا بہترین اداکار کا ایوارڈ اوم پوری کو ملا تھا۔ 
 ہدایت کار کیتن مہتا نے ۱۹۸۷ء میں فلم ’مرچ مسالہ‘ کی ہدایت کی تھی۔ اس فلم میں نصیر الدین شاہ، سمیتا پاٹل، اوم پوری، راج ببّر، سریش اوبرائے اور دپتی نول جیسے بہترین اداکاروں نے کام کیا تھا۔ اس فلم میں اوم پوری نے مِل کے ایک ایسے چوکیدار ’ابو میاں ‘ کا یادگار کردار ادا کیا تھا جو گائوں کی ایک لڑکی سمیتا پاٹل کی عزت بچانے کیلئے اپنی جان کی پروا نہیں کرتا اور اُسے مِل میں پناہ دیتا ہے۔ اس فلم کو بطور ہدایت کار کیتن مہتا کی پہلی کامیاب فلم کہا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کیتن مہتا دو فلموں، ’بھوَنی بھوائی (۱۹۸۰ء) اور ہولی (۱۹۸۴ء)‘ میں ہدایتکاری کے فرائض ادا کر چکے تھے۔ 
شروع میں آرٹ فلمیں کرنے کے دَوران اوم پوری کو محسوس ہوا کہ صرف آرٹ فلمیں کرکے ممبئی میں گزارا ممکن نہیں ہے لہٰذا انہوں نے کمرشیل سنیما کی جانب رخ کیا۔ اُن کی مقبول کمرشیل فلموں میں ’وجیتا(۱۹۸۲ء)، جانے بھی دو یارو(۱۹۸۳ء)، مرچ مسالہ (۱۹۸۷ء)، گھائل (۱۹۹۰ء)، دروہ کال (۱۹۹۴ء)، گھاتک(۱۹۹۶ء)، ماچس (۱۹۹۶ء)، چاچی ۴۲۰ (۱۹۹۷ء)، خوبصورت (۱۹۹۹ء)، پُکار (۲۰۰۰)، ہیرا پھیری (۲۰۰۰) اور مالامال ویکلی (۲۰۰۶)‘ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جن میں وہ الگ الگ قسم کے کرداروں میں اپنی منفرد اداکاری سے رنگ بھرتے نظر آتے ہیں۔ 
 ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۵ء کا دَور ہندی سنیما میں اِس بات کیلئے یاد رکھا جائے گا کہ اُس دَور میں اپنی اداکاری سے متاثر کرنےوالے اداکاروں نے کمرشیل سنیما میں اپنے لئے منفرد مقام حاصل کیا۔ آرٹ فلموں کے جگمگاتے ستاروں میں گریش کرناڈ، نصیرالدین شاہ اور اوم پوری اِسی دَور میں کمرشیل سنیما میں اپنی موجودگی کا احساس درج کرانے میں کامیاب ہوئے۔ ایسا نہیں ہے کہ آرٹ فلموں کو ہمیشہ ہی ناظرین نہیں ملتے تھے۔ دراصل اوم پوری، نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کے دم پر کافی پہلے ہی اس مفروضےکو توڑ دیا تھا کہ آرٹ فلمیں صرف ٹیلی ویژن یا فلم فیسٹیول کیلئے بنتی ہیں۔ 
 دراصل آرٹ اور کمرشیل، دونوں طرح کی فلموں میں اوم پوری کی کامیابی اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ صرف خوبصورت نظر آنے والے ہی فلموں میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہیں بلکہ اس کیلئے بنیادی شرط اداکاری ہے۔ ۱۹۹۰ء میں ریلیز ہوئی فلم ’گھائل‘ اپنے زمانے کی سُپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم میں اوم پوری نے اے سی پی کا ایک اہم کردار ادا کیاتھا۔ ان کے علاوہ سنی دیول، میناکشی شیشادری، راج ببر، امریش پوری اور کل بھوشن کھربندا نے فلم کے اہم کردار تھے۔ اس فلم کے فلمساز دھرمیندر تھے جبکہ ہدایتکار راج کمار سنتوشی تھے۔ اِس فلم نے ۷؍ فلم فیئر ایوارڈ حاصل کئے تھے۔ 
 اسی طرح۱۹۹۱ء میں فلمساز و ہدایتکار این چندراکی فلم ’نرسمہا‘ بھی اوم پوری کی ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کے دیگر اداکاروں میں سنی دیول، ڈمپل کپاڈیہ، روی بہل، اُرمیلا ماتونڈکر، جانی لیور اور ستیش شاہ وغیرہ تھے۔ اوم پوری نے اس میں ’باپ جی‘ کا ایک منفی کردار کیا تھا جس کی بادشاہت پورے شہر پر چلتی ہے۔ یہ فلم مکمل طور پر ایکشن سے بھرپور ایک تفریحی فلم تھی، جس کو فلم شائقین نے بہت پسند کیا۔ 
 یہ ہماری فلمی دُنیا کی رسم رہی ہے کہ جو فنکار جس کردار میں کامیابی حاصل کر لے، اُس کے سامنے اُسی قسم کے کرداروں کا انبار لگا دیا جاتا ہے۔ ’اردھ ستیہ‘ (۱۹۸۳ء) میں پولیس انسپکٹر کے کردار کو بہترین فنکاری کے ساتھ ادا کرنے کے نتیجے میں اوم پوری کو ’گھائل‘ (۱۹۹۰ء) اور ’کرم یودھا‘ (۱۹۹۲ء) میں بھی پولیس انسپکٹر ہی کے کردار ملے لیکن یہاں بھی انہوں نے اپنی اداکاری کے دم پر ایک ہی قسم کے کردار کو تینوں فلموں میں الگ الگ انداز میں نبھاکر اپنی سہ رنگی شخصیت کو ناظرین کے سامنے پیش کیا۔ 
 کسی بھی اداکار کی اعلیٰ فنکاری کا پیمانہ اُس کے ذریعہ نبھائے گئے مختلف کردار ہی ہوتے ہیں اور اوم پوری ہر بار اِس پیمانے پر کھرے اُترے۔ فلم ’منڈی‘ کا فوٹوگرافر، ’مرچ مسالہ‘ کا بوڑھا چوکیدار، ’’تمس‘ کا نتھو، ’سٹی آف جوائے‘ کا رکشے والا، ’نرسمہا‘ کا مافیہ ڈان، ’مرتے دم تک‘ کا ویلن، ’ماچس‘ کا دہشت گرد، ’پریم گرنتھ‘ کا استحصال زدہ آدمی، ’چاچی ۴۲۰‘ کا کامیڈین، یا پھر فلم’گپت‘ میں ہر وقت نشے میں غرق رہنے والا پولیس انسپکٹر.... اوم پوری ہر انداز میں اپنی اداکاری کے مختلف رنگوں میں نظر آتے ہیں۔ 
 ۲۰۱۵ء میں اوم پوری فلم ’بجرنگی بھائی جان‘ میں بھی نظر آئے، جس میں انہوں نے ایک ترقی پسند امام کا کردار ادا کیا تھا جو بجرنگی اور منّی کو پاکستانی حفاظتی دستے سے بچاتا ہے اور اُنہیں اُس مدرسے میں پناہ دیتا ہے جہاں وہ پڑھاتا ہے۔ اس فلم کے فلمساز سلمان خان تھے اور ہدایت کبیر خان کی تھی۔ ’بجرنگی بھائی جان‘ کے بعد ۲۰۱۷ء میں وہ ایک بار پھر فلم ’ٹیوب لائٹ‘ میں سلمان اور کبیر خان کے ساتھ کام کیا۔ 
 ہندوستانی فلموں میں چند ہی ایسے فنکار اور اداکار ہوئے ہیں، جنہوں نے ہالی ووڈ میں کام کرکے شہرت حاصل کی ہو۔ اوم پوری نے بھی اپنی بہترین اداکارانہ صلاحیتوں سے نہ صرف یہ کہ ہندی فلموں میں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی بلکہ وہ یکساں طور پر غیرممالک میں بھی اُتنے ہی مقبول اداکار تھے۔ اُن کی غیرملکی فلموں میں ’جویل اِن دی کرائون (۱۹۸۴ء)، گاندھی(۱۹۸۲ء)، سِٹی آف جوائے (۱۹۹۲ء)، برادرس اِن ٹربل (۱۹۹۵ء)، دی برننگ سیزن (۱۹۹۳ء)‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اوم پوری نے’سٹی آف جوائے‘ میں کام کرکے بالی ووڈ میں بہت مقبولیت اور شہرت حاصل کی۔ اس فلم میں رکشہ چلانے والے ایک غریب کا کردار انہوں نے بہت کامیابی کے ساتھ ادا کیا۔ اس کے علاوہ ’’سیم اینڈ می (۱۹۹۱ء)، وُلف (۱۹۹۴ء)، گھوسٹ اِن دی ڈارکنیس (۱۹۹۶ء)، مائی سن دی فینٹک (۱۹۹۷ء)، ایسٹ اِز ایسٹ (۱۹۹۹ء)، دی زُو کیپر (۲۰۰۱ء)‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جن میں اوم پوری کو بین الاقوامی سطح پر کامیابی اور شہرت ملی۔ اس کے علاوہ انہوں نے کنڑ اور پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔ 
 اوم پوری کی پہلی شادی ۱۹۹۱ء میں مصنف و ہدایت کار سیماکپور سے ہوئی تھی جو اداکار انوکپور کی بہن تھیں مگر اتفاق سے یہ شادی صرف آٹھ مہینے ہی قائم رہ سکی۔ ۱۹۹۳ء میں انہوں نے صحافی نندیتا پوری سے شادی کی۔ دراصل نندیتا، اوم پوری کی زندگی میں ۱۹۹۳ء میں تب آئیں جب وہ فلم ’سٹی آف جوائے‘ کی شوٹنگ کے دوران اوم پوری کا انٹرویو لینے پہنچی تھیں۔ اوم پوری اور نندیتا کاایک بیٹا ایشان پوری ہے۔ 
 نندتا پوری نے ۲۰۰۹ء میں اوم پوری پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی۔ اوم پوری کے مطابق اُن کی بیوی نے اس کتاب کو مقبول بنانے کیلئے کچھ ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے، جن سے انہیں ذہنی تکلیف پہنچی تھی اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا۔ اس کتاب میں اُن کے مختلف ادوار میں رہے معاشقوں کا ذکر ہے اور دیگر کئی ذاتی باتیں بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ اوم پوری کا کہنا تھا کہ ان کی بیوی کو اُن سب کا ذکر اس طرح کتاب میں نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس کتاب کے بعد اوم پوری اور نندیتا کے درمیان تعلقات میں کڑواہٹ پیدا ہو گئی تھی اور اس کے نتیجے میں اوم پوری پر گھریلو تشدد کے الزامات بھی لگائے گئے تھے۔ 
 ۱۹۸۸ء میں دُوردرشن کے مشہور ٹی وی سیریل ’بھارت ایک کھوج‘ میں اوم پوری نے الگ الگ کئی قسم کے رول ادا کیے، جنہیں ناظرین نے خوب پسند کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’ککا جی کہن، مسٹر یوگی، کردار، سی ہاکس، تمس، جاسوس وجئے اورآہٹ‘ جیسے کئی دیگر ٹی وی سیریئلس میں بھی کام کیا تھا۔ ساتھ ہی ’ساودھان انڈیا‘ کے دوسرے سیزن کے میزبان بھی رہے تھے۔ انہوں نے اپنی فلمی زندگی میں تقریباً تین سو فلموں میں کام کیا۔ ہندوستانی فلموں کے بہترین اداکاروں میں سے ایک اوم پوری کو کئی قومی و بین الاقوامی اعزازات و انعامات سے نوازا گیا۔ اُن کی فلمی خدمات کے اعتراف میں انہیں حکومت کی طرف سے ۱۹۹۰ء میں ’پدم شری‘ انعام سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ۲۰۰۹ء میں اوم پوری کو فلم فیئر کی طرف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا گیا۔ 
 اوم پوری اپنی نجی زندگی میں بہت سادہ مزاج تھے۔ منی رتنم، گووند نہلانی، شیام بینیگل، کندن شاہ اور شیکھر کپور اُن کے پسندیدہ ہدایت کار رہے ہیں۔ دم دار آواز اور جذبات سے پُر فطری اداکاری اُن کی شخصیت کے بنیادی پہلو رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ آرٹ فلموں میں اداکاری کرکے انہیں سکون ملتا ہے، مگر مالی مجبوریوں کے باعث کمرشیل سنیما کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
 ایک انٹرویو میں اوم پوری نے اپنی موت کے بابت ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’موت کا تو آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا، سوئے سوئے چل دیں گے، میری موت کے بارے میں آپ کو پتہ چلے گا کہ اوم پوری کا کل صبح ۷؍ بج کر۲۲؍ منٹ پر انتقال ہو گیا۔ ‘‘ اور یہ کہہ کر وہ ہنس دیئے... اور آخرکار ہوا بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ۶؍ جنوری ۲۰۱۷ء کو اوم پوری کا ممبئی میں انتقال ہو گیا۔ ان کی فلمی خدمات کو بہرحال فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK