• Thu, 06 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سالگرہ مبارک: پردیپ نےاپنے گیتوں سے حب الوطنی کے جذبہ کو جلا بخشی

Updated: February 06, 2025, 12:21 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

یوں تو ہندوستانی سنیما کی دنیا میں شہیدفوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اب تک نہ جانے کتنے گیت بنائے جاچکے ہیں لیکن ’اے میرے وطن کے لوگو، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی، جو شہید ہوئےہیں ان کی، ذرا یاد کرو قربانی‘جیسےگیت لکھنے والے وطن پرست رام چندر دویدی عرف پردیپ کے اس نغمہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔

Pradeep energizing with his songs. Photo: INN
اپنے گیتوں سے جوش بھرنے والے پردیپ۔ تصویر: آئی این این

یوں تو ہندوستانی سنیما کی دنیا میں شہیدفوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اب تک نہ جانے کتنے گیت بنائے جاچکے ہیں لیکن ’اے میرے وطن کے لوگو، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی، جو شہید ہوئےہیں ان کی، ذرا یاد کرو قربانی‘جیسےگیت لکھنے والے وطن پرست رام چندر دویدی عرف پردیپ کے اس نغمہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ۱۹۶۲ء میں لکھے جانے والے اس نغمہ کو آج بھی ہندوستان کے عظیم محب وطن گیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ 
 ۱۹۶۲ء میں جب ہندوستان اور چین کی جنگ اپنے عروج پر تھی تب شاعرپردیپ `پرم ویر میجر شیطان سنگھ کی بہادری اور قربانی سے کافی متاثر ہوئے اور ملک کے بہادروں کو خراج عقیدت دینے کیلئے انہوں نے ’اے میرے وطن کے لوگو …‘ گانا لکھا۔ سری رام چندر کی موسیقی سےسجےاس گیت کو سن کر اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہروکی آنکھوں سے آنسو چھلک آئے تھے۔ 
 ۶؍ فروری۱۹۱۵ءکومتوسط گھرانےمیں پیدا ہونے والے پردیپ کوبچپن ہی سےکویتائیں لکھنے کاشوق تھا۔ ۱۹۳۹ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سےگریجویشن کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے استاد بننےکی کوشش کی لیکن اسی دوران انہیں ممبئی میں ہونےوالے ایک مشاعرےمیں حصہ لینے کی دعوت ملی۔ مشاعرے میں ان کے گیتوں کو سن کر بامبےٹاکیز اسٹوڈیو کے مالک همانشو رائے کافی متاثر ہوئے اورانہوں نے پردیپ کو اپنے بینر تلے بن رہی فلم `کنگن کے گیت لکھنے کی پیشکش کی۔ سال۱۹۳۹ میں آئی فلم کنگن میں ان کے گیتوں کی کامیابی کےبعدپردیپ بطور نغمہ نگار فلمی دنیا میں اپني پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس فلم کیلئےلکھے ۴؍ گیتوں میں سے پردیپ نے۳؍ گیتوں کو اپنی آواز دی۔ ۱۹۴۰ءمیں ہندوستان کی آزادی کی جدوجہدمیں شاعر پردیپ بھی شامل ہو گئے اوراپنی نظموں کے ذریعہ بیداری پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ 
 ۱۹۴۰ء میں گیان مکھرجی کی ہدایتکاری میں انہوں نے فلم `بندھن `کیلئےبھی گیت لکھا۔ ’چل چل رے نوجوان ..‘ کی دھن والے نغمہ نےآزادی کے ديوانوں میں ایک نیا جوش بھرنے کا کام کیا۔ اپنےنغمے کو پردیپ نے غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کے ہتھیار کےطورپراستعمال کیا۔ اس کے بعد پردیپ نے بامبےٹاکیز کی ہی فلم نیاسنسار، انجان، پنر ملن، جھولا اور قسمت کیلئےبھی گیت لکھے۔ ۴۰ء کی دہائی میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی انگریزی حکومت کے خلاف بھارت چھوڑو تحریک اپنے عروج پر تھی۔ ۱۹۴۳ء میں آئی فلم ’قسمت ‘ میں پردیپ کے لکھے نغمہ’ آج ہمالیہ کی چوٹی سے پھر ہم نے للکارا ہے‘ جیسے نغمہ نے نہ صرف ہندوستانیوں کو جھنجھوڑا بلکہ وہ انگریزوں کی ترچھی نظر کے بھی شکار ہوئے۔  پردیپ کو فلمی دنیا میں ان کی اہم خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں ۱۹۹۸ء میں فلم انڈسٹری کے سب سے بڑے ایوارڈ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ وہ ۱۹۶۱ء میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ، فلم جرنلسٹ ایوارڈ، امپا ایوارڈ، عظیم اداکار ایوارڈ، راجیو گاندھی ایوارڈ، سر سنگار ایوارڈ، سنت گیانیشور ایوارڈ اور۱۹۹۳ء میں نیشنل انٹی گریشن ایوارڈ سے سرفراز کئے گئے۔ اپنے نغموں کے ذریعہ عوام کے دلوں کو محظوظ کرنے والے پردیپ۱۱؍ دسمبر۱۹۹۸ء کواس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK