ٹی وی اداکارپرنس دھیمن کا کہنا ہےکہ مجھے اداکار بنانے میں سب سے اہم کردار میری والدہ کا رہا ہے، میرے لئے انہوں نے اپنی سوچ تبدیل کی اور مجھے اس میں کریئر بنانے کی آزادی دی۔
EPAPER
Updated: September 01, 2024, 3:31 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai
ٹی وی اداکارپرنس دھیمن کا کہنا ہےکہ مجھے اداکار بنانے میں سب سے اہم کردار میری والدہ کا رہا ہے، میرے لئے انہوں نے اپنی سوچ تبدیل کی اور مجھے اس میں کریئر بنانے کی آزادی دی۔
پرنس دھیمن ان نوجوانوں میں سے ایک ہیں جنہو ں نے کریئر بنانے سے پہلے اداکاری سیکھی تھی اور اس کے بعد شو بز انڈسٹری میں داخلہ لیا تھا۔ ہریانہ سے تعلق رکھنے والے دھیمن نے۴؍سال تک تھیٹر اور اسٹیج شوز میں کام کیا۔ اس سے پہلے انہوں نےایکٹنگ کلاس میں داخلہ لے کر ڈپلومہ حاصل کیا تھا۔ ایکٹنگ کے اتنے شعبوں سے گزرنے کے بعد وہ ممبئی پہنچے اور ٹی وی سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ ان کا شو پیار کا پہلا ادھیائے اور شیو شکتی حال ہی میں بند ہوا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے ٹی وی کے معروف شو قبول ہے۲؍ میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے ایک ویب سیریز میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ انقلاب نے ان سے گفتگو کی ہے جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
آپ نے اداکاری کو بحیثیت پیشہ کس طرح اختیار کیا ؟
ج:جب میں چھوٹا تھا تو اس وقت بابی دیول اور پریتی زنٹا کی فلم ’سولجر‘ آئی تھی۔ وہ دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا تھا اور اس کے بعد ہی میں نے فیصلہ کرلیا تھاکہ میں اداکار بنوں گا۔ اسکول کی ایک تقریب میں مجھے رقص کرنے کیلئے اسٹیج پر بھیج دیا گیا تھا۔ اس وقت میں ڈانس نہیں جانتا تھا، پھر بھی میں نے سولجر فلم کے گیت پر رقص کیا تھا جس میں میری ٹیچر نے میری مدد کی تھی، لیکن میرے والدین نے مجھ سے کہا تھا کہ میں پہلے تعلیم حاصل کروں اور انجینئر بنوں ، اس کے بعد ہی کسی شعبے میں کریئر بنانے پر غور کروں۔ میں نے وہی کیا، انجینئرنگ اچھے نمبر سے پاس کیا پھر اداکاری کے شعبے میں آیا۔ دوران تعلیم ہی مجھے ماڈلنگ کی پیشکش آنے لگی تھی۔ اس کی وجہ سے ایکٹنگ کاکیڑا دوبارہ سر ابھارنے لگا اور میں نے تھیٹر اور اسٹیج شوز میں شرکت کرنی شروع کردی۔ اس کے بعد ممبئی آگیا اور یہاں بھی تھیٹرس گروپس میں شمولیت اختیار کرلی۔ کریئر کے آغاز میں ہی کورونا آیا اور لاک ڈاؤن لگ گیا۔ بہرحال اس کے بعد بھی ایک ویب سیریز اور ۲۔ ۳؍ ٹی وی شوز کرنے میں ، میں کامیاب رہا۔
کیا آپ نے ایکٹنگ کی باقاعدہ ٹریننگ لی ہے؟
ج:ہاں، میں نے اداکاری کی باقاعدہ ٹریننگ لی ہے۔ میں نے ۴؍سال تک تھیٹرس میں کام کیاہے اور وہاں رہتے ہوئے بہت سے اسٹیج شوز میں شرکت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی سے تھیٹر اور ایکٹنگ کا ۷؍ماہ کا ڈپلومہ کورس بھی کیا ہے۔ نیشنل اسکول آف ڈراما میں داخلہ لینے کا وقت نہیں تھا، اسلئے میں نے اپنے طورپر ہی جہاں سے مناسب لگا، وہاں سے اداکاری سیکھنے کی کوشش کی۔ دراصل کریئر کے ابتدا میں کسی نے میری رہنمائی نہیں کی تھی۔ اس لئے میں نیشنل اسکول آف ڈراما میں داخلہ نہیں لے سکا۔
پہلی بار ممبئی آنے کا تجربہ کیسا رہا؟
ج:مالی اعتبارسے ممبئی میں قیام بہت مشکل ہے۔ جن کا مالی پس منظر مضبوط ہوتاہے، وہ بہت دنوں تک بغیر کام کئے بھی یہاں قیام کر سکتے ہیں، لیکن جو مالی طورپر کمزور ہوتے ہیں وہ جلد ہی اس شہر کو الوداع کہہ دیتے ہیں۔ ابتدا میں جب میں ممبئی آیا تو میرا قیام لوکھنڈ والا میں تھا۔ اس وقت میرے اہل خانہ مجھے بہت زیادہ رقم دیا کرتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے اخراجات کا اندازہ ہونے لگا تو میں نے کفایت شعاری کا طریقہ اپنایا اور سنبھل کر خرچ کرنے لگا۔ میرے خیال میں ممبئی میں قیام کرنا اولین ترجیح ہوتی ہے بقیہ کام تو دیگر ترجیحات میں آتا ہے۔
کیاانجینئرنگ کے بعد آپ کے والدین نے آپ کو اداکاری کے پیشے سے وابستہ ہونے کی اجازت آسانی سے دےدی تھی؟
ج:اس معاملے میں میری والدہ نے میرے ساتھ پورا تعاون کیا ہے۔ پہلے ان کی سوچ کچھ الگ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ انجینئرنگ کرنے کے بعد اس شعبے میں داخلے کا کیا مطلب ہے؟ بہرحال وقت کے ساتھ ان کے بھی خیالات بدل گئے اور انہیں بھی لگا کہ کسی بھی شعبے میں کریئر بنایا جا سکتاہے۔ کسی بھی ماں کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ ان کی اولاد کا مستقبل محفوظ رہے۔ میری ماں بھی یہی سوچ رہی تھیں۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ آج آئی ٹی سے وابستہ افرادکا کریئربھی ۴۵؍سال کی عمر تک ہی رہتا ہے۔ کامیابی کیلئے جدوجہد ہر شعبے میں کرنی ہوتی ہے تو کیوں نہ اس شعبے میں جدوجہد کیا جائے جو مجھے پسند بھی ہے۔ آج میں اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ والدہ کے تعاون کے بغیر میں اداکار نہیں بن پاتا۔
کیا آپ نے پہلے ہی سے یہ طے کرلیا تھا کہ آپ فلاں پلیٹ فارم ہی سے اپنے کریئر کی شروعات کریں گے ؟
ج:میں نے ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھاکیونکہ آپ کو انڈسٹری میں پہلے اپنی شناخت قائم کرنی پڑتی ہے اس کے بعد ہی آپ مختلف پلیٹ فارم پر اپنی قسمت آزما سکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ کو ۸۰؍نمبر درکار ہیں تو آپ کو پہلے ۱۰۰؍ نمبر کا پرچہ حل کرنا ہوگا۔ اسی طرح اگر میں فلموں کیلئے کوشش کرتا تو مجھے معلوم تھا کہ میں ٹی وی شوز میں کام کر لوں گا۔ بڑے پردے پر آنے کیلئے بڑے خواب دیکھنے ہوتے ہیں اور وہاں پہنچنا بھی ایک طرح کا ٹاسک ہے۔ پہلے یہ کہا جاتاتھاکہ ٹی وی اداکار فلموں میں کام نہیں کرسکتے تھے لیکن چند بہترین اداکاروں نے اس طلسم کو توڑ دیا ہے جس سے اب ٹی وی اداکار بھی فلموں میں کام کررہے ہیں۔ میرے خیال میں فلموں میں داخلے کیلئے ٹی وی سے اچھا پلیٹ فارم کوئی اور نہیں ہے۔
شوبز انڈسٹری میں بہت زیادہ مقابلہ آرائی ہے، ایسے میں آپ خود کو کس طرح برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ؟
ج:میرے خیال میں یہ معاملہ شوبز تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر شعبے کا یہی حال ہے۔ ہر جگہ مقابلہ آرائی ہے اور لوگ اپنے اپنے طریقوں سے خود کو اس میں برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ دیگر شعبوں میں اگر کام نہیں بھی ہےتو بھی انہیں رقم ملتی رہتی ہے لیکن جب ہمارے پاس کام نہیں ہوتاہے تو ہمیں کوئی ادائیگی نہیں کرتا۔ اس وقت میں آئینے کے سامنے خود کو حوصلہ دینے کی کوشش کرتاہوں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی بھی کام کو ۱۰۰؍ فیصد کرنے کے بجائے ۱۱۰؍ فیصد کروں تاکہ میری مانگ ہمیشہ قائم رہے۔
س:سوشل میڈیا سے بھی کچھ افراد شو بزانڈسٹری میں آئے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
ج:یہ صحیح ہے کہ سوشل میڈیا سے آنے والوں کو ٹی وی انڈسٹری میں مواقع دیئے جارہے ہیں۔ اس سے پروڈکشن ہاؤس کو فالووَرس کا فائدہ ہوتاہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ افراد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس شو کا پروموشن کرتے ہیں۔ آخرکار آپ کو شوز میں اداکاری کرنی ہوتی ہے۔ اگر آپ اس میں ناکام رہتے ہیں تو آپ کے کتنےہی فالوورس ہوں، وہ بے معنی ہوجاتے ہیں کیونکہ شائقین بھی فن کو دیکھ کر ہی آپ کے معیار کا اندازہ لگاتے ہیں۔ میرے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں ، جنہوں نے سوشل میڈیا پر آنے کے بعد ویب سیریز میں اداکاری کی لیکن ان کی ایکٹنگ میں دم نہیں تھا۔
آپ اپنے فن کو نکھارنے کیلئے آپ کیا کرتے ہیں ؟
ج:انڈسٹری میں رہنا ہے تو ہمیں اپنے فن کو بہتر سے بہترین کرنا ہوتاہے، اسلئے میں معمول کی مشق کرتا رہتا ہوں، جیسے کہ کتابیں پڑھنا ہے اورآئینے کے سامنے کھڑے رہ کر الگ الگ انداز کی ایکٹنگ کرنا۔ یہ میں اس وقت کرتاہوں جب میرے پاس کوئی کام نہیں ہوتاہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میں اچھی ویب سیریز دیکھتا ہوں اور اس کے مرکزی کرداروں کی اداکاری کو سمجھنے کی کوشش کرتاہوں۔ میں ان کرداروں سے اتنا متاثر ہوتا ہوں کہ یہ ۱۵۔ ۲۰؍ دن تک میرے ذہن پر حاوی رہتے ہیں۔ اس طرح میں اپنے فن کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