• Sun, 05 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ساحرلدھیانوی نے فلموں کے ذریعہ اُردو زبان کوعوام و خواص تک پہنچانے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے

Updated: December 15, 2024, 1:08 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

اپنے ہم عصروں میں ساحرؔ لدھیانوی اس لحاظ سے ممتاز تصور کئے جاتے ہیں کہ انہوں نےفلمی نغموں میں بھی ادبی تقاضوں کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ انہوں نے فلموں کے ذریعہ اُردو زبان کو عوام و خواص تک پہنچانے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔

Sahir Ludhianvi who has earned a name equally in film and literature. Photo: INN
ساحر لدھیانوی جنہوں نے فلم اور ادب، دونوں میں یکساں نام کمایا ہے۔ تصویر: آئی این این

اپنے ہم عصروں میں ساحرؔ لدھیانوی اس لحاظ سے ممتاز تصور کئے جاتے ہیں کہ انہوں نےفلمی نغموں میں بھی ادبی تقاضوں کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ انہوں نے فلموں کے ذریعہ اُردو زبان کو عوام و خواص تک پہنچانے کا اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اپنے نغموں میں انہوں نے جس طرح کی لفظیات کااستعمال کیا ہے، اس کی وجہ سے ہم کسی بھی نغمے کو سنتے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ نغمہ ساحرؔ کا لکھا ہوا ہے۔ 
’’آئو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے‘‘.... کل کیلئے خواب بُننے والا وہ مردِ مجاہد، وہ فولادی ارادوں والا انسان، جس نے کبھی حالات سے ہار نہیں مانی، جس نے انتہائی مایوسی اور کشمکش کے دنوں میں بھی اُمید کی روشنی اپنے دل ودماغ میں بسائے رکھی، اب ایک ایسے خواب میں ڈوبا ہوا ہے جس کی تعبیر وہ کسی سے کبھی معلوم نہ کر سکے گا۔ 
 ساحرؔ لدھیانوی کے دادا فتح محمد لدھیانہ کے ایک بہت بڑے رئیس اور زمیندار تھے۔ ساحرؔ لدھیانوی کے والد کا نام چودھری فضل محمد تھا۔ چودھری فضل محمد نے۱۹۲۰ء میں ایک لڑکی سردار بیگم سے نکاح کر لیاجبکہ اُن کی پہلے سے ہی کئی بیویاں موجود تھیں۔ دراصل وہ اپنے علاقے کے ایک بڑے جاگیر دار تھے اور ان دنوں جاگیر داروں کیلئے ایک سے زائد بیویاں رکھنا اُن کیلئے شان و شوکت کی بات تھی۔ سردار بیگم کشمیری نسل کی تھیں۔ ۸؍مارچ۱۹۲۱ء کو سردار بیگم سے جو بیٹا پیدا ہوا، چودھری فضل محمد نے اُس کا نام عبدالحئی رکھا۔ چند برسوں کے بعد ہی سردار بیگم کا اپنے شوہر فضل محمد سے جھگڑا ہو گیا۔ اس کے بعد وہ عبدالحئی کو ساتھ لے کر اپنے بھائیوں کے گھر چلی گئیں۔ اُس وقت عبدالحئی کی عمر صرف ۷؍ سال تھی۔ چودھری فضل محمد نے اُس سات سالہ بچے کو اپنی سرپرستی میں لینے کیلئے عدالت میں اپیل داخل کی۔ عدالت میں جب عبدالحئی سے پوچھا گیا کہ وہ والدین میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، تو اُس نے اپنی کم سخن ماں کی طرف اشارہ کر دیا اور اس طرح عدالتی فیصلے سے عبدالحئی کو باپ کے بجائے ماں کی سرپرستی میں دے دیا گیا۔ 
 لدھیانہ کے خالصہ اسکول میں ۱۹۲۸ء میں عبدالحئی کا داخلہ ہوا۔ ۱۹۳۷ء میں ہائی اسکول کرکے وہ انٹر میں داخل ہوئے تو ان کا رجحان شعر و شاعری کی طرف ہو گیا اور اس طرح عبدالحئی، ساحرؔ لدھیانوی بن گئے۔ 
  اپنی والدہ کی تربیت میں پروان چڑھنے والے ساحر نے اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم مولانا فیاضؔ ہریانوی سے حاصل کی۔ اُنہی کے فیض تربیت سے ساحرؔ کو نہ صرف اِن زبانوں پر عبور حاصل ہو گیا بلکہ شعر وادب میں بھی انہیں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ مولانا فیاض ہریانوی بھی شعر و شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ اسکول اور کالج میں اُن کا شمار اچھے اور محنتی طلبہ میں ہوتا تھا۔ ۱۹۳۹ء میں انٹر پاس کرنے کے بعد ساحرؔ نے لدھیانہ کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ شعر و شاعری سے شوق رکھتے ہوئے انہوں نے یہاں سیاست اور معاشیات کے مضامین میں بھی خاصی دلچسپی دکھائی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہندوستان کی تحریکِ آزادی اپنے شباب پر تھی اور انگریز بھی اپنے ظلم و جبر کا استعمال اسلحہ اور سازشوں کے زور پر دل کھول کر کررہے تھے۔ باپ کے ظالمانہ رویے کی وجہ سے ساحرؔ کے دل میں جاگیردارانہ نظام کے تئیں نفرت کا بیج پہلے ہی موجود تھا لہٰذا یہ سب چیزیں ساحرؔ کی شاعری میں اس طرح گھل مل گئیں کہ ان کا رومان بھی حالاتِ حاضرہ کی بھٹّی میں تپ کر اُن کے شعروں میں ڈھلنے لگا۔ 
 ساحرؔ کا ابھی کالج میں بی اے کا پہلا ہی سال تھا کہ کالج کے پرنسپل کی لڑکی سے اُنہیں عشق ہو گیا۔ اس کی پاداش میں انہیں کالج سے نکال دیا گیا۔ برسوں بعد جب ساحرؔ ایک بڑے شاعر کے طور پر مشہورہوگئے اور فلمی دُنیا کے مقبول ترین نغمہ نگار بن گئے تو اُسی کالج میں اُن کے اعزاز میں ایک جلسہ ہوا۔ اس جلسے میں ساحرؔ نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’نذرِ کالج‘ پڑھی۔ اس کے آخری مصرعے کچھ یوں تھے۔ 
معصومیوں کے جرم میں بدنام بھی ہوئے
تیرے طفیل مورد الزام بھی ہوئے
اس سر زمیں پہ آج ہم اک بار ہی سہی
دنیا ہمارے نام سے بیزار ہی سہی
لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں 
گریاں نہیں تو یاں سے نکالے ہوئے تو ہی
 بی اے کے آخری سال میں وہ لدھیانہ سے لاہور منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لے لیا اور اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر چنے گئے۔ ساحرؔ کا اولین مجموعۂ کلام ’تلخیاں ‘ زمانۂ طالب علمی ہی میں شائع ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ سے ایک اُبھرتے ہوئے نوجوان شاعر کی حیثیت سے ادبی دُنیا میں ان کی شناخت قائم ہوچکی تھی۔ ان کا یہ مجموعہ اتنا مقبول ہوا کہ اسے ’دیوانِ غالبؔ‘ کے بعد اردو شاعری میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب قرار دیا جاتا ہے۔ اس مجموعے کے اب تک پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے پہلے ہی صفحے پر ساحرؔ کا یہ شعر درج ہے۔ 
دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں 
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں 
 اِس ایک شعر ہی سے ساحرؔ کی شاعری کے رنگ وآہنگ کا پتہ چل جاتا ہے۔ اِس سے پہلے اور نہ بعد میں کسی اردو شاعر کو یہ امتیاز حاصل ہوا کہ اتنی کم عمر میں اتنی بڑی تعداد میں کسی کا کوئی شعری مجموعہ فروخت ہوا ہو۔ جن دنوں وہ دیال سنگھ کالج میں زیرتعلیم تھے، لاہور میں مکتبہ اردو والوں کے رسالے ’ادب لطیف‘ میں ۴۰؍ روپے ماہانہ تنخواہ پر ایڈیٹر بھی مقرر ہو گئے۔ لاہور ہی میں ساحرؔ کو رسالہ ’سویرا‘ اور ’شاہکار‘ کی ادارت کے مواقع بھی ملے۔ اُس وقت تک پنجابی کی مشہور شاعرہ اور ناول نگار امرتا پریتم کی شادی ہو چکی تھی۔ وہ آل انڈیا ریڈیو، لاہور میں انائونسر تھیں۔ لاہور سے پہلے ساحرؔ کی ایک ملاقات امرتا پریتم سے امرتسر کے قریب پریت نگر کے ایک ادبی سالانہ جلسے میں ہو چکی تھی۔ لاہور میں امرتا اور ساحرؔ کی دوستی ادبی حلقوں میں کافی گفتگو کا موضوع بنی رہی۔ خود امرتا پریتم نے اپنی سوانح ’رسیدی ٹکٹ‘ میں ساحرؔ سے اپنی دوستی کے واقعات بے باکی کے ساتھ تحریر کئے ہیں۔ 
 ۱۹۸۲ء سے۱۹۸۸ء کے درمیان، مَیں جب ’اسٹار پبلی کیشنز‘ کے فلمی ماہنامہ ’مووی اسٹار‘ میں مدیر تھا، تو بارہا امرتا پریتم کے یہاں میرا جانا ہوا۔ ان دنوں جب بھی میں امرتا پریتم کے گھر گیا، میں نے چاروں طرف، وہاں کے درودیوار پر، ڈرائنگ روم میں اور اِمروز کی پینٹنگ میں، وہاں کی سجاوٹ اور فرنیچر میں، غرض ہر جگہ ساحرؔ کی موجودگی کو محسوس کیا ہے۔ ایک بار جب میں نے امرتا سے یادگار کے طور پر آٹوگراف کی فرمائش کی تو انہوں نے پنجابی زبان میں لکھا۔ 
’’پرچھائیوں کے پیچھے بھاگنے والو! سینے میں جو آگ سلگتی ہے، اس کی کوئی پرچھائی نہیں ہوتی۔ ‘‘
 بہرحال، یہاں میرا مقصد امرتا پریتم اور ساحرؔ کی دوستی کی تفصیلات میں جانے کا نہیں ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ساحرؔ لدھیانہ آگئے اور پھر جنوری۱۹۴۶ء میں بمبئی چلے گئے۔ ہندوستان کی آزادی کے نتیجے میں جو فرقہ وارانہ آگ پھیلی، اس میں ساحرؔ بھی جھلسے کیونکہ ان کی ماں سردار بیگم فسادات میں کہیں کھو گئیں۔ ساحرؔ بمبئی چھوڑکر اپنے دوست حمید اختر کے ساتھ لاہور گئے اور کافی جدوجہد کے بعد ماں کو تلاش کر لیا۔ ستمبر۱۹۴۷ء میں جب ساحرؔ دوبارہ لاہور گئے تو تقسیم ہند کے نتیجے میں امرتا پریتم اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ ہندوستان آچکی تھیں۔ ساحرؔ بھی جون۱۹۴۸ء میں لاہور سے دہلی منتقل ہوگئے اور تقریباً ایک سال تک دہلی میں رہے۔ دہلی میں ساحرؔ لدھیانوی حالیؔ پبلشنگ ہائوس سے وابستہ ہو گئے اور یہیں سے انہوں نے ماہنامہ ’شاہراہ‘ کا اجراء کیا۔ 
 ۱۹۴۹ء میں ساحرؔ جب دُوسری بار بمبئی گئے تو وہاں ہندوستانی کلامندر کی فلم ’آزادی کی راہ پر‘ کیلئے گانے لکھوانے کی غرض سے فلمساز کلونت رائے نے ساحرؔ کو بلوایا تھا۔ اس فلم کے ۴؍ گانے ساحرؔ نے لکھے تھے۔ پہلے گانے کے بول تھے ’’بدل رہی ہے زندگی‘‘ مگر ان گانوں کو زیادہ مقبولیت نہیں ملی۔ ۱۹۵۰ء میں ساحرؔ نے مستقل طور پر دہلی کو الوداع کہہ کر بمبئی میں سکونت اختیار کر لی اور نغمہ نگاری پر پوری توجہ لگادی۔ ۱۹۴۹ء کے بعد فلمی زندگی کی مصروفیات نے ساحرؔ کو اِس طرح گھیر لیا کہ تخلیقی شاعری کیلئے وقت نکالنا اُن کیلئے مشکل ہو گیا۔ اس کی تلافی انہوں نے اس طرح کی کہ فلمی گیتوں کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنا لیا اور فلموں کیلئے انہوں نے جو گیت اور غزلیں لکھیں، ان میں اپنے سیاسی اور سماجی تصورات کے اظہار کی بھی گنجائش نکال لی۔ 
 ۱۹۵۸ء میں ساحرؔ نے فلمساز رمیش سہگل کی فلم ’پھر صبح ہوگی‘ کے نغمے لکھے۔ یہ فلم عالمی شہرت یافتہ ناول نگار دوستوسکی کے مشہور زمانہ ناول ’کرائم اینڈ پنش مینٹ‘ کے مرکزی خیال پر بنائی گئی تھی۔ راج کپور کے پسندیدہ میوزک ڈائریکٹر شنکر جے کشن اس فلم کا میوزک تیار کرنے والے تھے مگر ساحرؔ نے کہا کہ اس فلم کا میوزک وہی بنائے گا جس نے مذکورہ ناول پڑھا ہوگا۔ تب موسیقار خیام کو اس فلم کی موسیقی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس طرح انہوں نے ’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘ کی دھن تیار کی۔ اس کے بعد کئی فلموں میں ساحر ؔ لدھیانوی کے نغموں کو خیام نے اپنی دھنوں سے سجایا۔ انہیں فلموں میں ’کبھی کبھی‘ بھی ایک اہم فلم ہے۔ 

ساحرؔ نے نہ صرف یہ کہ اپنی شاعری کے معیار کو گرنے نہیں دیا بلکہ فلمی شاعری کے معیار کو بھی بلند کیا اور اُس بدذوقی کی روک تھام کی جسے فلم بینوں پر مسلط کیا جا رہا تھا۔ فلمی دُنیا سے وابستہ ہونے کے بعد اگرچہ ان کی شعر گوئی کی رفتار نسبتاً کم ہو گئی لیکن شاعر کی حیثیت سے ان کی مقبولیت میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ بہت کم ادیبوں اور شاعروں کو ان کی زندگی میں اتنی شہرت اور عزت حاصل ہوتی ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں ساحر ؔ کافیخوش قسمت رہے۔ 
 ساحرنے اپنی شاعری میں جہاں عورت کی عزت واحترام کی حمایت کی ہے، وہیں اپنے نغموں میں بھی وہ عورت پر ہونے والے ظلم وستم کے خلاف کھل کر آواز اُٹھاتے ہیں۔ فلم ’پیاسا‘ کا نغمہ ’’یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے‘‘ اور فلم ’سادھنا‘ کا نغمہ ’’عورت نے جنم دیا مردوں کو‘‘ اور فلم ’انصاف کا ترازو‘ میں ساحرؔ کا لکھا گیت ’’لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں ‘‘ اس بات کے شاہد ہیں۔ وہ زندگی بھر جنگ وجدل کے مخالف رہے۔ وہ جانتے تھے کہ سیاستداں اکثر اپنے سیاسی مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہزاروں بے گناہوں کا خون بہا دیتے ہیں۔ درحقیقت وہ قاتل اور لٹیرے ہیں، وہ انسانی جان کی قیمت نہیں جانتے۔ 
 ساحرؔ کی ایک مشہور نظم ’چکلے‘ سننے کے بعد اُس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ حالانکہ یہ نظم ساحرؔ کے لاہور کے زمانے کی ہے مگر آزادی کے بعد یہ نظم فلم ’پیاسا‘ میں شامل ہوئی تو پورے برصغیر میں دھوم مچ گئی۔ اکثر مشاعروں میں لوگ ساحرؔ سے فرمائش کرکے یہ نظم سنا کرتے تھے۔ 
 ساحرؔ شروع ہی سے انجمن ترقی پسند مصنّفین سے وابستہ ہو گئے تھے مگران کی انقلابی اور سیاسی شاعری حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت اور نعرہ بازی سے پاک ہے۔ انہوں نے بے خوفی کے ساتھ دو ٹوک انداز میں اپنے خیالات اپنی شاعری کے ذریعہ پیش کر دئیے ہیں۔ ان کی شاعری محض زُلف و رُخسار کی آئینہ دار نہیں بلکہ پُرخیال ہے اور وہ انسان کو ذہنی خوراک مہیا کراتی ہے۔ اس کے دل ودماغ میں نئی نئی فکر کے بیج بوتی ہے، نئے نئے احساسات کو جنم دیتی ہے۔ وہ یقیناً ساحرؔ کی روح کی آواز ہے۔ ساحرؔ کی مقبول نظموں میں ’تاج محل‘ کو اتنا پسند کیا جاتا تھا کہ جب کسی مشاعرے میں ساحرؔ مائک پر آتے تو لوگ ’تاج محل تاج محل‘ کہہ کر چلّانے لگتے تھے۔ ساحرؔ تنہا ایسے شاعر ہیں جنہوں نے صدیوں سے محبت کی عظیم اور لاثانی یادگار مانے جانے والے ’تاج محل‘ کے سائے میں اپنے محبوب سے ملنے سے انکار کر دیا اور تاج محل کے بارے میں ایک بالکل نیا اور اچھوتا نظریہ عوام کے سامنے پیش کیا۔ 
 ساحرؔ اور مجروحؔ سے پہلے فلمی نغمہ نگاری میں ٹھیٹ ادبی قسم کی لفظیات اور ادبی نظموں کے استعمال کی قطعی گنجائش نہیں تھی لیکن ساحرؔ نے اپنی تمام ادبی نظموں کو فلموں میں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا کہ وہ فلم کا حصہ ہی معلوم ہوتی ہیں۔ فلم ’لیلیٰ مجنوں ‘ کے ایک نغمے کا یہ بند ملاحظہ فرمائیں۔ 
بہت رنجور ہے یہ، غموں سے چور ہے یہ
خدا کا خوف کھائو، بہت مجبور ہے یہ
  اس بند میں لفظ ’رنجور‘ ساحرؔ جیسا نغمہ نگار ہی استعمال کر سکتا ہے۔ ساحرؔ اپنی زندگی میں ایک چیلنج تھے ہمارے روایتی شاعروں اور ہماری روایتی شاعری کیلئے۔ انہوں نے اپنا قلم اُٹھایا تو ماضی کی عشقیہ شاعری کوپسینہ آگیا۔ معاشرے کی فرسودہ روایات کی دھجیاں بکھر گئیں۔ ساحرؔ نے اردو شاعری میں ایک نئے دَور کا آغاز کیا۔ انہوں نے خواص کے بجائے عوام کیلئے انقلابی شاعری کے دروازے کھول دئیے اور اپنی شاعری کو عوامی رنگ میں پیش کیا۔ موجودہ زندگی کے مسائل اور استحصال کو جتنے خوبصورت اور سہل انداز میں ساحرؔ نے پیش کیا ہے، کوئی دُوسرا شاعر پیش نہیں کر سکا۔ 
 ساحرؔ لدھیانوی کو فلمی قوالی لکھنے میں ملکہ حاصل تھا۔ انہوں نے اب تک کی سب سے بہترین قوالیاں فلموں کو پیش کی ہیں۔ یاد کیجئے فلم ’وقت‘ کی وہ قوالی، جب بلراج ساہنی اپنی ہی بیگم کی تعریف یوں کرتے ہیں :
اے میری زہرا جبیں، تجھے معلوم نہیں 
تو ابھی تک ہے حسیں اور میں جواں 
 فلمی قوالیوں میں ساحرؔ کی لکھی ایک قوالی ابھی بھی میل کا پتھر بنی ہوئی ہے اور آج بھی فنِ قوالی کی لاج بنائے ہوئے ہے۔ فلم ’برسات کی رات‘ کی محمد رفیع وغیرہ کی آواز میں گائی ہوئی یہ قوالی:
نہ تو کارواں کی تلاش ہے، نہ تو ہمسفر کی تلاش ہے
میرے شوقِ خانہ خراب کو، تیری رہ گزر کی تلاش ہے
 فلم ’دھرم پُتر‘ میں ہندوستانی قومی اتحاد کو اُجاگر کرتی ہوئی ساحرؔ کی لکھی یہ قوالی بھی لوگ آج تک بھول نہیں پائے ہیں :
یہ مسجد ہے وہ بُت خانہ چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو
مقصد تو ہے دل کو سمجھانا چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو
 فلم’سادھنا‘ میں ساحرؔ لدھیانوی کی لکھی یہ قوالی آج بھی اُسی طرح مقبول ہے:
آج کیوں ہم سے پردہ ہے
 اور فلم’تاج محل‘ کی یہ قوالی بھی ساحرؔ کی پہچان بنی ہوئی ہے اور ابھی تک اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے:
چاندی کا بدن سونے کی نظر
اُس پر یہ نزاکت کیا کہیے
 اور ’لیلیٰ مجنوں ‘ کی یہ قوالی بھی ساحرؔ ہی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے:
میں تیرے در پہ آیا ہوں 
 فلم’بہو بیگم کی قوالی ’’ایسے میں تجھ کو ڈھونڈ کے لائوں کہاں سے میں ‘‘ بھی ساحرؔ کی لکھی ہوئی مقبول قوالیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی موسیقی روشن نے ترتیب دی تھی۔ 
 اسی طرح راج کپور اور نوتن کی فلم ’دل ہی تو ہے‘ میں ساحرؔ لدھیانوی کی لکھی ہوئی ایک قوالی ’’نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے‘‘ بے حد مقبول کہی جا سکتی ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر بی ایل رویل اور ہدایتکار پی ایل سنتوشی تھے۔ موسیقار روشن کی دُھنوں سے سجی اس قوالی میں عید کے موقع کیلئے ایک بند اس طرح کہا گیا ہے:
جس گھڑی میری نگاہوں کو تیری دید ہوئی
وہ گھڑی میرے لیے عیش کی تمہید ہوئی
جب کبھی میں نے ترا چاند سا چہرہ دیکھا
عید ہو یا کہ نہ ہو، میرے لیے عید ہوئی
 اس قوالی میں ساحرؔ نے جس طرح اس بند میں ’تمہید‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، اسی طرح ایک اور بند میں ’اوجھل‘ اور تہمت‘ کے الفاظ اس طرح استعمال کیے ہیں :
وہ تہمت جسےعشق کہتی ہے دُنیا
وہ تہمت اُٹھانے کو جی چاہتا ہے
وہ جلوہ جو اوجھل بھی ہے سامنے بھی
وہ جلوہ چرانے کو جی چاہتا ہے
 اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ساحرؔ کے بے شمار فلمی نغموں میں اُردو کے ایسے مشکل الفاظ مل جاتے ہیں جو فلمی نغموں میں بہت کم مستعمل ہیں، مگر ساحرؔ نے انہیں بہت خوبصورتی سے اپنے فلمی نغموں میں استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر ’تیر و تفنگ، تہمت، اوجھل، تمہید، غرور، جرمِ اُلفت، قضا کے رستے، ترکِ وفا، جنگ وجدال، فتح و ظفر، ملکیت، کبر وغرور، زنگ، عرش، رنجور، ہدایت کی روشنی، میزان، ناگاہ، بشر، جینے کا شعور اورمرنے کا سلیقہ‘ وغیرہ۔ 
