بالی ووڈ میں اپنی موسیقی سے سامعین کے دلوں پرجادو کرنے والے مایہ ناز موسیقارراہل دیو برمن عرف آر ڈی برمن کی آوازکانوں میں آج بھی گونجتی ہے جسے سن کر سامعین کے دل سے بس ایک ہی صدا نکلتی ہے’’چرا لیا ہے تم نے جو دل کو.....‘‘۔ ۶۰ء سے ۹۰ء کی دہائی تک انہوں نے ۳۳۱؍ فلموں کو اپنی موسیقی سے سجایا۔ ’’۱۹۴۲ء: اے لواِسٹوری‘‘ ان کی آخری فلم ثابت ہوئی۔
آرڈی برمن، آشا بھوسلے اور کشور کمار کی ایک یادگار تصویر۔ تصویر: آئی این این
بالی ووڈ میں اپنی موسیقی سے سامعین کے دلوں پرجادو کرنے والے مایہ ناز موسیقارراہل دیو برمن عرف آر ڈی برمن کی آوازکانوں میں آج بھی گونجتی ہے جسے سن کر سامعین کے دل سے بس ایک ہی صدا نکلتی ہے’’چرا لیا ہے تم نے جو دل کو.....‘‘۔ ۶۰ء سے ۹۰ء کی دہائی تک انہوں نے ۳۳۱؍ فلموں کو اپنی موسیقی سے سجایا۔ ’’۱۹۴۲ء: اے لواِسٹوری‘‘ ان کی آخری فلم ثابت ہوئی۔
آر ڈی برمن کی پیدائش۲۷؍جون ۱۹۳۹ء کو کلکتہ (کولکاتا)میں ہوئی۔ ان کے والد ایس ڈی برمن مشہور فلمی موسیقار تھے۔ گھر میں موسیقی کا ماحول تھا، ان کا رجحان بھی موسیقی کی جانب ہو گیا۔ انہوں نے اپنے والد سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ استاد علی اکبر خان سے سرودکی تعلیم حاصل کی۔ فلم انڈسٹری میں پنچم کے نام سے مشہور آر ڈی برمن کو یہ نام اس وقت ملا جب انہوں نے اداکار اشوک کمار کو موسیقی کے پانچ سر’ سارے گاماپا ‘گا کر سنایا۔ ۹؍ برس کی چھوٹی سی عمر میں پنچم دا نے اپنی پہلی دھن’’ا ے میری ٹوپی پلٹ کے آ‘‘ بنائی۔ بعدازاں ان کے والد سچن دیو برمن نے اس دھن کا استعمال۱۹۵۶ء میں ریلیز ہونے والی فلم فنٹوش میں کیا۔ علاوہ ازیں ان کی تیار کردہ دھن’’ سر جو تیراچکرائے‘‘ بھی گرودت کی فلم ’’پیاسا‘‘ میں استعمال کی گئی۔
آر ڈی برمن نے فلمی کریئر کا آغاز اپنے والد کے ساتھ بحیثیت معاون موسیقار کیا۔ ان فلموں میں ’’ چلتی کا نام گاڑی‘‘(۱۹۵۸ء) اور ’’کاغذ کے پھول‘‘(۱۹۵۹ء) جیسی سپر ہٹ فلمیں بھی شامل ہیں۔ بحیثیت موسیقار انہوں نے ۱۹۶۱ء میں اداکار محمود کی فلم ’’چھوٹے نواب‘‘ سے اپنے سفر کا آغاز کیاکیا لیکن اس فلم سے انہیں کوئی خاص شہرت نہیں مل سکی۔ فلم چھوٹے نواب میں ان کے کام کرنے کا قصہ دلچسپ ہے۔ ہوا یوں کہ فلم چھوٹے نواب کیلئے محمود، موسیقار ایس ڈی برمن کو لینا چاہتے تھے لیکن ان کی ایس ڈی برمن سے کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ آر ڈی برمن چونکہ ایس ڈی برمن کے بیٹے تھے لہٰذا محمود نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بارے میں آر ڈی برمن سے بات چیت کریں گے۔ ایک دن محمودآرڈی برمن کو اپنی گاڑی میں بٹھا کرسیرو تفریح کے لئے نکل گئے۔ سفر اچھا تھا، اس لئے آر ڈی برمن اپنا ماؤتھ آرگن نکال کر بجانے لگے۔ ان کی دھن سے محمود اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایس ڈی برمن کے بجائے آر ڈی برمن کو اپنی فلم چھوٹے نواب میں موسیقی دینے کاموقع دیا۔
آر ڈی برمن نے فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کیلئےتقریباً ۱۰؍برسوں تک کافی محنت و مشقت کی۔ فلم ساز وہدایت کارناصر حسین کی فلم’’تیسری منزل‘‘(۱۹۶۶ء) کاسپر ہٹ گانا ’آجا آجا میں ہوں پیار ترا ‘ اور ’او حسینہ زلفوں والی‘ جیسے سدابہارنغموں نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ۱۹۷۲ء پنچم دا کے فلمی کریئر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس سال ان کی موسیقی کا جادوفلم سیتا اور گیتا، میرے جیون ساتھی، بامبے ٹو گوا، پریچے اور جوانی دیوانی جیسی کئی فلموں میں چھایا رہا۔ چار دہائی سے بھی طویل عرصہ کےاپنے فلمی کریئر میں آر ڈی برمن نے ۳۳۱؍ ہندی فلموں کیلئے موسیقی دی۔ ہندی کے علاوہ بنگلہ‘ تیلگو‘ تمل‘ آسامی اور مراٹھی فلموں میں بھی ان کی موسیقی کا جادو چھایا رہا۔ ۴؍ جنوری۱۹۹۴ء کو وہ اس دنیاسے کوچ کرگئے۔