ویب سیریز اورٹی وی اداکار راجیش کمار کا کہنا ہے کہ’ روشیس سارہ بھائی‘ میرا آل ٹائم فیوریٹ کردارہے، اس کی ادائیگی کیلئے میں نے بہت زیادہ محنت بھی کی تھی۔
EPAPER
Updated: December 01, 2024, 1:29 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai
ویب سیریز اورٹی وی اداکار راجیش کمار کا کہنا ہے کہ’ روشیس سارہ بھائی‘ میرا آل ٹائم فیوریٹ کردارہے، اس کی ادائیگی کیلئے میں نے بہت زیادہ محنت بھی کی تھی۔
راجیش کماربطور ٹی وی اور فلم اداکار اس منزل تک پہنچ گئے ہیں جہاں اب انہیں کسی تعارف کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ انہوں نے اپنے کریئر کی شروعات ’ایک محل ہوسپنوں کا‘ شو سے کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی کامیاب ٹی وی شوز میں کام کیا۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والے ویب شو ’مڈ نائٹ فریڈم ‘ میں انہوں نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا کردار ادا کیاہے۔ ان کے اس کردار کی خوب پزیرائی ہورہی ہے۔ اپنے کریئر میں انہوں نے زیادہ ترمزاحیہ کردار نبھانے کو ترجیح دی ہے لیکن اس بار انہوں نے سنجیدہ رول نبھایا ہے۔ راجیش کمار کو’سارہ بھائی ورسیز سارہ بھائی‘ میں روسیش سارہ بھائی کے رول کیلئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے ٹی وی شوز کی ایک طویل فہرست ہے۔ نمائندہ انقلاب نےراجیش کمار سے بات چیت کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
آپ نے لیاقت علی خان کے رول کی تیاری کس طرح کی؟
ج:لیاقت علی خان کی بیشتر تقاریر موجودہیں۔ اس سے میں نے کافی استفادہ کیا۔ کتابوں سے جو چیزیں حاصل کر سکتا تھا، وہ میں نے کیا۔ میں اس لحاظ سے بہت خوش قسمت رہا کہ ہمارے پاس ان کے ویڈیوز اور آڈیوز بھی موجود تھے۔ یہ دیکھنے اور سننے کے بعد میں نے لیاقت علی کے رول کی تیاری کی۔ اس ویب سیریز کی کاسٹنگ گزشتہ سال جنوری میں ہوگئی تھی۔ اس کے کاسٹنگ ڈائریکٹر کویش سنگھ نے مجھے منتخب کیا تھا اور کہاتھا کہ اس کیلئے مجھے اپنا وزن کچھ بڑھانا ہوگا۔ میں نے ایک سال تک وزن کم نہیں کیا۔ لیاقت علی خان کے بال نہیں تھےتو میں نے اپنے بال ٹوپی میں چھپالئے۔ لیاقت علی تاریخ میں اہمیت رکھتے ہیں لیکن ان کا کردار جناح کی طرح عام کردار نہیں ہے۔ جناح کا کردار بہت سے افراد نے نبھایا ہے لیکن جہاں تک میرا خیال ہے کہ لیاقت علی خان کا رول صرف میں نے نبھایا ہے۔ میں نے اس رول کیلئے اردو زبان بھی سیکھی۔ میرے پاس آج بھی اس کے پی ڈی ایف ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس شو میں ہم نے بہت زیادہ گاڑھی اُردو کا استعمال نہیں کیاہے۔
آپ کو ایک پاکستانی کردار نبھانے پر ٹرول تو نہیں کیا گیا ؟
ج: کسی نے مجھے ٹرول نہیں کیا بلکہ میری پزیرائی ہوئی۔ پہلی بات تو یہ بایو پک نہیں تھی۔ اس ویب سیریز میں اس دور کے سبھی افراد کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ شائقین کو اس بورڈ روم میں بٹھا دیا گیا ہے جہاں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے کاغذات پر دستخط کئے جارہے تھے۔ اس وقت کیا صحیح یا غلط ہوا تھا، اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہرحال بورڈ روم میں جس طرح میں سردارپٹیل پر طنز کرتاہوں، اس کیلئے کئی افراد نے میرے لئے تعریفی الفاظ لکھے ہیں۔
اس ویب سیریز کی شوٹنگ کے بارے میں بھی کچھ بتائیں ؟
ج:منجھے ہوئے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے میں مزہ ہی آتاہے اور سیکھنے کو بھی بہت کچھ ملتاہے۔ شوٹنگ کے دوران موسم کی وجہ سے کافی پریشانی ہوتی تھی۔ جس وقت شوٹنگ شروع ہوئی تھی، تواس وقت موسم بہت اچھا تھالیکن موسم گرمامیں ہماری حالت غیر ہوتی گئی۔ میں اونی ٹوپی اور کوٹ پہنے ہوئے شوٹنگ کرتاتھا اور پسینے سے تربتر ہو جاتا تھا۔ ہمارے جو ساتھی گاندھی، ولبھ بھائی اور نہرو کا کردار نبھا رہے تھے، ان کی حالت اور خراب تھی۔ ولبھ بھائی کا رول نبھانے والے راجندرمیرے اچھے دوست ہیں۔ ہم سیٹ پر ایک دوسرے سے کافی باتیں کرتے تھے، اس وقت ہمارے ہدایتکار ہمیں کہتے تھے کہ میں کس طرح ان میں سے ہندوستان اور پاکستان کو نکالوں۔ بہرحال اس ویب سیریز کی اسکرپٹ اتنی اچھی تھی کہ ہمیں کام کرنے میں بہت لطف آیا۔
آپ اپنے کریئر کے ابتدائی دنوں کے بارے میں کچھ بتائیں ؟
ج:میں بہار کے مشہورضلع گیا سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے کبھی اداکاری کی ٹریننگ نہیں لی ہے۔ میں نے دوردرشن کیلئے بہت کام کیاہے، شوٹنگ سے وابستہ سبھی چیزوں کو دیکھتا رہا اور سیکھتا رہا۔ اداکاری بھی اس طرح سیکھی تھی۔ میں تھیٹر سے وابستہ نہیں رہا۔ میرے لئے یہ اچھی بات رہی کہ اس وقت سیٹیلائٹ چینل نے ہندوستان کی شو بز انڈسٹری میں داخلہ لیا تھا اور ان کیلئے بڑے پیمانے پر شو بنائے جارہے تھے۔ میں نے زی، سونی اور اسٹارٹی وی کے بہت سے کامیاب شوز کیلئے کام کیا۔ جب آپ اچھے اور تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو کام نہ ملنے پر بھی ڈپریشن کا سامنا نہیں کرناپڑتا۔ مجھے ٹی وی کا ایک شو ملا، کام اچھا لگا تو دیگر شوز بھی ملنے لگے۔ اس طرح میں نے انڈسٹری میں قدم جمانا شرو ع کردیا۔ میں اپنے ہر شو کیلئے ۱۰۰۰؍گنا اچھا کام کرتا تھا۔ گزشتہ چند برسوں سے میں فلم اور او ٹی ٹی پر توجہ د ے رہا ہوں کیونکہ ٹی وی کیلئے طویل وقت در کار ہوتاہے۔
شو بزانڈسٹری میں آپ ۲۵؍ سال گزارچکے ہیں۔ اتنا عرصہ گزارنے کے بعد آپ خود کو کہاں پاتے ہیں ؟
ج:اتنے برسوں سے کام کرنے کے باوجود میں ہر بارخود کو بہتر کرنے کی تگ ودو میں رہتاہوں۔ اگر میں یہ سمجھ لوں کہ میں نے بہت کام کرلیاہے اور مجھے ریہرسل کی ضرورت نہیں ہے تو یہ خیال میرے زوال کا باعث بنے گا۔ میں آج بھی آڈیشن دیتا ہوں اور اس میں کامیاب ہونے پر ہی کسی شو یا ویب سیریز میں کام کرتاہوں۔ میں آڈیشن کے ذریعہ خود کو نیا اداکارتصور کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ اس سے میرے اندر ایک تازگی آتی ہے اور میں نے اپنا کام بخوبی کرتا ہوں۔
سنجیدہ یا مزاحیہ کردار میں سے، آپ کس کو ترجیح دیتے ہیں ؟
ج:میں نے اپنے کریئر میں کئی مزاحیہ کردار نبھائے ہیں جس کی وجہ سے مجھے ایک مزاحیہ اداکار سمجھا جانے لگا تھا اور یہی میری شبیہ بن گئی تھی۔ شائقین کی اسی سوچ کی وجہ سے میں نے لیاقت علی خان جیسا سنجیدہ رول نبھانےکا فیصلہ کیا۔ میں نے کامیڈی بہت کرلی، اسلئے اب سنجیدہ کردار اداکرنا چاہتا ہوں۔ میرے خیال میں لیاقت علی خان کا کردار اس کی شروعات ہے۔
آپ کے اپنے پورے کریئر میں آپ کے ذریعہ نبھایا گیا
وہ کون ساکردار ہے جو آپ کا پسندیدہ ہے؟
ج:میرے خیال میں میرا آل ٹائم فیوریٹ کردار’ وشیس سارہ بھائی‘ ہے۔ میں نے پہلی بار کامیڈی شروع کی تھی اور اسے نبھانے کیلئے بہت محنت کرنی پڑی تھی۔ یہ کردار ۲۰؍ سال گزر جانے کے بعدبھی شائقین کو بہت پسند آتا ہے۔ اسے نبھانے میں مجھے بھی بہت مزہ آیا تھا۔ اس کیلئے میں نے کافی محنت بھی کی تھی۔ اس کے بعد نیلی چھتری والے شو میں میں نے بھگوان داس کا رول نبھایا تھا وہ بھی میرا پسندیدہ کردار رہاہے۔
روشیس کا کردار کس طرح تیار کیا گیا تھا؟
ج:روشیس کا کردار مجھے بنابنایا ہی ملا تھا۔ بس اس میں مجھے آواز دینی تھی اور اسے جسم دینا تھا۔ یہ مجھے پلاٹر کی طرح ملاتھا جسے مجھے اسکرین پر پیش کرنا تھا۔ اس کی پوئیٹری وغیرہ تحریرکردہ تھی۔ بہرحال اس کردار کو نبھانے کیلئے میں بہت محنت کرتا تھا۔ سارہ بھائی ورسیز سارہ بھائی میں سبھی منجھے ہوئے اداکار تھے اور اس وقت میں نیا نیا آیا تھاتو مجھ پر کافی دباؤ ہوتا تھا۔
آپ بہار سے تعلق رکھتے ہیں لیکن آپ نے گجراتی کردار بہت نبھائے ہیں، کوئی خاص وجہ؟
ج:ایسی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ میری شکل ہی ایسی ہے۔ میں ممبئی میں رہتاہوں، اسلئے یہاں لوگ مجھے گجراتی سمجھتے ہیں، اگر میں ہریانہ یا پنجاب چلا جاؤں تو وہاں کے شہری مجھے ہریانوی یا پنجابی سمجھیں گے۔ اسی طرح کشمیر چلا جاؤں تو مجھے کشمیری قرار دیا جائے گا۔ میں بالکل سیکولر آدمی ہوں اور گیاکی سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں ، جہاں کی پہچان ہی امن و محبت ہے۔