 مشہور گلوکارہ سدھا ملہوترہ جب فلم انڈسٹری میں اپنی پہچان بنا نے کیلئے جد و جہد کر رہی تھیں توساحرؔ نے اُن کو کئی فلموں میں پروموٹ کیا۔ اس کی وجہ سے ان دونوں کے معاشقے کے قصے بھی فلمی گلیاروں سے ہوتے ہوئے فلمی رسالوں تک پہنچنے اور پھیلنے لگے۔ حالانکہ ہمیشہ کی طرح ساحرؔ اس بار بھی خاموش رہے۔ اس کہانی پر وقفہ اُس وقت لگا جب سدھا کی منگنی نیوی کے کسی کمانڈر سے ہو گئی۔ انہیں دنوں ساحرؔ کے دوستوں اور مداحوں نے ’ایک شام ساحرؔ کے نام‘ ایک محفل کا انعقاد کیا۔ اس واقعے کو ابراہیم جلیس نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح بیان کیا ہے:
 ’’ یہ شام کسی عالیشان بنگلے کے ٹیرس پر منائی گئی۔ ان کے دوستوں نے وہاں اظہار خیال کیا، موسیقاروں اور گلوکاروں نے ساحرؔ کے مشہور گیت گائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود سدھا ملہوترہ نے ساحر کے گیت گائے۔ پروگرام کے آخر میں، ساحرؔ نے اپنی نئی اور مشہور نظم ’خوبصورت موڑ‘ سنائی‘‘:
چلو، اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں 
نہ میں تم سے کوئی اُمید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں میں 
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اُسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
 اُس شام کی روداد بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ساحرؔ کی اِس نظم نے وہاں موجود ہر شخص کی آنکھوں کو نم کر دیا تھا اور ماحول پر ایک پُرکیف سناٹا طاری ہو گیا تھا۔ ہر نفس جذباتی تھا اور خاموش بھی۔ سُدھا ملہوترہ اپنے آنسوئوں اور جذبات کو روکنے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھیں اور کچھ کہے سنے بغیر، چپ چاپ فلیٹ کی سیڑھیوں سے اُترکر اپنی کار میں جا بیٹھیں۔ دُوسری طرف ساحرؔ بھی بے قراری اور بے بسی کی کیفیت میں اپنی جگہ سے اُٹھے اور پلٹ کر کسی کی طرف دیکھے بغیر ہی سیڑھیاں اُتر گئے۔ سڑک پر سُدھا اپنی کار میں اور ساحرؔ اپنی کار میں بیٹھ کر دو مختلف سمتوں کی جانب روانہ ہو گئے۔ سارے ماحول اور تمام محفل کو اجنبی بناکر دونوں اپنی اپنی منزلوں کی جانب چلے گئے اور پھر کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے۔ بعد میں اِس نظم کو فلم ’گمراہ‘ میں سنیل دت، اشوک کمار اور مالا سنہا پر بڑی خوبصورتی سے فلمایا گیا۔ 
 اپنی طرز کا یہ واحد اور مقبول ترین شاعر ۲۵؍اکتوبر ۱۹۸۰ء کو سانجھ ڈھلے ۵۷؍برس کی قیدِ حیات سے نجات پاکر اور اپنے الفاظ کا جادو پوری آب وتاب کے ساتھ لوگوں کے دل ودماغ پر چلتا ہوا چھوڑ کر چُپ چاپ گہری اور ابدی نیند سو گیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK