• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

برسی پر خراج عقیدت: جاں نثار اختر کی شاعری میں حقیقت نگاری پائی جاتی ہے

Updated: August 19, 2024, 11:30 AM IST | Mumbai

۱۹۴۷ءمیں تقسیم کے بعدملک بھر میں ہو رہےفرقہ وارانہ فسادات سےتنگ آکر اختر گوالیار چھوڑکربھوپال آ گئے۔ بھوپال میں وہ مشہور حمیدیہ کالج میں اردوکے پروفیسر مقرر ہوگئے لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کا دل وہاں نہیں لگا اور وہ اپنے خوابوں کو نئی شکل دینے کے لئے ۱۹۴۹ءمیں ممبئی آ گئے۔

Famous poet and songwriter Jan Nisar Akhtar. Photo: INN.
مشہور شاعر اور نغمہ نگار جاں نثار اختر۔ تصویر: آئی این این۔

ہندی فلمی دنیا میں جاں نثار اخترکو ایک ایسے نغمہ نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نےاپنے نغموں کو عام زندگی کے ساتھ منسلک کرکے ایک نئے دور کا آغازکیا۔ جاں نثار اختر ۱۹۱۴ء میں مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مضطر خیرآبادی بھی ایک مشہور شاعر تھے۔ ان کا بچپن سے شاعری سے گہرا تعلق تھا۔ انہوں نےزندگی کے اتار چڑھاؤ کو بہت قریب سےدیکھا تھا اسی لئے ان کی شاعری میں زندگی کے فسانےکو بڑی شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کی غزلیں بھی جو مزاج کے اعتبار سے جدید تربھی ہیں اور پرانی شعری روایت کا تسلسل بھی۔ ان کی شاعری نعروں کی شاعری نہیں۔ مجموعی طورپریہ شاعری کلاسیکی، رومانیت، حقیقت نگاری کا امتزاج اور عاشقانہ و نظریاتی شاعری کا نمونہ ہے۔ 
۱۹۴۵ءاخترکیلئےخوشیوں کی سوغات لے کر آیا اس سال ان کا بیٹاپیدا ہوا تھا جس کا نام انہوں نے ’جادو‘ رکھا جوبعدمیں ’جاوید اختر‘ کےنام سے فلم انڈسٹری میں مشہور ہوئے۔ ۱۹۴۷ءمیں تقسیم کے بعدملک بھر میں ہو رہےفرقہ وارانہ فسادات سےتنگ آکر اختر گوالیار چھوڑکربھوپال آ گئے۔ بھوپال میں وہ مشہور حمیدیہ کالج میں اردوکے پروفیسر مقرر ہوگئے لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کا دل وہاں نہیں لگا اور وہ اپنے خوابوں کو نئی شکل دینے کے لئے ۱۹۴۹ءمیں ممبئی آ گئے۔ ممبئی پہنچنےپرانہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ دنوں تک وہ مشہور ناول نگار عصمت چغتائی کےیہاں بھی رہے۔ انہوں نےسب سے پہلے فلم ’شکایت‘ کیلئے نغمہ لکھالیکن فلم کی ناکامی کے بعد انہیں اپنا فلمی کریئرڈوبتانظرآیا لیکن انہوں نےہمت نہیں ہاری اورجدوجہد جاری رکھی۔ آہستہ آہستہ ممبئی میں ان کی شناخت بنتی گئی لیکن ۱۹۵۲ء میں انہیں گہرا صدمہ پہنچا جب ان بیگم کا انتقال ہو گیا۔ 
تقریباً۴؍سال تک ممبئی میں جدوجہد کرنے کےبعد ۱۹۵۳ء میں فلم’نغمہ‘میں گلوکارہ شمشادبیگم کی آوازمیں ’بڑی مشکل سے دل کی بیقراری میں قرار آیا‘ کی کامیابی سےوہ فلم انڈسٹری میں خود کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ فلم نغمہ کی کامیابی کےبعداخترکو اچھی فلموں کی پیشکش ملنےلگی۔ اس دوران، انہوں نے چھوٹے بجٹ کی فلمیں بنائیں جس میں انہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اچانک ان کی ملاقات موسیقار اوپی نیر سے ہوئی جن کے موسیقی ہدایت میں انہوں نے فلم ’باپ رے باپ‘ کیلئے ’اب یہ بتا جائیں کہاں ‘ اور ’دیوانہ دل اب مجھے راہ دکھائے‘ جیسےنغمےلکھے۔ آشا بھوسلے کی آواز میں یہ نغمے کافی مقبول ہوئے۔ اس کے بعد وہ او پی نیر کے پسندیدہ موسیقار بن گئے۔ ۱۹۵۶ءمیں اوپی نیرکی موسیقی سےسجی گرودت کی فلم سی آئی ڈی میں ’اے دل ہے مشکل جینا یہاں ذرا ہٹ کے ذرا بچ کے یہ ہے بمبئی میری جاں ‘ کی کامیابی کے بعد انہوں نے کبھی مڑکر نہیں دیکھا۔  ۱۹۷۶ءمیں اخترکی قیمتی شراکت کو دیکھتے ہوئےانہیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈسےنوازا گیا۔ تقریباً ۴؍دہائیوں کے اپنے فلمی کریئرمیں انہوں نے ۸۰؍ فلموں کیلئےنغمےلکھے۔ اپنے نغموں سے سامعین کے دل میں خاص شناخت بنانے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگارجاں نثار اختر ۱۹؍اگست ۱۹۷۶ءکو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK