بے شمار فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر کے شہرت کی بلندی پر پہنچنے والوں کی فہرست اس اِنڈسٹری میں بڑی طویل ہے مگر کچھ فنکار ایسے بھی گزرے ہیں جو اپنےکم کام کے باوجود کبھی فراموش نہیں کے جا سکتے۔
EPAPER
Updated: November 19, 2024, 12:18 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
بے شمار فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر کے شہرت کی بلندی پر پہنچنے والوں کی فہرست اس اِنڈسٹری میں بڑی طویل ہے مگر کچھ فنکار ایسے بھی گزرے ہیں جو اپنےکم کام کے باوجود کبھی فراموش نہیں کے جا سکتے۔
بے شمار فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر کے شہرت کی بلندی پر پہنچنے والوں کی فہرست اس اِنڈسٹری میں بڑی طویل ہے مگر کچھ فنکار ایسے بھی گزرے ہیں جو اپنےکم کام کے باوجود کبھی فراموش نہیں کے جا سکتے۔ موسیقار سلیل چودھری ان میں سے ایک ہیں۔ فلموںکی دنیا سلیل چودھری کی موسیقی والے گیتوں سے ہمیشہ روشن رہے گی اور ان کی یاد میں ان کے مداحوں کے دل سے یہ آواز ضرور نکلتی ہوگی کہ
’دل تڑپ تڑپ کے کہہ رہا ہے آبھی جا
تو ہم سے آنکھ نہ چُرا تجھے قسم ہے آبھی جا‘
سلیل چودھری کی پیدائش مغربی بنگال کے سونار پور شہر میں ۱۹؍نومبر۱۹۲۳ء کو ہوئی تھی۔ ان کے والد گیانیندر چندر چودھری آسام میں ڈاکٹر تھے۔ سلیل چودھری کے بچپن کا بیشتر وقت آسام میں ہی گزرا ۔ سلیل چودھری کو بچپن سے موسیقی کا شوق تھا اور وہ موسیقار ہی بننا چاہتے تھے یہ الگ بات ہے کہ موسیقی میں ان کا کوئی استاد نہیں تھا۔ سلیل چودھری کے بڑے بھائی ایک آرکسٹرا میں کام کرتے تھے اور اسی وجہ سے وہ موسیقی کے ہر طرح کے ساز سے واقف تھے۔ انہیں بانسری بجانے کا بچپن سے ہی شوق تھا اس کے علاوہ انہوں نے پیانو اور وائلن بھی سیکھ لیا۔ کچھ عرصے بعد سلیل تعلیم حاصل کرنے کیلئے بنگال آگئے۔ انہوں نے کولکاتا کے مشہور بنگاواسی کالج سےگریجویشن کیا۔ ۱۹۴۰ء میں جدوجہد آزادی شباب پر تھی۔ ملک کو آزاد کرانے کیلئے جاری جدوجہد میں سلیل چودھری بھی شامل ہوگئے اور اس کیلئے انہوں نے اپنی موسیقی والے گیتوں کا سہارا لیا اور اس کے ذریعہ انہوں نے اہل وطن میں بیداری پیدا کی اور ان گیتوں کو غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کیا۔
۱۹۵۰ء کے عشرے میں سلیل چودھری نے مشرق اور مغرب کی موسیقی کو ملاکر منفرد راستہ اختیار کیا جو روایتی موسیقی سے کافی الگ تھا۔اس وقت تک سلیل چودھری کولکاتا میں موسیقار اور نغمہ نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرچکے تھے۔ اپنے خوابوں کو نیا روپ دینےکیلئے۱۹۵۰ء میں وہ ممبئی آگئے۔ ۱۹۵۰ء میں بِمل رائے اپنی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ کیلئے موسیقار کی تلاش میں تھے۔ وہ سلیل چودھری کی موسیقی سے کافی متاثر ہوئے اور اپنی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ میں موسیقی دینےکی پیشکش کی۔ یہ فلم ۱۹۵۲ء میں ریلیز ہوئی اس کے گیت ’آجا ری آ نیندیا تو آ‘ کیلئے موسیقی دی فلم کی کامیابی کے بعد سلیل چودھری کےقدم بطور موسیقار جم گئے۔ فلم ’دو بیگھہ زمین‘ کی کامیابی کے بعد سلیل چودھری بمل رائے کے پسندیدہ موسیقار بن گئے اور اس کے بعدبمل رائے کی فلموں کیلئے سلیل چودھری نے بے مثال موسیقی دے کر ان کی فلموں کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا۔
سلیل چودھری کی سدابہار موسیقی کی وجہ سے بھی بمل رائے کی بیشتر فلمیں آج بھی یاد کی جاتی ہیں۔ ان میں ’دوبیگھہ زمین‘ کے علاوہ ’نوکری‘ (۱۹۵۵ء)، ’پریوار‘ (۱۹۵۶ء)، ’مدھومتی‘ (۱۹۵۸ء)، ’پرکھ‘ اور ’اس نے کہا تھا‘ (۱۹۶۰ء) قابل ذکر ہیں۔سلیل چودھری کے فلمی کریئرمیں ان کی جوڑی نغمہ نگار شیلندر کے ساتھ خوب جمی۔ جوڑی کےجو گیت مقبول ہوئے ان میں ’عجیب تیری دنیا ہو مورے رام‘، ’جاگو موہن پیارے‘، ’آجا رےمیں تو کب سے کھڑی اس پار‘، ’ٹوٹےہوئے خوابوں نے‘، ’آہا رم جھم کے یہ پیارے پیارے گیت لئے آئی رات سہانی‘، ’مورے بابل کا گھر ہے‘، ’ اب متوالے دل ذرا جھوم لے‘ وغیرہ شامل ہیں۔ فلمی کریئر میں سلیل چودھری کی جوڑی نغمہ نگار گلزار کے ساتھ بھی کافی پسند کی گئی۔