سورۂ فاتحہ ہر نماز کی تمام رکعات کا لازمی حصہ ہے، یہ مختصر سورہ جسے فاتحۃ الکتاب بھی کہتے ہیں تمام نمازوں میں پڑھی جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: March 01, 2025, 4:35 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سورۂ فاتحہ ہر نماز کی تمام رکعات کا لازمی حصہ ہے، یہ مختصر سورہ جسے فاتحۃ الکتاب بھی کہتے ہیں تمام نمازوں میں پڑھی جاتی ہے۔
(آج پہلی تراویح: سورۂ فَاتِحَہسے سَیَقُوْلُ کے ربع تک)
سورۂ فاتحہ ہر نماز کی تمام رکعات کا لازمی حصہ ہے، یہ مختصر سورہ جسے فاتحۃ الکتاب بھی کہتے ہیں تمام نمازوں میں پڑھی جاتی ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ تمام تعریفیں جو؛ اب تک کی گئیں یا آئندہ کی جائیں گی سب اللہ کے لائق ہیں، کیوں کہ وہ مہربان ہے، وہی رحم والا ہے، وہی روزِ جزا کا مالک ہے، ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد بھی مانگتے ہیں، اے اللہ!ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے، جو راستہ ان لوگوں کا ہے جن پر تونے اپنا فضل وانعام فرمایا ہے، جن پر نہ تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ لوگ گمراہ ہوئے۔ یہ ہے سورۂ فاتحہ کا خلاصہ، مفسرین نے اسے پورے قرآن کریم کا خلاصہ قرار دیا ہے۔ اس سورہ کے تین بنیادی مضامین ہیں، ایک اللہ تعالی کی ربوبیت، دوسرے اللہ تعالیٰ کا لائق عبادت ہونا، تیسرے طلب ہدایت۔ اس طلب کا جواب قرآن کریم سے دیا گیا ہے، یعنی جو ہدایت تم مانگ رہے ہو وہ قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے۔
سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ بقرہ ہے، اس کا آغاز ذٰلِکَ الْکِتَابُ سے ہوتا ہے، اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جس راہ ہدایت کے تم طلب گار ہو وہ یہی کتاب ہے۔ اس سورہ میں بڑے اہم مضامین بیان کئے گئے ہیں ، پہلے ایمان کے بنیادی اصول، توحید، رسالت اور آخرت کا اجمالی ذکر ہے، آخر میں ان عقائد کا مفصل تذکرہ ہے، درمیان میں عبادات معاملات، معاشرت، اخلاق، اصلاح ظاہر و باطن کے متعلق تفصیلی ہدایات ہیں۔
سورہ کی ابتدا الٓمٓ سے کی گئی ہے، یہ حروف مقطعات ہیں، ان کے بارے میں اکثر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ یہ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، تاہم ان کا وجود بھی فوائد سے خالی نہیں ہے، ان کا پڑھنا باعث ثواب ہے ان کے پڑھنے سے فوائد وبرکات بھی حاصل ہوتے ہیں ، اگرچہ ہمیں ان کا علم نہ ہو۔
سورۂ بقرہ کا آغاز اس آیت سے کیا گیا ہے کہ اس کتاب میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے، یہ کتاب متقین کے لئے رہ نما ہے، اس کے بعد بتلایا گیا ہے کہ متقین کون ہیں اور ان کی کیا صفات ہیں، یہ وہ بندے ہیں جو غیب کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور جو اللہ نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، یہ تین عبادتیں ہیں ، ان میں سے ایک کا تعلق دل سے ہے، دوسری کا تعلق بدن سے ہے اور تیسری کاتعلق مال سے ہے۔ یہ تینوں عبادتیں اس آیت میں جمع کردی گئی ہیں۔ اس کے بعد ان کفار کا ذکر ہے جن کے لئے کفر کا فیصلہ ہوچکا ہے، وہ ایمان کی دولت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم کردئیے گئے ہیں جیسے ابوجہل، ابو لہب وغیرہ، ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے یعنی وہ حق بات کو نہیں سمجھتے اور اُن کے کانوں پر بھی مہر لگادی گئی ہے یعنی حق بات کو متوجہ ہوکر نہیں سنتے اوراُن کی آنکھوں کے سامنے پردہ ڈال دیا گیا ہے کہ انہیں حق کا راستہ نظر نہیں آتا۔ کفار کے بعد منافقین کا بیان ہے۔ آنے والی تیرہ آیتوں میں انہی کا ذکر ہے، وہ دل سے ایمان نہیں لائے، حالاں کہ محض زبان سے ایمان کا اظہار کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ دل سے ماننا بھی ضروری ہے، یہ لوگ ایمان کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں، حالاں کہ ان کے دلوں میں نفاق ہے، اسلام سے نفرت ہے اور مسلمانوں سے حسد اور عناد ہے۔ یہ منافق زمین میں فساد برپا کرنے والے ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو جواب میں یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں، حالاں کہ در حقیقت بے وقوف منافق لوگ ہیں، اہل ایمان بے وقوف نہیں ہیں، یہ لوگ اہل ایمان کے ساتھ استہزاء سے پیش آتے ہیں، یہ محض اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے کہ وہ اس سرکشی میں سر سے پیر تک غرق ہیں۔ منافقین نے بظاہر ایمان قبول کیا ہے اور دل میں کفر چھپا رکھا ہے، ان کی آخرت بھی خراب ہوئی اور یہ لوگ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوئے۔
آگے قرآن کریم نے منافقین کی اس بے راہ روی کو دو مثالوں کی روشنی میں واضح کیا ہے، پھر تمام انسانوں کو اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہوئے کفار سے کہا ہے کہ اگر تمہیں ہماری اس کتاب میں جو ہم نے نازل کی ہے ذرا بھی شک ہو تو اس جیسی کوئی ایک سورہ بنا کر لاؤ اور اس کام میں اپنے معبودان باطلہ سے یا عرب کے فصحاء وبلغاء سے مدد لے لو، اس کے باوجود اگر تم کوئی ایسی سورہ نہ بنا سکو اور یقینا نہیں بنا سکو گے تو اللہ سے ڈرو اور دوزخ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کے لئے جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر ہے۔
ایمان کی نعمت کا ذکر کرنے کے بعد قرآن کریم نے ایک اور بڑی نعمت کا ذکر کیا ہے، یہ نعمت تخلیق آدم علیہ السلام ہے، ان کی تخلیق کا قصہ پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ وہ زمین میں اپنا نائب مقرر کرنا چاہتا ہے اس پر فرشتوں نے عرض کیا کہ کیا آپ دنیا میں ایسی قوم پیدا کرنا چاہتے ہیں جو اس میں فساد برپا کرے گی اور خون بہائے گی اور ہم آپ کی تسبیح وتقدیس بیان کرتے رہتے ہیں، حضرت آد م علیہ السلام کی تخلیق، حضرت حواء علیہا السلام کی پیدائش، ان دونوں کو جنت کے ممنوعہ درخت تک نہ جانے کی ہدایت، شیطان کا حسد اور حضرت آدم اور حضرت حواء علیہما السلام کو اس درخت کے قریب جانے اور پھل کھانے کا مشورہ اور اس کے نتیجے میں ان دونوں کو اور ان کی آنے والی نسل کو بہشت سے زمین پر جاکر رہنے کاحکم یہ مکمل واقعہ یہاں مذکور ہے۔
اس کے بعد بنی اسرائیل کو بطور خاص خطاب کیا گیا ہے اور ان نعمتوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو ان پر نسل در نسل نازل ہوتی رہی ہیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے پاس ہزاروں انبیاء ؑبھیجے گئے، تورات وغیرہ کتابیں نازل کی گئیں، فرعون سے نجات دے کر ان کو شام میں بسایا گیا، ان پر منّ وسَلویٰ نازل کیا گیا، ان کے لئے ایک پتھر سے بارہ چشمےنکالے گئے، مگرا ن کی سرکشی دیکھئے کہ وہ حق پر قائم نہ رہے، انہوں نے پیغمبروں کی اطاعت نہ کی بلکہ بعض پیغمبروں کو قتل تک کرڈالا، تورات کی آیتوں میں تحریف کی، اس کے نتیجے میں ان کے لئے دائمی اور ابدی ذلت لکھ دی گئی اور ان پر ایسے ایسے عذاب مسلط کئے گئے کہ جن کو سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ شنبے کا دن خاص عبادت کے لئے مقر ر ہے، اس دن مچھلی کا شکار مت کرنا، مگر انہوں نے حکم عدولی کی تو اللہ نے ان کی صورتیں مسخ کرکے ان کو بندر بنا دیا۔ یہودیوں کے بارے میں قرآن کریم کا دو ٹوک فیصلہ یہ ہے کہ ان کے دل پتھروں سے زیادہ سخت ہیں، بعض پتھروں سے بڑا نفع پہنچتا ہے مگر ان سے تو کسی طرح کوئی نفع ہی نہیں ہے اور نہ ان سے خیر کی کوئی امید ہے، انہوں نے مال ودولت کے لالچ میں توراۃ میں لفظی اور معنوی تحریف بھی کرڈالی۔
لگ بھگ ۷۷؍آیات تک اس قوم کی بد اعمالیوں ، بدعہدیوں اور ان پر نازل ہونے والے مختلف عذابوں کا عبرت ناک تذکرہ ہے، کیوں کہ بنی اسرائیل کے واقعات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بھی آیا ہے اس لئے بنی اسرائیل کا بیان ختم کرکے اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اور ان کے ذریعے بنائے گئے کعبۃ اللہ کا بہ طور خاص ذکر کیا گیا ہے، سب سے پہلے تو یہ بیان کیا گیا کہ بیت اللہ مقام امن ہے اور ہر سال لوگ وہاں حج کے لئے جمع ہوتے ہیں، مقام ابراہیم کا ذکر بھی اسی آیت میں ہے، یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانۂ کعبہ تعمیر کیا تھا اور وہ دعا بھی مذکور ہے جو بہ وقت بنائِ کعبہ انہوں نے کی تھی کہ اے اللہ اس جگہ کو شہر امن بنا، اس کے رہنے والوں کو میوے عطا کر اور ہماری اولاد میں ایک فرماں بردار جماعت پیدا فرمادے اور ان میں ایک رسول ان ہی میں کا بھیج دے تاکہ وہ انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے، تیری کتاب کی اور حکمت کی باتوں کی تعلیم دے اور ان کی اصلاح کرے۔ بلاشبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں قبول ہوئی۔
یہاں سے قرآن کریم کا دوسرا پارہ شروع ہوتا ہے، اس کا آغاز تحویل قبلہ کے معاملے سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد بتلایا کہ اے مسلمانو!جس طرح تمہارا قبلہ تمام قبلوں سے افضل ہے ایسے ہی ہم نے تم کو تمام امتوں سے افضل اور تمہارے پیغمبر کو تمام پیغمبروں سے کامل اور برگزیدہ بنایا ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو کچھ نصیحتیں ہیں مثلاً یہ کہ وہ صبر اور نماز کا دامن تھامے رکھیں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے کو مردہ نہ کہیں، آزمائشوں سے نہ گھبرائیں بلکہ ایسے حالات میں إنا للّٰہ پڑھا کریں۔
اس کے بعد حج کا اور صفا ومروہ کا بیان ہے، زمین و آسمان، رات اور دن سمندروں میں چلنے والی کشتیاں، ہوائیں، بادل وغیرہ سب اللہ کے حکم کے تابع ہیں اور ان میں غور فکر کے لئے بہت کچھ ہے، آخری رکوع میں لوگوں کو حلال وپاکیزہ رزق کھانے کی، بُرے کاموں اور بے حیائی کے افعال سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتلایا گیا ہے کہ تمہارے لئے مردار، خون اور خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا جانور حرام ہے۔
(کل کا کالم دوسری تراویح کی مناسبت سے)