کمال امروہوی کانام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘ کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے دیگر فلمیں بھی بنائیں لیکن اس شاہکار فلم کے خالق کمال امروہوی کا یہ ڈریم پروجیکٹ تھا۔
EPAPER
Updated: January 19, 2025, 2:28 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
کمال امروہوی کانام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘ کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے دیگر فلمیں بھی بنائیں لیکن اس شاہکار فلم کے خالق کمال امروہوی کا یہ ڈریم پروجیکٹ تھا۔
کمال امروہوی کانام ذہن میں آتے ہی فلم ’پاکیزہ‘ کا خیال ذہن میں ضرور آتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے دیگر فلمیں بھی بنائیں لیکن اس شاہکار فلم کے خالق کمال امروہوی کا یہ ڈریم پروجیکٹ تھا۔ بہترین ڈائیلاگ، موسیقی، نغمات اورمیناکماری کی بے مثال اداکاری کی بدولت اس فلم نے ناظرین کے دل و دماغ پرایسے نقوش ثبت کئے کہ آج تک محو نہیں ہوئے۔ اس کے نغموں میں اس قدر کشش ہے کہ آج بھی جب فلم’پاکیزہ‘ کے نغمے کہیں سنائی دیتے ہیں تو لوگوں کے دل کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں اور لوگ ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں۔ ویسے تواس فلم کے سبھی نغمے پسند کئے جاتے ہیں لیکن اس کا ایک گیت ’’موسم ہے عاشقانہ.... اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا‘‘انتہائی مقبول ہوا۔ دل کے ساز چھیڑنے والی موسیقی اور الفاظ کی بندش کے سبب اس فلم نے کامیابی کے ریکارڈ توڑدیئے۔ آج یہ فلم انڈسٹری کی کلاسک فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ ’پاکیزہ‘ پرانہوں نے ۱۹۵۸ء میں کام شروع کردیاتھا۔ یہ عہد بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا تھا۔ یہ فلم بھی بلیک اینڈ وہائٹ بننے والی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ہندوستان میں سنیمااسکوپ کا رواج ہوا تو انہوں نے۱۹۶۱ءمیں سنیما اسکوپ کی شکل میں بنانا شروع کیا۔
کمال امروہوی۱۷؍جنوری۱۹۱۷ءکو اترپردیش کے امروہہ ضلع میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے فلم انڈسٹری میں داخلہ کا واقعہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ بچپن میں انتہائی شرارتی تھے اور اپنی شرارتوں سے پورے گاؤں کی ناک میں دم کئے رہتے تھے۔ ایک بار ان کی والدہ نے انہیں زبردست پھٹکار لگائی تو انہوں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا کہ ایک دن وہ انتہائی مقبول افراد میں شمار کئے جائیں گے اور ان کے دامن کو سونے چاندی کے سکوں سے بھر دیں گے۔ اس دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کارخ بدل دیا۔ ہوا یوں کہ ان کے بڑے بھائی نے ان کی شرارتوں سے تنگ آکر انہیں ایک طمانچہ رسیدکردیا۔ غصہ سے بپھرے کمال امروہوی گھرچھوڑ کر لاہور بھاگ گئے۔ لاہور نے ان کی زندگی کی سمت ہی بدل دی۔ انہوں نے خوب محنت کی اورقدیم لسانیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔ وہ انتہائی ذہین تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے محض ۱۸؍سال کی عمر میں ہی ایک اردو اخبار میں کالم نگاری شروع کردی تھی۔ اخبار کے مدیر اُن کی صلاحیتوں کے اس قدر معترف ہوئے کہ اس زمانے میں انہوں نے۳۰۰؍روپے ان کا مشاہرہ مقرر کردیا۔
لاہور میں کمال امروہوی کی ملاقات معروف نغمہ نگار اور اداکار کندن سہگل سے ہوئی۔ وہ ان کی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں فلم میں کام دلانے کیلئے سہراب مودی کے پاس بمبئی لائے۔ وہ یہاں آکر فلم انڈسٹری میں جدو جہد کرنے لگے۔ اسی دوران انہوں نے خواجہ احمد عباس تک رسائی حاصل کی۔ ان کی کہانی ’سپنوں کا محل‘ سے فلم ساز و ہدایت کار اورمعروف کہانی نویس خواجہ احمد عباس بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے اس پر فلم بنانے کا ارادہ کرلیا۔ اس کیلئے فلم ساز بھی تلاش کرلیا گیا تھا لیکن اُس وقت کچھ حالات ایسے بنے کہ اس پر بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ اسی دوران سہراب مودی نے انہیں تین سو روپے ماہانہ تنخواہ پر رکھ لیا۔ ان کی کہانی پر مبنی فلم پکار (۱۹۳۹ء)انتہائی سپر ہٹ رہی۔ یہ فلم نسیم بانو اور چندرموہن کی اداکاری سے مزین تھی۔ انہوں نے اس فلم کیلئے چار گیت لکھے۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد کمال امروہوی کا جادو چل گیا اور انہوں نے متعدد فلموں کیلئے کہانی، اسکرپٹ اور ڈائیلاگ لکھے۔
فلم’ محل‘ کمال امروہوی کے کریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔ یہ فلم تجسس اوررومانس سے بھری تھی۔ فلم ساز اشوک کمار نے اس کی ہدایت کاری کی ذمہ داری کمال امروہوی کو سونپی۔ بہترین گیتوں اور موسیقی کے سبب یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی اور اس کے بعد سے فلموں میں سسپنس کا رواج چل پڑا۔ فلم کی زبردست کامیابی نے مدھوبالا اور لتامنگیشکر کو نئی شناخت فراہم کی۔ اس سے حوصلہ پاکر کمال امروہوی نے۱۹۵۳ءمیں کمال پکچرس اور۱۹۵۸ءمیں کمالستان اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی۔ اس کے بینر تلے انہوں نے اپنی بیوی مینا کماری کو لے کرایک آرٹ فلم ’دائرہ‘ بنائی لیکن یہ فلم کامیاب نہیں ہوسکی۔ اسی دوران فلمساز و ہدایتکار کے آصف اپنی اہم فلم ’مغل اعظم‘ بنانے میں مصروف تھے۔ اس کے ڈائیلاگ وجاہت مرزا لکھ رہے تھے۔ کے آصف نے محسوس کیا کہ ایک ایسے ڈائیلاگ لکھنے والے کی ضرورت ہے جس کے تحریر کردہ ڈائیلاگ ناظرین کے دماغ میں برسوں تک گونجتے رہیں۔ اس کیلئے انہوں نے کمال امروہوی کا انتخاب کیا اور انہوں نے چارڈائیلاگ لکھنے والوں میں شامل کرلیا۔ ان کے تحریر کردہ ڈائیلاگ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عاشق و معشوق خط و کتابت میں ان کے مکالمے استعمال کرتے تھے۔ اس فلم میں بہترین ڈائیلاگ لکھنے کیلئے انہیں فلم فیئرانعام سے بھی نوازا گیا۔