• Sun, 20 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

راجندر سنگھ بیدی نے کئی فلمیں بنائیں مگرکبھی اپنے اندر کے ادیب کو مرنے نہیں دیا

Updated: October 20, 2024, 1:18 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

مجھے یاد ہے ۱۴؍مارچ ۱۹۷۴ء کا وہ دن، جب میں فلمساز، ہدایتکار اور مصنف کمال امروہوی سے اُن کے آبائی وطن امروہہ کے اُن کے ذاتی مکان کے آنگن میں انٹرویو کر رہا تھا۔

Poster of the film based on the story of Rajendra Singh Bedi`s famous novel `Ek Chadar Meli Si`. Photo: INN
راجندر سنگھ بیدی کے مشہور ناول ’ایک چادر میلی سی‘ کی کہانی پر اسی نام سے بنی فلم کا پوسٹر۔ تصویر : آئی این این

مجھے یاد ہے ۱۴؍مارچ ۱۹۷۴ء کا وہ دن، جب میں فلمساز، ہدایتکار اور مصنف کمال امروہوی سے اُن کے آبائی وطن امروہہ کے اُن کے ذاتی مکان کے آنگن میں انٹرویو کر رہا تھا۔ میں نے اُن سے ایک غیرفلمی سوال کیا تھا۔ میں نے اُن سے پوچھا تھاکہ ’’اُردو میں آپ کا پسندیدہ ادیب کون ہے؟‘‘ کمال صاحب نے کہا تھا کہ’’میرے نقطہ نظر سے موضوع کے لحاظ سے سب سے اچھا لکھنے والے راجندر سنگھ بیدی ہیں اور ان کی کہانی ’ایک چادر میلی سی‘ ایک غیرمعمولی کہانی ہے۔ ‘‘کہا جاتا ہے کہ’ایک چادر میلی سی‘ ایک ایسی کہانی ہے کہ اگر بیدی اس کے علاوہ اور کچھ نہ بھی لکھتے تو صرف اسی کہانی کی بدولت ادب میں زندہ رہتے۔ 
 راجندر سنگھ بیدی یکم ستمبر۱۹۱۵ءکو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شری ہیرا سنگھ بیدی کھتری سِکھ اور والدہ سیتا دیوی برہمن تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیدی کے یہاں رنگ، مذہب اور نسل وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ ان کے دوستوں کا ایک وسیع حلقہ تھا جس میں ہر طبقہ، فکر، نسل، رنگ اور مذہب کے لوگ موجود تھے۔ ۱۹۳۱ء میں انہوں نے ایس جی بی اے خالصہ اسکول، لاہور سے میٹرک کیا اور ڈی اے وی کالج، لاہور سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد چند ناگزیر وجوہات کی بناپر تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ اُن کے والد کا جلد ہی انتقال ہو گیاجس کی وجہ سے پورے گھر کی ذمہ داری اُن کےکاندھوں پر آگئی، لہٰذا انہوں نےپوسٹ آفس میں ملازمت اختیار کر لی۔ ۱۹۳۴ء میں ۱۹؍برس کی عمر میں راجندر سنگھ بیدی کی شادی ستونت کور عرف سوماوتی سے ہو گئی تھی۔ اُسی زمانے میں بیدی صاحب نے کہانیاں لکھنی شروع کردی تھیں۔ ۱۹۴۳ء میں انہوں نے اپنی اس ملازمت سے سبکدوشی اختیار کرلی اور دہلی میں مرکزی حکومت میں پبلسٹی کے شعبے میں کچھ دن کام کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو لاہور میں ملازمت اختیار کرلی۔ تقسیم ہندکے بعد ان کی منتقلی دہلی میں ہو گئی اور ۱۹۴۸ء میں وہ اردو ادیبوں کے ایک وفد میں شریک ہوکرکشمیر گئے۔ شیخ محمد عبداللہ نے راجندر سنگھ بیدی کو جموں کشمیر ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر کا عہدہ سونپ دیا، مگر بیدی وہاں بھی زیادہ عرصہ تک ٹھہر نہ سکے۔ ایک سال کے قلیل عرصے تک کام کرنے کے بعد ۱۹۴۹ء میں انہوں نےکشمیر کو خیرآباد کہا اور دہلی ہوتے ہوئے بمبئی پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کامستقل قیام بمبئی ہی میں رہا۔ ۱۹۶۵ء میں انہیں ناولٹ ’ایک چادر میلی سی‘ کیلئے ساہتیہ اکادمی کے انعام سے نوازا گیا اور ۱۹۷۳ء میں ’پدم شری‘ کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ ۱۹۷۸ء میں انہیں غالب ایوارڈ دیاگیا۔ 
 ۱۹۳۲ء میں راجندر سنگھ بیدی کی ادبی زندگی کا آغاز محسن لاہوری کے قلمی نام سے ہوا۔ بعد میں اپنے اصلی نام راجندر سنگھ بیدی کے نام سےکہانیاں لکھنے لگے۔ ادب کے ساتھ ہی بیدی صاحب نے کئی فلمیں بھی تخلیق کیں جن میں ’پھاگن، گرم کوٹ، دستک اوررنگولی‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔ فلمیں بناتے وقت انہوں نے کبھی کمرشیل بننے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی کبھی کاروباری فلموں کے چکر میں پڑکر اپنے اندر کے ادیب کو مرنے دیا۔ 
 ۱۹۸۱ء کے فروری ماہ میں جب بمبئی کے بنکنگ روڈ واقع نریندر بیدی کے مکان پر میری ان سے پہلی ملاقات باقر مہدی کے توسط سے ہوئی تو اس وقت بیدی صاحب کافی بیمار تھے مگر اس حالت میں بھی انہوں نے اپنی روایت کے مطابق خاصی خاطر تواضع کی۔ جب میں نے ان سے نئے افسانے کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے نہایت اطمینان سے جواب دیا تھا کہ ’’میں افسانے کے مستقبل سے قطعی نااُمید نہیں ہوں۔ ادب میں تجربے ہوتے رہے ہیں اور یہ ایک اچھی علامت ہے۔ ‘‘راجندر سنگھ بیدی بے حد زندہ دل انسان تھے۔ ان کی زندگی میں بہت سے نشیب وفراز آئے مگر بیدی نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا۔ ایک بار ایک ضرورتمند ان کے گھر گیا اور ڈاکٹر کا نسخہ دکھاتے ہوئے بیدی سے کہا کہ آپ روپے پیسے سے میری مدد نہ کریں بلکہ میرے شدید بیمار بیٹے کیلئے دوائیں دلوا دیں۔ بیدی نے اپنی کار میں اس کو بٹھایا اور کئی دُکانوں پر دوا تلاش کرنے کے بعد نسخے میں لکھی ساری دوائیں خریدکر اس کو دلوا دیں اور بعد میں گاڑی ایک کنارے لگاکر رونے لگے اور اتنا روئے کہ ان کی ہچکی بندھ گئی۔ بعد میں انہوں نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد کی موت بھی اسی مرض میں ہوئی تھی جس کی دوائیں انہوں نے اُس ضرورتمند کو دلائی تھیں۔ اس طرح بیدی کی پُرمزاح شخصیت کے اندر ایک نہایت دردمند دل بھی دھڑکتا تھا۔ 
 کشمیر سے آل انڈیاریڈیو کی ملازمت ترک کرکے راجندر سنگھ بیدی جب بمبئی کی فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے تو وہاں کا ہر شخص اُن کی انسان دوستی سے متاثر ہوکر اُن کا گرویدہ ہوتاگیا۔ کافی عرصے تک وہ ملک راج آنند کے یہاں ٹھہرے۔ یہیں پر انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیادہ تر ان لوگوں سے رسم وراہ استوار ہوئی جو کمیونسٹ تحریک سے بھی عملی طور پر وابستہ تھے۔ بعد میں جب ان کا اپنا گھر ہو گیا تو وہاں کئی روپوش کمیونسٹوں کو پناہ بھی ملی۔ کیفیؔ اعظمی اور مجروحؔ سلطانپوری ان کے یہاں مہینوں قیام پذیر رہے۔ پھر اُن پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کے اپنے ہی بڑے بیٹے نے گھر چھوڑ دیا، جس کے بعد ان کے اپنے گھر کی دیواریں بھی ان کیلئے اونچی ہوتی چلی گئیں۔ وہ اکثر دوستوں کو ملنے اور دعوت وغیرہ پر بھی گھر بلانے کے بجائے ہوٹلوں میں ملنے لگے اور اپنی زندگی کی اس صورت حال پر خود ہی حسرت زدہ رہتے۔ اس درمیان اُن کو بدنامی بھی اُٹھانی پڑی۔ دراصل فلم ’دستک‘ (۱۹۷۰ء) کی تکمیل کے دوران اداکارہ ریحانہ سلطانہ کے ساتھ اُن کے تعلقات کو لے کر کافی چرچے ہوئے۔ فلم بڑی خوبصورت بنی، کامیاب بھی ہوئی مگر چند دنیاوی آسائشوں کے علاوہ بیدی کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ بیدی نے سوچا کہ ایک آخری فلم مارکیٹ کے حساب سے عام روش کے مطابق بنائیں اور سب کچھ سمیٹ کر پنجاب کی طرف نکل جائیں مگر بیدی اپنی آخری سانسوں تک وہ ایسا نہ کر سکے۔ وہ راجندر سنگھ بیدی جو صرف پانچ روپے اپنی جیب میں لے کر بمبئی آئے تھے، بعد میں فلمی رائٹر کے طور پر اپنی حیثیت منوائی تھی اور پھرخود فلمساز بھی بن گئے تھے، مگرکچھ جذباتی فیصلوں کی وجہ سے اور اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے خود کو برباد بھی کرلیا تھا۔ اُن کی ملٹی اسٹارر فلم ’پھاگن‘ فلاپ ہو چکی تھی۔ اسلئے اب کوئی بھی اُن کی فلم پر پیسہ لگانے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ حالانکہ اُن کا بڑا بیٹا نریندر بیدی مسالہ فلمیں بنانے والے ہدایتکار کے طور پر کامیاب ہو چکا تھا مگر اپنے باپ کی مدد کرنے کیلئے وہ بھی آگے نہیں آیا۔ اُن دنوں بیدی اپنی جوہو والی معمولی جھوپڑی میں ہی رہتے تھے۔ ان کی بیوی سے بھی ان کے اختلافات منظر عام پر آچکے تھے اور کئی بار گھر سے باہردفتر میں بھی جھگڑے ہو چکے تھے۔ حالانکہ بعد میں ان کا بیٹا نریندر بیدی ان کے پاس واپس لوٹ آیا، مگر ان کا تعلق ایک فلم رائٹر کے طور پر ہی بنا رہا۔ نریندر بیدی دولت کمانے کے چکر میں کمرشیل سنیما کی طرف زیادہ متوجہ تھا اور فارمولہ فلموں کے ذریعہ کامیابی بھی حاصل کر چکا تھا مگر کم عمری میں ہی کینسر کے موذی مرض سے ۱۹۸۲ء میں نریندر بیدی کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد راجندرسنگھ بیدی صدمے سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے۔ 
 راجندرسنگھ بیدی کی فلمی زندگی کا آغاز لاہور میں ہی ہو گیا تھا جب ایک فلم رائٹر کے طور پر مہیشوری فلمز کی ’کہاں گئے‘لاہور میں بنی تھی۔ اس کے بعد بیدی بمبئی آگئے تو انہوں نے تقریباً چالیس فلموں میں ڈائیلاگ لکھے۔ ان میں ’بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیوداس، ابھیمان، مدھومتی، انورادھا اورانوپما‘ کے نام قابل ذکر ہیں۔ فلم ’مسافر، انورادھا اورانوپما‘ کیلئے راجندر سنگھ بیدی کو صدرجمہوریہ کا گولڈ اور سلور میڈل بھی عطا کیا گیا۔ اُن کی ہدایت میں بنی پہلی فلم ’دستک‘ کو بھی صدر جمہوریہ کا ایوارڈ ملا تھا۔ 
 راجندر سنگھ بیدی بلا شبہ اردو افسانے اور ہندوستانی سنیما میں ایک قدرآور شخصیت کا نام ہے۔ انہوں نے جس طرح اپنے کرداروں کو افسانے کے ذریعے برتا ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ چاہے وہ لاجونتی ہو، یا ’رحمان کے جوتے‘ والا رحمان ہو۔ ان کا ہر کردار اپنے آپ میں مکمل ہے، اپنی تمام تر نفسیات کے ساتھ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ۔ فلموں سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اردو ادب کی چادر کو میلا نہیں ہونے دیا۔ راجندر سنگھ بیدی علم نجوم میں بھی یقین رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی جنم کنڈلی بھی بنوائی ہوئی تھی۔ ان کی زندگی میں کئی باتیں اتفاقیہ طور پر جنم کنڈلی میں درج باتوں کے مطابق ہوئیں۔ جیسے ان کی زندگی میں بیٹے کی موت، مگر ان کی کنڈلی کے مطابق ان کو ۷۷؍برس تک جینا تھا جبکہ اُن کے انتقال کے وقت اُن کی عمرصرف ۶۹؍برس کی تھی۔ ۱۱؍ نومبر۱۹۸۴ء کوبمبئی میں راجندر سنگھ بیدی کا انتقال ہوا۔ 
 آج جسمانی طور پر بیدی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر ان کی روح آج بھی ان کے افسانوں اور فلموں کے کرداروں کے روپ میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK