• Sat, 16 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ستیہ جیت رے نے حقیقت پر مبنی فلموں کو نئی پہچان دلائی

Updated: April 23, 2020, 1:03 PM IST | Agency | Mumbai

حقیقت پر مبنی فلموں کو نئی پہچان دلانے والے ستیہ جیت رے ۲۰؍ ویں صدی کی عظیم عالمی فلمی شخصیات میں سے ایک تھے جنہیں بہترین فلم ہدایتکاروں میں شمار کیا جاتاہے اور انہوںنے ہندوستانی سنیما کوعالمی سطح پر الگ پہچان بخشی ہے۔ مصور کے طورپر اپنے کریئر کاآغاز کرنے والے ستیہ جیت رے کا اطالوی فلم ’بائیسکل چور‘ دیکھنے کے بعد فلم ہدایتکاری کی جانب رجحان بڑھا اور سنیماکی دنیا کو ایک بہترین فلمساز مل گیا ۔ ان کا فلمی سفر ’پاتھیر پانچالی‘ سے شروع ہوا ۔

Satyajit Ray - Pic : INN
ستیہ جیت رے ۔ تصویر : آئی این این

حقیقت پر مبنی فلموں کو نئی پہچان دلانے والے ستیہ جیت رے ۲۰؍ ویں صدی کی عظیم عالمی فلمی شخصیات میں سے ایک تھے جنہیں بہترین فلم ہدایتکاروں میں شمار کیا جاتاہے اور انہوںنے ہندوستانی سنیما کوعالمی سطح پر الگ پہچان بخشی ہے۔
 مصور کے طورپر اپنے کریئر کاآغاز کرنے والے ستیہ جیت رے کا اطالوی فلم ’بائیسکل چور‘ دیکھنے کے بعد فلم ہدایتکاری کی جانب رجحان بڑھا اور سنیماکی دنیا کو ایک بہترین فلمساز مل گیا ۔ ان کا فلمی سفر ’پاتھیر پانچالی‘ سے شروع ہوا ۔ اس پہلی فلم نے ہی جتا دیا کہ سنیما کی دنیا میں ایک بڑی ہستی کی آمد ہوچکی ہے۔ اس فلم کو کئی انعامات ملے اور اس کی گنتی ان کی مشہور فلموں میں ہوتی ہے۔ انہوں نے قریب ۳؍ درجن فلموں کی ہدایتکاری کی۔ انہیں بھارت رتن اور آسکر ایوارڈ سمیت کئی اعزازات ملے ۔ 
 کولکاتا کے ایک بنگالی گھرانے میں ۲؍ مئی ۱۹۲۱ء کو پیداہونے والے ستیہ جیت رے فلمسازی سے متعلق کئی کام خود ہی کرتے تھے۔ ان میں اسکرین پلے، بیک گراؤنڈ میوزک، آرٹ ڈائریکشن اور ایڈٹنگ وغیرہ شامل ہیں۔ فلمساز کے علاوہ وہ مصنف اور مصور اور فلمی ناقد بھی تھے۔ ستیہ جیت رے کا ماننا ہے کہ کہانی لکھنا ہدایتکاری کا اٹوٹ حصہ ہے۔
 ’سینٹر فار اسٹڈیز آف ڈیولپنگ سائیٹز‘ (سی ایس ڈی ایس) سے متعلق روی کانت کے مطابق ادب پر مبنی فلمیں تنقیدوں کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ لیکن ستیہ جیت رے نے ادب کے ساتھ بخوبی انصاف کیا ہے۔ مثال کے طورپر ’شطرنج کے کھلاڑی‘ کو دیکھا جاسکتاہے۔
 روی کانت کے مطابق پریم چند کی کہانی ’شطرنج کے کھلاڑی‘ پر اسی نام سے بنی فلم میں اس وقت کا پورا زمانہ بولتا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے پس منظر پر مبنی اس فلم میں اودھ کی تہذیب بہترین طورپر اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ ان کے مطابق پریم چند اپنی کہانی میں اس زمانے کے بارے میں جو کہنا چاہتے ہیں، ستیہ جیت رے کی فلم میں وہ مزید واضح طورپر سامنے آیا ہے۔ فلم کی توسیع یا پھیلاؤ کہانی کے مقابلہ میں زیادہ واضح ہے۔ دراصل ستیہ جیت رے کتنے بڑے ہدایتکار تھے اس کا پتہ ’شطرنج کے کھلاڑی‘ فلم دیکھ کر لگتا ہے۔ 
 ناول نگار پریم چند کی اس کہانی کے آخر میں دکھایا گیا ہے کہ۲؍ نواب آپس میں لڑتے ہوئے مر جاتے ہیں۔ اس کہانی کے ذریعہ دکھایا گیا ہے انگریزوں کے آنے سے نوابی تہذیب ختم ہوجاتی ہے۔ رے نے اس کہانی کو ایک نیا مطلب دیتے ہوئے اس کا انجام تبدیل کردیا۔ فلم کے آخر میں ۲؍ نوابوں کا رول اداکرنے والے سنجیو کمار اور سعید جعفری ایک دوسرے پر گولی چلاتے ہیں لیکن دونوں بچ جاتے ہیں۔ لہٰذا رے نے یہ حقیقت قائم کرنے کی کوشش کی کہ نوابی تہذیب ختم ہوگئی ہے مگر اس کی برائیاں اب بھی سماج میں موجود ہیں۔ رے نے ایک انٹرویو میں اس فلم کے بارے میں کہا تھا کہ انہیں ہندی نہیں آتی۔ اگر ان کی اس زبان پر قدرت ہوتی تو ’شطرنج کے کھلاڑی‘ ۱۰؍گنا بہتر ہوتی۔
 ناقدوں کے مطابق ستیہ جیت رے نہ صرف فلموں بلکہ خطوں کے ذریعہ بھی اپنی تخلیق کو بہترانداز میں پیش کرسکتے تھے۔ بچوں کی میگزین اور کتابوں کیلئے بنائے گئے رے کے اسکیچ کوآرٹ ناقدآرٹ کے بہترین مصوری کے شعبہ میں رکھتے ہیں۔ رے کی ’چائلڈ سائیکلوجی‘ پر مضبوط پکڑ تھی اور اس بات کی اطلاع ان کی کہانیوں کی سیریز میں ملتی ہے۔ اس سیریزکی کہانیوں کا تجسس اور حیرت انگیز تحریر قارئین کو باندھ کر رکھنے میں اہم رول اداکرتے ہیں۔ رئے ۲۳؍اپریل ۱۹۹۲ء کو چل بسے۔ وہ درجنوں فیچر فلم کے علاوہ کئی مختصر فلمیں اپنے پیچھے چھوڑگئے ہیں جو سنیما کے طلبہ کیلئے نصابی کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK