• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

زبانوں کی حفاظت کا فریضہ

Updated: December 11, 2019, 11:45 PM IST | Mumbai

نئی تعلیمی پالیسی جب تک منظر عام پر نہیں آجاتی تب تک شش و پنج کی کیفیت برقرار رہے گی کہ آخر حتمی پالیسی میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے

(ہر زبان کو اپنا سمجھنے کا رجحان پیدا کیا جائے( تصویر: جاگرن
(ہر زبان کو اپنا سمجھنے کا رجحان پیدا کیا جائے( تصویر: جاگرن

 نئی تعلیمی پالیسی جب تک منظر عام پر نہیں آجاتی تب تک شش و پنج کی کیفیت برقرار رہے گی کہ آخر حتمی پالیسی میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ دیگر مضامین اور علوم کے علاوہ خاص طور پر زبانوں کے سلسلے میں یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ حکومت کس فارمولے کو نافذ کرتی ہے۔ گزشتہ ماہ جاری ہونے والی خبروں میں کہا گیا تھاکہ نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ کسی ریاست پر کوئی زبان تھوپی نہیں جائیگی اور جو سہ لسانی فارمولہ ہے وہ زیادہ لچکدار ہوگا۔ 
 اگر ایسا ہی ہوا تو شاید وہ تمام لوگ راحت کا سانس لے سکیں گے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت زبانوں کے انتخاب کا اُن کا اختیار ختم کردینا چاہتی ہے۔ دراصل زبانوں کے معاملے میں ارباب اقتدار اب تک حساس نہیں ہوئے ہیں۔ مسئلہ کسی مخصوص زبان کا نہیں ہے، مسئلہ تمام ہندوستانی زبانوں کا ہے جنہیں انگریزی زبان حاشئے پر لاتی جارہی ہے۔ تکنالوجی کی حیران کن ترقی اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے انگریزی کو حاصل ہونے والی اہمیت کے سبب ہر ملک کی طرح ہمارے ملک میں بھی مقامی زبانوں کو خطرہ لاحق ہورہا ہے خواہ وہ کتنی ہی اہم، مؤثر، ہردلعزیز اور اثرورسوخ والی زبان ہو۔
  اُدھر جرمن، عبرانی، روسی، عربی اور فارسی بولنے والوں کی نئی نسل انگریزی کی طرف راغب ہے اور جاپانی، فرانسیسی، چینی وغیرہ بولنے والوں کی نئی نسل بھی تو اِدھر ہندوستان میں بھی یہی رجحان پرورش پارہا ہے چنانچہ یہ شکایت عام ہے کہ نسلِ نو ہندی، اُردو، کنڑ، تیلگو، ملیالم، گجراتی، مراٹھی اور دیگر مقامی و دیسی زبانوں سے دور ہو رہی ہے اور یہ عمل خاصا تیز رفتار ہے۔ چونکہ تکنالوجی کی زبان انگریزی ہے اور تکنالوجی ہر ملک، ہر خطے اور ہر علاقے کے عوام پر حاوی ہے اس لئے شعوری یا غیرشعوری طور پر انگریزی کا چلن عام ہو رہا ہے۔ اسلئے اب مسئلہ صرف ہندی کو رائج کرنے کا نہیں بلکہ دیگر زبانوں کا بھی ہے۔ 
 انگریزی کا معاملہ یہ ہے کہ اُسے ہر خاص و عام میں رائج کرنے کی باقاعدہ کوشش ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہورہی ہے۔ تکنالوجی کے فروغ کی وجہ سے بھی اس کا فروغ چار دانگ عالم میں کسی تعطل کے بغیر جاری ہے، اس لئے وہ انگریزی زبان جس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، اُسے عالمی زبان تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں رہ گیا ہے۔ نئی نسل محسوس کرتی ہے کہ اگر اس نے انگریزی نہیں سیکھی تو معاشی نقصان اُٹھائے گی۔ یہ تصور کسی اور زبان کے تعلق سے نہیں ہے۔ ہر زبان کا اپنا لٹریچر ہے اور اپنی خصوصیات ہیں۔ اس کے باوجود محض معاشی مفاد کے تحت لوگ باگ اپنی اپنی زبانوں کو کم اہم یا غیر اہم جان کر انگریزی کو اپناتے چلے جارہے ہیں۔ لہٰذا جو شکایت اہل اُردو کو ہے کہ نئی نسل اُردو سے بیگانہ ہورہی ہے، وہی شکایت اہل ہندی کو، اہل مراٹھی کو اور دیگر زبانوں کے لوگوں کو اپنی اپنی نسلِ نو سے ہے۔ ہندوستان سمیت متعدد ملکوں کی علاقائی زبانیں یا بولیاں بھی تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے ۔ 
 انگریزی سے مخاصمت رکھے بغیر علاقائی اور دیسی زبانوں کے تحفظ کی ذمہ داری کو اگر اب بھی بطور مشن اپنایا نہیں گیا تو شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔ یہ کام عوام کو تو کرنا ہی ہے، حکومت کو بھی اس کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔ وہ تمام زبانوں کی حفاظت کا بیڑا اُٹھائے۔ امریکہ میں ’’ہاؤڈی مودی‘‘ تقریب میں وزیر اعظم نے یہ کہنے اور سمجھانے کیلئے کہ ہندوستان میں ’’سب ٹھیک ہے‘‘ اس مفہوم کے جملے ۸؍ زبانوں میں اداکئے تھے۔ امریکہ میں دیکھی گئی اس فراخدلی کو سرزمین وطن پر عملاً برتنے کی ضرورت ہے کہ ہر زبان کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے، کسی پر کوئی زبان تھوپی نہ جائے، زیادہ سے زیادہ زبانوں کے سیکھنے کی افادیت سمجھائی جائے اورہر زبان کو اپنا سمجھنے کا رجحان پیدا کیا جائے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK