ان کی فلمیں انسانی سماج اور اس کے مسائل کی آئینہ دار ہیں۔ وہ اپنی فلموں کی اسکرپٹ لکھنے کے علاوہ ہدایتکاری، کاسٹنگ، کیمرے کا استعمال اور آرٹ ڈائریکشن کے علاوہ فلم کے اشتہار اور دیگر پبلسٹی کا سامان بھی خود ہی تیار کرتے تھے۔ وہ خود ایک تجربہ کار ادیب، پبلشر، اِلسٹریٹر، گرافک ڈیزائنر اور فلموں کے بہترین ناقد بھی تھے
سیتہ جیت رے ۔ تصویر : آئی این این
دو مئی ۱۹۲۱ء کو کلکتہ کے ایک مہذب خاندان میں ستیہ جیت رے کا جنم ہوا۔ اُن کے دادا شری اوپندر کشور رے چودھری بذات خود ایک ادیب، السٹریٹر، فلاسفر اور پبلشر تھے۔ وہ برہمو سماج کے ایک سرگرم کارکن بھی تھے، جو اُنیسویں صدی کے بنگال میں سماج سُدھار کی ایک مقبول تنظیم تھی۔ ان کے والد سوکمار رے مصوری کے ساتھ شاعری کا بھی شوق رکھتے تھے۔ جب ستیہ جیت رے صرف ڈھائی برس کے تھے، ان کے والد سوکمار رے کا۱۹۲۳ء میں انتقال ہو گیا۔ بعد میں ان کی ماں نے ان کی پرورش اپنے چچا کے یہاں کی۔ حالانکہ کلکتہ میں ستیہ جیت رے کا آبائی مکان تھا لیکن دیہات میں ان کی زمینداری کی زمین قرضوں کی ادائیگی میں ختم ہو گئی تھی۔
انہوںنے بالی گنج کے سرکاری اسکول سے دسویں تک کی تعلیم حاصل کی اور۱۹۴۰ء میں کلکتہ کے پریسیڈنسی کالج سے بی اے پاس کیا۔ اُن کی والدہ سو پربھا رے نے اُن کی پرورش بڑی جدوجہد سے کی تھی۔ اُنہی کی کوشش سے ستیہ جیت نے شانتی نکیتن میں داخلہ لیا تھا۔ حیاتیات، کیمیا، طبعیات اور اقتصادیات کے مضامین کے مطالعے کے بعد وہ شانتی نکیتن چلے گئے، جہاں گرودیو رویندر ناتھ ٹیگور سے متاثر ہوکر آرٹ سینٹر میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ ۱۹۴۷ء میں انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر کلکتہ فلم سوسائٹی قائم کی۔ ۱۹۴۸ء میں ان کی ملاقات مشہور فلم ہدایت کار جین رینواں سے ہوئی، جو اس وقت کلکتہ میں اپنی فلم’دی ریور‘ کی شوٹنگکیلئے آئے ہوئے تھے۔ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۴۸ء کو ان کی شادی وجیا کے ساتھ ہو گئی جو ایک عام گھریلو قسم کی لڑکی تھی۔ وجیا کے والد پٹنہ میں بیرسٹر تھے۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد وجیا اپنی بہن کے ساتھ کلکتہ آگئی۔ اس وقت وجیا کی عمر تقریباً ۱۲؍ برس کی تھی لیکن ان کے پاس مغربی موسیقی کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا۔ ستیہ جیت رے کو بھی موسیقی سے عشق تھا۔ اسی موسیقی کی وجہ سے دونوں خاندانوں میں پہلے ہی سے اچھی طرح جان پہچان تھی۔
سال ۱۹۴۳ میں شانتی نکیتن سے فارغ التحصیل ہوکر انہوںنے ایک برٹش اشتہاری کمپنی ’ڈی جے کیمر اینڈکو‘ میں بحیثیت مصور ملازمت کر لی، جہاں ان کو ۸۰؍ روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ ڈی جے کیمر ہی نے ستیہ جیت رے کو ۱۹۵۰ء میں خصوصی تربیت حاصل کرنے کیلئے لندن بھیجا تھا۔ اس اشتہاری کمپنی میں وہ آرٹ ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچے اور جب ۱۹۵۲ء میں ڈی جے کیمر نے اپنی اشتہاری کمپنی بند کر دی تو ستیہ جیت رے نے اپنی ذاتی کلیرین ایڈورٹائزنگ ایجنسی قائم کر لی اور خود اس کے ڈائرکٹر بنے۔ ستیہ جیت رے کچھ عرصہ تک ڈی کے گپتا کے پریس سے بھی وابستہ رہے جہاں انہوںنے بہت سی کتابوں کے سرورق بنائے۔ ان میں جواہرلال نہرو کی کتاب ’ڈسکوری آف انڈیا‘ بھی شامل ہے، جس کا سرورق ستیہ جیت رے نے بنایا تھا۔
ستیہ جیت رے ۱۹۵۰ء میں جب لندن گئے تو انہوںنے وہاں اپنے قیام کے ساڑھے چار ماہ کے عرصے میں تقریباً سو فلمیں دیکھیں۔ ان فلموں سے وہ نہ صرف بے حد متاثر ہوئے بلکہ انہوںنے فلم سازی کے بہت سے تکنیکی پہلو بھی سیکھ لئے۔ وہاں ان فلموں میں سے جس فلم نے ستیہ جیت رے کو سب سے زیادہ متاثر کیا، اُس کا نام ’بائیسکل تھیوز‘ تھا اور تب تھیٹر سے باہر نکلتے وقت ہی انہوںنے طے کر لیا تھا کہ ان کو ایک فلمساز ہی بننا ہے۔
جب وہ پانی کے جہاز سے واپس آ رہے تھے تو اِس طویل سفر کا فائدہ اُٹھاتے ہوئےانہوںنے بنگال کے مشہور ادیب و ناول نگار وبھوتی بھوشن بندھوپادھیائے کے مشہور ناول ’پاتھیر پانچالی ‘ کا فلم کیلئے منظر نامہ خود تحریر کیا۔ بعد میں اس کہانی پر انہوںنے اسی نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس فلم کو بنانے کیلئے کوئی فلم ساز تیار نہ تھا اور نہ ہی کوئی ساتھ دینے والا تھا۔ تب ان کی والدہ نے اُس وقت کے بنگال کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر بی سی رائے کے کسی رشتے دار کی معرفت صوبائی حکومت سے مدد کرنے کی عرضی دی اور اس طرح مغربی بنگال حکومت نے اس فلم کو بنانے میں ستیہ جیت رے کی مدد کی۔ اس کے باوجود ان کو اس فلم کی تیاری کیلئے اپنی بیوی کے زیور بھی فروخت کرنے پڑے۔ اپنی فلم کی شوٹنگ کے دوران تقریباًسبھی کاموں پر وہ خود توجہ دیتے تھے۔ وہ کیمرے کے پیچھے بھی رہتے تھے ، فلم کی ایڈیٹنگ بھی خود کرتے تھے اور ان کو موسیقی کی بھی بڑی اچھی سمجھ تھی۔
جب یہ فلم بن کر نمائش کیلئے ۱۹۵۵ء میں پیش کی گئی تو ملک اور بیرون ملک ’پاتھیر پانچالی‘کو بڑی شہرت حاصل ہوئی...اس طرح ان کے اچھے دنوں کی شروعات ہو گئی۔ ۱۹۵۶ء میں کانس فلم میلے میں اس فلم کی نمائش ہوئی اور عالمی سطح پر اس فلم کے ساتھ ستیہ جیت رے کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔اس کے بعد۱۹۵۷ء میں ان کی ایک اور فلم ’اپراجیتو ‘ کی نمائش ہوئی۔ اس فلم کو بھی پسند کیا گیا اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ۱۹۵۸ء میں اُن کی دو فلمیں ’پارس پتھر‘ اور’جل سادھر‘ نمائش کیلئے پیش کی گئیں۔ ۱۹۵۹ء میں ’اپور سنسار‘ اور ۱۹۶۰ء میں ’دیوی‘ فلموں کی نمائش ہوئی۔ ۱۹۶۱ء میں انہوں نے ٹیگورکی زندگی پر ایک دستاویزی فلم ’رویندرناتھ ٹیگور‘ بنائی اور اس کے ساتھ ہی اسی برس ان کی ایک اور فلم ’تین دیویاں‘ کی نمائش بھی ہوئی۔ یہ اپنی زندگی میں ٹیگور سے بہت متاثر تھے لہٰذا ٹیگور پر اُن کی اس فلم کو بہت پسند کیا گیا۔
ستیہ جیت رے نے اپنی تمام فلموں میں مختلف قسم کے سماجی مسائل کو بیان کیا ہے اور ان مسائل کے حل کیلئے فلم بینوں کی حصے داری کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سب معاشرتی مسائل ہیں اور ان کا حل بھی معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں کو مل جل کر ہی تلاش کرنا ہوگا۔ ستیہ جیت رے نے ہندوستانی سنیما کو اعلیٰ درجے کی تبدیلیاں بخشیں۔ انہوںنے اپنی ہدایتکارانہ صلاحیتوں، تکنیکی اہلیت، نئے موضوعات اور با مقصد استعداد سے فلموں کو باکس آفس کی غلامی سے آزاد کرایا۔۱۹۶۲ء میں ان کی ۲؍ فلمیں نمائش کیلئے پیش کی گئیں۔ ’کنچن جنگا‘ اور ’ابھی جن‘.... ان میں’کنچن جنگا‘ کو کافی شہرت ملی اور اس کے بعد۱۹۶۳ء میں انہوںنے فلم ’مہانگر‘ بنائی۔ ستیہ جیت رے کی ایک اور اہم فلم ’چارولتا‘ ۱۹۶۵ء میں نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ یہ کافی پسند کی گئی۔۱۹۷۰ء میں ان کی فلم ’آرنیئر دن راترے‘ کو بھی کافی شہرت ملی۔
۱۹۷۷ء میں جب ان کی پہلی ہندی فلم ’شطرنج کے کھلاڑی‘ کی نمائش ہوئی تو ایک بار پھر ان کو عالمی سطح پر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ فلم منشی پریم چند کی کہانی پر بنائی گئی تھی۔ اُن کی فلمیں انسانی سماج اور اس کے مسائل کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ خاص طور پر انہوںنے بنگال کے مختلف طبقوں کی سماجی حیثیت کو مدنظر رکھ کر فلموں کی تخلیق کی ہے۔ وہ اپنی فلموں کی اسکرپٹ لکھنے کے علاوہ ہدایتکاری، کاسٹنگ، کیمرہ کا استعمال اور آرٹ ڈائریکشن ،فلموں کے اشتہار اور دیگر پبلسٹی کا سامان بھی خود تیار کرتے تھے۔ وہ خود ایک تجربہ کار ادیب، پبلشر، السٹریٹر، گرافک ڈیزائنر اور فلموں کے بہترین ناقد بھی تھے۔
سال ۱۹۸۱ میں ان کی ایک اور بہترین فلم ’سدگتی‘ کی نمائش ہوئی، اس فلم کو بھی بہت سراہا گیا۔ ۱۹۹۱ء میں ان کی آخری فلم ’آگنتُـک‘ کی نمائش ہوئی۔ عالمی شہرت یافتہ فلمساز و ہدایتکار ستیہ جیت رئے ہمہ جہت قسم کے فنکار ہونے کے باوجود غرور ان کے مزاج میں بالکل نہیں تھا۔ چھوٹے سے چھوٹے فنکار کیلئے بھی ان کے دل میں عزت اور پیار بھرا رہتا تھا۔ چھوٹے اور معصوم بچوں کے ساتھ وہ بھی بچے بن جاتے تھے۔ بچوں کے ساتھ خصوصی لگائو اور پیار ہی کی وجہ سے انہوںنے بچوں کیلئے کئی جاسوسی اور سبق آموز کہانیاں لکھیں، نظمیں لکھیں اور بچوں کے ایک رسالہ’سندیش‘ کی ۳۰؍ برسوں تک کامیابی کے ساتھ ادارت بھی کی ۔ اس کے ساتھ ہی بچوں کیلئے کئی ایوارڈ یافتہ فلمیں جیسے ’پنکو‘اور’ہیرک راجر دیشے‘ کی فلمسازی اور ہدایتکاری بھی کی۔ستیہ جیت رے نے ہالی ووڈ (امریکہ) کیلئے ایک سائنس فکشن فلم ’دی ایلین‘ کے نام سے اسکرپٹ تیار کی تھی۔ یہ دوسری دُنیا کے ایک ایسے کردار کی کہانی تھی جو ہماری زمین پر آجاتا ہے۔ بعد میں انہوںنے خود ہی اس پروجیکٹ کو پس پشت ڈال دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی اس اسکرپٹ اور اسٹیون اسپیل برگ کی فلم’ای ٹی‘ میں کافی یکسانیت ہے۔
ٍ انہوںنے اپنے تقریباً چالیس برس کے فلمی سفر میں ۲۹؍ فیچر فلموں کے علاوہ کئی دستاویزی فلمیں بھی بنائیں۔ جن میں’سکم‘ (Sikkim)، ’دی اِنر آئی‘، ’جے بابا فیلوناتھ‘ اور’سوکمار رائے‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ وہ جتنے خاموش مزاج تھے اتنے ہی وہ زود رنج بھی تھے۔ ان کو غصہ اس وقت آتا تھا جب کوئی ان کی فلموں پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہتا تھا کہ ان کی فلم آرٹسٹک تو ہے لیکن کمرشیل نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ فلموں سے ان کی آمدنی کم ہو گئی تھی لیکن کتابوں اور دیگر تصانیف سے جو رائلٹی ملتی تھی، وہ بھی کچھ کم نہ تھی۔ وہ بے حد سیدھے سادے مزاج کی شخصیت کے مالک تھے۔ لوگ انہیں مانک دا کہتے تھے۔ انہوںنے کبھی اپنے لئے سیکریٹری نہیں رکھا۔ اپنے سارے دفتری کام وہ خود کیا کرتے تھے۔
بمبئی کے کئی فلم اداکاروں کو وہ پسند کرتے تھے۔ خاص طور پر اوم پوری، سمتا پاٹل اور موہن آگاشے کی اداکارانہ صلاحیتوں سے وہ متاثر تھے۔ وہ مانتے تھے کہ بمبئی کے اداکاروں میں زیادہ صلاحیتیں ہیں جبکہ بنگال کے اداکار اس معاملے میں انہیں مایوس کرتے تھے۔ ایک بار دلیپ کمار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر اُن کو موقع ملے اور ان کے لائق کوئی بہتر کردار ہو تو وہ ضرور ستیہ جیت رے کے ساتھ کام کر یں گے اوراس میںانہیں فخر محسوس ہوگا۔ انہیں فلموں کے تقریباً تمام قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔ ۱۹۶۷ء میں میگسیسے اعزاز، ۱۹۷۱ء میں ’اسٹار آف یوگوسلاویہ‘ اعزاز، ۱۹۷۴ء میں رائل کالج آف آرٹس کی ڈی لٹ کی ڈگری، ۱۹۷۶ء میں پدم وبھوشن، ۱۹۷۸ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی ڈی لٹ کی ڈگری اور برلن کا خصوصی اعزاز اور ۱۹۸۵ء میں سوویت لینڈ کا نہرو انعام وغیرہ جیسے بے شمار اعزازات ہیں جن سے انہیں نوازا گیا۔۳۰؍مارچ ۱۹۹۲ء کو انہیں زندگی بھر کی فلمی خدمات کیلئے سب سے بڑے فلمی اعزاز ’آسکر‘ سے نوازا جانا نہ صرف ان کیلئے بلکہ ہم ہندوستانیوں کیلئے بھی فخر کی بات ہے۔ ۱۹۸۵ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور اس کےساتھ ہی ان کو’بھارت رتن‘ کا اعزاز بھی دیا گیا۔
۲۷؍ جنوری ۱۹۹۲ء کو انہیں دل کا دورہ پڑنے کے بعد اسپتال داخل کیاگیا۔ اس کے بعد ان کی صحت گرتی چلی گئی اور۲۳؍اپریل ۱۹۹۲ء کو انہوںنے اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔اُن کا ایک بیٹا سندیپ رائے ہے، جو خود بھی ایک بہترین مصنف اور فلمساز وہدایتکار ہے۔